2012

طالبہ کے پرس سے کیا نکلا؟

کالج کی طالبہ کے پرس سے کیا نکلا؟ ایک دردناک واقعہ جو آپ کو رلا دے گا۔

ایک گرلز کالج میں سرکاری تفتیش آئی اور کالج کے سارے کلاسیز میں گھوم گھوم کر لڑکیوںکے بیگ کی تلاشی کرنے لگی ،ایک ایک لڑکی کے بیگ کی تفتیش کی گئی ،کسی بھی پرس میں کتابیں ،کاپیاں اورلازمی اوراق کے علاوہ کوئی ممنوع شے پائی نہیں گئی ، البتہ ایک آخری کلاس باقی رہ گیاتھا، اوریہی جائے حادثہ تھا ،حادثہ کیاتھا، اورکیا پیش آیا؟ تفتیشی کمیٹی ہال میں داخل ہوئی اور ساری لڑکیوں سے گذارش کی کہ تفتیش کے لیے اپنا اپنا پرس کھول کر سامنے رکھیں۔

ہال کے ایک کنارے ایک طالبہ بیٹھی تھی ،اس کی پریشانی بڑھ گئی تھی ،وہ تفتیشی کمیٹی پردزدیدہ نگاہ ڈال رہی تھی اور شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ۔اس نے اپنے پرس پرہاتھ رکھاہوا تھا !!تفتیش شروع ہوچکی ہے ،اس کی باری آنے ہی والی ہے ،لڑکی کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے …. چندمنٹوں میں لڑکی کے پرس کے پاس تفتیشی کمیٹی پہنچ چکی ہے ،لڑکی نے پرس کو زورسے پکڑ لیاگویا وہ خاموش زبان سے کہنا چاہتی ہوکہ آپ لوگ اسے ہرگزنہیں کھول سکتے ، اسے کہاجارہا ہے ،پرس کھولو! تفتیش کی طرف دیکھ رہی ہے اور زبان بند ہے ،پرس کو سینے سے چپکا لی ہوئی ہے ، تفتیش نے پھرکہا : پرس ہمارے حوالے کرو،لڑکی زور سے چلاکر بولتی ہے : نہیں میں نہیں دے سکتی ۔ پوری تفتیشی کمیٹی اس لڑکی کے پاس جمع ہوگئی ،سخت بحث ومباحثہ شروع ہوگیا ۔ ہال کی ساری طالبات پریشان ہیں ،آخر رازکیا ہے ؟حقیقت کیا ہے ؟ بالآخر لڑکی سے اس کا پرس چھین لیا گیا،ساری لڑکیاں خاموش ….لکچر بند …. ہر طرف سناٹا چھا چکا ہے۔پتہ نہیں کیا ہوگا …. پرس میں کیاچیز ہے ؟

تفتیشی کمیٹی طالبہ کا پرس لیے کالج کے آفس میں گئی ،طالبہ آفس میںآئی ،ادھراس کی آنکھوں سے آنسوو ں کی بارش ہورہی تھی ،سب کی طرف غصہ سے دیکھ رہی تھی کہ بھرے مجمع کے سامنے اسے رسوا کیا گیا تھا ، اسے بٹھایا گیا، کالج کی ڈائرکٹر نے اپنے سامنے پرس کھلوایا، طالبہ نے پرس کھولا ،یااللہ ! کیاتھا پرس میں ….؟ آپ کیا گمان کرسکتے ہیں ….؟پرس میں کوئی ممنوع شے نہ تھی ،نہ فحش تصویریںتھیں ، واللہ ایسی کوئی چیز نہ تھی …. اس میں روٹی کے چند ٹکڑ ے تھے ، اور استعمال شدہ سنڈویچ کے باقی حصے تھے ، بس یہی تھے اورکچھ نہیں ۔ جب اس سلسلے میں اس سے بات کی گئی تو اس نے کہا : ساری طالبات جب ناشتہ کرلیتی ہیں تو ٹوٹے پھوٹے روٹی کے ٹکڑے جمع کرلیتی ہوں جس میں سے کچھ کھاتی ہوں اور کچھ اپنے اہل خانہ کے لیے لے کر جاتی ہوں۔ جی ہاں! اپنی ماں اور بہنوں کے لیے ….تاکہ انہیں دوپہر اور رات کا کھانا میسر ہو سکے ۔ ہم تنگ دست ہیں ،ہماری کوئی کفالت کرنے والا نہیں، ہماری کوئی خبر بھی نہیں لیتا ۔ اور پرس کھولنے سے انکار کرنے کی وجہ صرف یہی تھی کہ مبادا میری کلاس کی سہیلیاں میری حالت کو جان جائیں اور مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے مگر آپ لوگوں نے میرے ساتھ یہ کر کے ہی چھوڑا۔ میں آج سے بعد اب کالج نہیں آسکوں گی ۔ میری طرف سے بے ادبی ہوئی ہے تواس کے لیے میں آپ سب سے معافی کی خواستگار ہوں۔

یہ دلدوز منظر کیاتھا کہ سب کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور سب نے اس طالبہ کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر اس دن کے بعد سے وہ طالبہ کبھی کالج میں نظر نہیں آئی۔

عقل بڑی یا بھینس

پٹھانوں کے گاؤں میں ندی پر پل بنایا گیا۔ انجینیئر نے پل کا افتتاح کیا اور واپس چلا گیا۔

ایک سال بعد وہ واپس گاؤں گیا تو ہر شخص پل اور انجینیئر کی تعریف کر رہا تھا۔ وہ پل کے اوپر گیا تو دیکھا کہ پل تو بالکل نیا کا نیا ہے جیسے کہ کبھی استعمال ہی نہ کیا گیا ہو۔


اس نے حیرانی سے گاؤں والوں سے پوچھا کہ آپ لوگ پل استعمال تو کرتے نہیں پھر میری تعریف کیوں کر رہے ہیں؟

گاؤں والوں نے جواب دیا کہ نہیں جناب! پہلے ہم دھوپ میں ندی پار کرتے تھے۔ اب پل کی پل کی چھاؤں میں پار کرتے ہیں۔

یہ سن کر انجینیئر نے ندی میں کود کر جان دے دی۔

مکافاتِ عمل کی کہانی (ملالہ کے ٹیڈی بیئرکی زبانی)

سنتے ہیں کہ امریکہ میں بیس سال سے کم عمر کی اسی فیصد لڑکیاں کنواری ہی نہیں رہتیں جبکہ ہر سال ایک ملین سے زائد بچیاں ناجائز طور پرحاملہ ہوجاتی ہیں۔ مانع حمل ادویات کا استعمال معمول ہے۔ پیٹ میں پلنے والی گناہ کی نشانیوں پر مانع حمل ادویات کے ڈرون حملوں کی مد میں سالانہ سات بلین ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔ ناجائز بچے پیدا کرنے والی چھپن فیصد کنواری مائیں زیادہ شراب نوشی، سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور اشیا کے استعمال کی وجہ سے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی لاغر ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے بچے جو پہلے ہی نامعلوم باپ کی وجہ سے محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ ماں کی طرف سے بھی توجہ نہ حاصل کرنے کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوکر معاشرے میں بگاڑ اور خرابیوں کا سبب بن جاتے ہیں، تعلیمی ناکامی کا سامنا کرنے پر ذہنی اورغیر ہموار اقتصادی صورتحال انہیں مزید ذہنی مفلوج بنا دیتی ہے۔ اور پھر وہی ہوتا ہے جوامریکی ریاست کنیٹی کٹ میں ایک ذہنی مریض نے پہلے اپنی ماں اور پھر سکول کے معصوم بچوں کیساتھ کیا۔ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے سے پہلےاس نوجوان نے بیس بچوں سمیت چھبیس افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کردئے۔ ہیروشیما اور ناگی ساکی سے لیکر ویتنام اور پھرعراق و لیبیا سے لیکرافغانستان تک امن گردی کے نام نہاد علمبردار بھیڑیوں کے صاف ستھرے اور تعلیم یافتہ معاشرے کے گورے لوگ اب کالی کرتوتوں اور بربریت کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں جس کے بعد خدا کی بے آواز لاٹھی بھی برسنے سے نہیں رکتی۔ جنگوں میں درندگی و سفاکی اور جارحیت کی توجیع تو پیش کی جاسکتی ہے کہ مقتول ہمارے جانی دشمن تھے۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والےاسلامی دہشت گردوںکو امریکہ کی سلامتی کیلیے خطرہ یا معصوم بچوں کو مستقبل کے ممکنہ دہشت گرد قرار دیکر جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ لیکن کنیٹی کٹ کےاس پرائمری سکول کے ہموطن بچے نہ تو جاپانی تھے نہ عراقی اور افغانی۔ وہ نہ تو اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ سمجھے جانے والے فلسطینی تھےاور نہ ہی پشتو، عربی، ازبک یا تاجک زبان بولنے والےاسلامی شدت پسند تھے تو پھران معصوموں کو کس جرم میں قتل کردیا گیا۔ فائرنگ کرنے والے امریکی شخص ایڈم لینزا نے حیران کن طور پر کسی تربیت یافتہ کمانڈو جنگجو کی طرح سیاہ کپڑوں کے ساتھ بلٹ پروف جیکٹ بھی پہن رکھی تھی اور وہ بہت سارے ہتھیاروں سے لیس تھا مگر یہ واضح نہیں ہےکہ اس ” امریکی طالبان” نے ایک گن کے علاوہ باقی ہتھیار استعمال بھی کیے یا نہیں۔ پنٹاگون کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سکول کے بچوں کا قاتل نہ تو پاکستانی ہے نہ مسلمان اور نہ ہی اس نے دہشت گردی کی تربیت سوات یا وزیرستان سے حاصل کی ہے۔ باخدا قاتل کے پاس نہ تو حسن نصراللہ کا مہیا کردہ کوئی راکٹ لانچر تھا اور نہ ہی اس سے کشمیر لبریشن فرنٹ سے ملی ہوئی کوئی خودکار بندوق برامد ہوئی۔ یہ بھی طے ہے کہ نہ تو وہ اجمل قصاب کا رشتے دار تھا اور نہ ہی اسامہ بن لادن کے خاندان کا چشم و چراغ لیکن پھر بھی اس نے کسی ماہر ترین دہشت گرد کی طرح صرف دس پندرہ منٹ میں ستائیس افرادکوانتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔



اب ذرا سوچیے کہ جیو کی محبوب تعلیم یافتہ قوم کے اس گورے سپوت کو کس عالیشان امریکی یونیورسٹی سے انسانیت اور انسانی حقوق کی ایسی اعلی تعلیم ملی اور کون سے روشن خیال اساتذہ نے اسے اس اخلاقیات کا اعلی درس دیا تھا؟ احباب یاد کیجیے کہ امریکی اور ان کے سب اسلام دشمن حواریوں، پاکستان مخالف چیلوں نے ملالہ ڈرامہ رچائے جانے کے بعد کیا کیا کھیل تماشے دکھائے۔ میڈونا سے لے کر انجلینا جولی اور الطاف حسین سے لیکرعاصمہ جہانگیرتک انسانیت کے سب دوستوں نے کتنے ہوش ربا رقص پروگرام کیے کتنے چراغ جلائے، کتنے اشک بہائےاور مسلمان دہشت گردوں کو کتنے کوسنے سنائے لیکن ذرا سوچیے کہ ان امن گرد تعلیم یافتہ”نیک پاک” لوگوں میں ایسا قاتل طالبان کہاں سے گھس آیا؟ شاید وہیں سے جہاں سے قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسی اور فرعون کی غرقابی کیلئے نیل کی خونی لہریں نازل ہوئیں تھیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے دو ہزار سات میں بھی ایسا ہی ایک طالبان کوہ قاف سے اتر کر امریکہ میں داخل ہوا تھا جس کے ہاتھوں ورجینیا ٹیک میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں بتیس افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس ہولناک المیہ پر امریکہ کے امن پسند صدر اوباما نے اپنی مظلوم قوم کی ڈھارس بندھانے اور تسلی دینے کیلئے لڑکھڑاتی آواز اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس سانحے پر ہر ہر درد مند انسان افسردہ ہے سو ہم بھی مغموم ہیں ہیں کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔ اسی حوالے سے آج ایک کالم میں پڑھا تو چند ماہ قبل افغانستان میں ایک جنونی امریکی فوجی کے ہاتھوں بربریت کا نشانہ بننے والے سترہ بچوں اورعورتوں کی موت کا غم پھر سے تازہ ہو گیا۔ رابرٹ بیلز نامی اس امریکی فوجی کی اس ہولناک امن گردی پر امریکہ نے اسے ریمنڈ ڈیوس جیسا انعام دیا یا کچھ اور یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ لیکن ہاں ریمنڈ ڈیوس، رابرٹ بیلز کے ہاتھوں یا ڈرون حملوں سے مرنے والے معصوم اور بیگناہوں کے پیارےابھی تک آسمانوں کی طرف مونہہ اٹھائے نوحہ خوانی ضرور کرتے ہیں۔ آج بھی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں مرنے والے معصوم دہشت گردوں بچوں کے جلے ہوئے افسردہ کھلونے تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے رو رہے ہوں گے لیکن ملالہ جی کی کتاب پر سج سجا کر بٹھایا ہوا کیوٹ ٹیڈی بیئر ہمیشہ مسکراتا رہتا ہے۔ گویا خاموشی کی زبان میں کہہ رہا ہو کہ زمانہء جدید کے سفاک امریکی فرعونوں کے مکافات عمل کا شکار ہونے کا آغاز ہو چکا ہے

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ فاروق درویش

بچپن کے گیت

بچپن کی باتیں چل رہی ہیں تو آج میں آپ کو بچپن کے دو مشہور گیت یا نظمیں سناتا ہوں۔ ۔ ۔

پہلا گیت
لکڑی کی کاٹھی
کاٹھی کا گھوڑا
گھوڑے کے سرپہ جو مارا ہتھوڑا
دوڑا دوڑا دوڑا گھوڑا دم دبا کر دوڑا
گھوڑا پہنچا چوک پہ
چوک پہ تھا نائی
نائی نے پھر گھوڑے کی حجا مت جو بنائی
ٹگ بگ ۔ ۔ ۔ ٹگ بگ!
ٹک ٹک ٹک!
ٹگ بگ ۔ ۔ ۔ ٹگ بگ!
ٹک ٹک ٹک!
(اگر کچھ بھول گیا ہوں تو پلیز آپ بتا دیں۔شکریا!)
٭۔ ۔ ۔ ٭


دوسرا گیت
دس پتے توڑیں گے
ایک پتہ کچا
ہرن کا بچہ
ہرن گئی پانی میں
پکڑو اس کی نانی کو
نانی گئی جیل میں
ہم گئے ریل میں
ریل میں کھائے بسکٹ
بسکٹ بڑے خراب
ہم نے پی شراب
شراب بڑی اچھی
ہم نے کھائی مچھی(مچھلی)
مچھی میں کانٹا
امّی نے مارا چانٹا
چانٹا بڑے زور کا
ہم نے کھائی پولکا
پولکا بڑی ٹھنڈی
ہم گئے منڈی
منڈی سے لائے آلو
پیچھے پڑ گئے بھالو
بھالو کو بھگائیں گے
بھائی کی دلہن لائیں گے
بھائی کی دلہن کالی
سو نخرے والی
ایک نخرہ ٹوٹ گیا
بھائی کا منہ سوج گیا
اگر کچھ بھول گیا ہوں تو پلیز آپ بتا دیں۔شکریہ
٭۔۔۔۔۔٭

مطالعہ کرنے کے لئے بہترین وقت

امریکہ کے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ علی الصباح بیدار ہو کر مطالعہ کرنے والے کالج یا یونیورسٹی کے طلبا رات گئے پڑھنے والے طلبا کی نسبت امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ حال ہی میں کولوریڈو یونیورسٹی میں ماہرین کی ٹیم نے طلبا کی سونے کی عادات، دن کے دوران کام کاج اور دیگر عوامل کے حوالہ سے سروے کیا اور طلبا کے سونے، جاگنے، مطالعہ کرنے کے اوقات کے بارے میں سوالنامے فراہم کیے جن کے جوابات اور طلبا کی امتحانات میں کارکردگی کی روشنی میں ماہرین نے اخذ کیا کہ علی الصباح بیدار ہر کر مطالعہ کرنے والے کالج یا یونیورسٹی کے طلبا رات دیر تک پڑھنے والوں کی نسبت امتحانات میں زیادہ اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں۔
(روحانی ڈائجسٹ مارچ ٢٠٠٩)

جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں تو رات دیر تک پڑھنے والوں میں شامل ہوں اور حقیقت ہے کہ صبح صبح مجھ سے کبھی اچھی طرح نہیں پڑھا گیا۔ اس کے باجود ابھی تک تو الحمد اللہ کبھی بہت “ برے “ نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

افتخار اجمل بھوپال نے اس سلسلے میں اپنے موقر بلاگ میں جو کچھ ارشاد فرمایا تھا، وہ یہ ہے


شعیب سعید شوبی صاحب نے لکھا تھا “امریکہ کے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ علی الصباح بیدار ہو کر مطالعہ کرنے والے کالج یا یونیورسٹی کے طلبا رات گئے پڑھنے والے طلبا کی نسبت امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں”

امریکی ماہرین نفسیات نے درست کہا ہے لیکن شاید ایک صدی یا زیادہ تاخیر سے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے کئی اساتذہ نے یہ ہدائت ہمیں سکول کے زمانہ میں کی تھی کہ رات کو عشاء کے بعد سو جایا کریں اور صبح سویرے اُٹھ کر تھوڑی سی سیر کریں اور پھر نہا کر پڑھا کریں ۔ دوپہر کے بعد آدھ گھنٹہ آرام کریں پھر بیٹھ کر پڑھیں ۔ میرے اساتذہ کے مطابق رات آرام کرنے کے بعد صبح آدمی تازہ دم ہوتا ہے ۔ دوسرے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے دن رات کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ صبح سویرے تازہ ہوا ہوتی ہے جو دماغ کو تازگی بخشتی ہے ۔ اسلئے جو سبق یاد کرنے میں رات کو تین گھنٹے لگتے ہیں وہ صبح ایک گھنٹہ میں یاد ہو جاتا ہے ۔ میں نے مَیٹرک 1953ء میں پاس کیا تھا

ہماری پہلی یا دوسری جماعت کی کتاب میں ایک نظم ہوا کرتی تھی جس میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے سادہ اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھا تھا “دن بنایا محنت کرنے کو اور رات بنائی آرام کرنے کو ۔

میرے والد صاحب[اللہ بخشے] کہا کرتے تھے

Early to bed, early to rise
healthy wealthy and wise

سردیاں ہوں یا گرمیاں میرے والد صاحب سورج طلوع ہونے سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے اُٹھ جاتے اور نہا کر اپنا کاروباری لکھنے پڑھنے کا کام کر کے پھر ناشتہ کرتے ۔ میں اور میرے چند ہم جماعت اندھیرے منہ اُٹھ کر اکٹھے دو کلو میٹر دور شہر سے باہر کی طرف جاتے وہاں سے پھلائی کی ٹہنی کاٹ کر واپسی پر داتن کرتے آتے ۔ گھروں میں پہنچ کر نہا کر پڑھنے بیٹھ جاتے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس کی مرضی ہے لیکن میں ایف ایس سی پاس کرنے تک کبھی عشاء کی نماز کے بعد جاگتا نہیں رہا ۔ اس کے باوجود اللہ کی مہربانی سے میرا شمار اچھے طلباء میں رہا ۔ آٹھویں جماعت کے دوران صرف ایک دن صبح نہیں اُٹھ سکا تھا تو میری والدہ [اللہ جنت نصیب کرے] نے کہا “مسلمان کا بچہ سورج نکلنے کے بعد نہیں اُٹھتا”۔ یہ جُملہ میں کبھی نہیں بھُلا سکتا

رات کو پڑھنے والے صبح سویرے پڑھنے کی افادیت کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اُنہیں مختلف وجوہ نے رات دیر تک جاگنے کا عادی بنا دیا ہوتا ہے ۔ اس میں موجودہ جوان نسل کی نسبت اُن کے والدین کا زیادہ قصور ہے جو فطری نظام کے خلاف رات گئے تک فلمیں یا ڈرامے دیکھنے اور محفلیں سجانے کے عادی ہو گئے ہیں ۔ گوروں کی نقالی جو ہماری قوم نے لباس اور زبان میں کرنے کی پوری کوشش کی رات کو دیر تک جاگنا بھی اسی طرح کی کوشش تھی

صرف چار دہائیاں پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں تمام سکول اور دکانیں گرمیوں میں صبح 7 بجے اور سردیوں میں صبح 8 بجے کھُلتے تھے ۔ دکانیں شام 7 بجے بند ہونا شروع ہو جاتیں اور سب دکانیں 8 بجے تک بند ہو جاتیں ۔ رات کا کھانا سب لوگ سورج چھُپنے کے بعد جلد کھا لیتے ۔ گرمیوں میں صبح ناشتہ دوپہر اور رات کو کھانا کھاتے جبکہ سردیوں میں لوگ صبح اور رات کو کھانا اوربعد دوپر کچھ ہلکا پھُلکا کھا لیتے جسے ناشتہ یا چائے کا نام دیا جاتا ۔ اب کیا ہے ۔ کوّا گیا تھا مور بننے ۔ نہ مور بنا اور نہ کوّا ہی رہا

جن لوگوں کو رات کو جاگنے کی عادت پڑ چکی ہے اگر وہ مسلمان ہیں تو انہیں چاہیئے کہ پہلے صبح سویرے اُٹھ کر نہانے اور فجر کی نماز اوّل وقت میں پڑھنے کی عادت ڈالیں ۔ نماز کے بعد صبح ناشتہ کرنے تک جو سب سے مشکل سبق سمجھیں اسے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں ۔ جب عادت ہو جائے پھر مزید جلدی اُٹھنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا ۔ صبح سویرے نہانے سے آدمی سارا دن تازہ دم رہتا ہے اور صحت بھی اچھی رہتی ہے ۔

آپ کی کیا رائے ہے؟ مطالعہ کے لیے بہترین وقت کون سا ہے؟

چھپن چھپائی


آج میرا بچپن کے کھیلوں کے بارے میں لکھنے کا دل چاہ رہا ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ آج میں آپ کو بچپن کے ایک کھیل کے بارے میں بتاتا ہوں۔ ۔ ۔

چھپن چھپائی
’’چھپن چھپائی‘‘کا کھیل تو آپ نے بھی اپنے بچپن میں ضرور کھیلا ہوگا۔جس میں ایک بچہ چور بنتا ہے،اس کی آنکھیں بند ہونے پر باقی سب بچے چھپ جاتے ہیں۔اب چور بچے کے ذمہ انھیں ڈھونڈ نکالنا ہوتا ہے،جو بچہ سب سے پہلے پکڑا جاتا ہے اگلی مرتبہ اسے چور بنایا جاتا ہے۔پہلی بار چور بننے کے لیے سب بچے تین تین کے گروپ میں مل کر ’’پگنے‘‘ کا ایک کھیل کھیلتے ہیں۔آپس میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر وہ فوراً اپنے اپنے ہاتھ سیدھے یا الٹے جوڑ لیتے ہیں۔جن دو بچوں کے ہاتھ ایک انداز میں سیدھے یا الٹے جڑتے ہیں،وہ پھر سے کسی تیسرے فرد کو شامل کر کے یہی عمل دہراتے ہیں۔ہاتھ مختلف طریقے سے جوڑنے والا بچہ پگ کر کھیلنے والی ٹیم میں شامل ہو جاتا ہے۔اس طرح ہوتے ہوتے آخر میں ایک بچہ ایسا رہ جاتا ہے جو پگنے سے رہ جاتا ہے،اسی کو چور بننا پڑتا ہے۔

اس کھیل میں اکثر بڑی دھاندلیاں یا ’’بے ایمانیاں ‘‘ہوتی ہیں۔اوّل تو چور بنانے کے لیے شروع ہی میں بڑی ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ چالاک بچے آپس میں آنکھوں ہی آنکھوں میں گٹھ جوڑ کر کے ہاتھوں کو سیدھا اور الٹا رکھنے کا طے کر کے کسی ایک بچے کو چور بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔پھر کھیل کے دوران بھی جس کسی کو اگلا چور بنانے کا فیصلہ ہو جائے ، اس کے پکڑے جانے تک باقی بچوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جاتاہے۔

اسٹار پلس کے ڈرامے

خبردار

یہ مضمون پڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ
٭ اس وقت کوئی ڈرامہ مثلاً ’’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ تو نہیں آرہا؟۔ ۔ ۔
٭ کہیں لائٹ تو نہیں چلی گئی؟۔ ۔ ۔
٭ آپ کو پڑھنا تو آتا ہے نا!۔ ۔ ۔

اگر ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو یہ مضمون نہ پڑھیں۔ ۔ ۔ پہلے ڈرامے اور دوسرے کاموں سے فارغ ہو 
لیں پھر اس مضمون کا مطالعہ کریں!۔ ۔ ۔ شکریا

آج کے دور میں ٹی وی نہ صرف گھریلو تفریح کا اچھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کی حیثیت گھر کے ایک فرد جیسی ہو چکی ہے۔جس کے بغیر گھر نامکمل سا لگتا ہے۔ایک طرف اگر دنیا جہاں کی معلومات گھر بیٹھے ملتی ہیں تو دوسری طرف اس کے تفریحی پروگرام کسی طرح بھی طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔آج ملک کے شہری علاقوں کی متوسّط درجے کی ہر فیملی کے گھر میں شام سات بجے سے گیارہ بجے تک خواتین اور اکثر مرد حضرات بھی ٹی وی کے سامنے بغیر پلکیں جھپکائے بیٹھے رہتے ہیں، وہیں کھاتے ہیں، وہیں پیتے ہیں،غرض یہ کہ لیٹرین جانے کی ضرورت بھی پیش آئے تو وقفہ آنے کا انتظار کرتے ہیں۔کبھی کبھی تو ٹیلی فون یا دروازے کی گھنٹی گھنٹوں بجتی ہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

ایک خاتون تو ڈراموں کے دوران بچے ّکو سیریلیکس کھلاتے کھلاتے کئی بار چمچہ اس کی ناک اور کان میں ڈال چکی ہیں۔معصوم بچہ ّ بھی اب اِن حادثات کا اتنا عادی ہوگیا ہے کہ چمچے کا رُخ غلط سمت دیکھ کر خود ہی ہاتھ سے پکڑ کر سیدھا کر لیتا ہے۔

ان ڈراموں کا رنگ ہماری زندگی پر اتنا چھونے لگا ہے کہ ہر لڑکی اپنے آپ کو ’’کشش‘‘، ہر بہو اپنے آپ کو ’’پاروتی‘‘ اور ہر ساس اپنے آ پ کو ’’تُلسی‘‘ سمجھنے لگی ہے۔شادی کے لیے اب لڑکی والوں کو لڑکا ’’سوجل‘‘(اب تُشال) جیسا چاہئے ہوتا ہے اور لڑکے والوں کو لڑکی ’’کُم کُم‘‘جیسی۔آج بچے ّ کسی شادی میں جاتے ہیں تو پوچھتے ہیں ’’یہ کیسی شادی ہے؟ ۔ ۔ ۔ نہ ’’ڈانڈیاں‘‘کھیلی گئیں، نہ ’’پھیرے‘‘ لگے؟‘‘۔ ۔ ۔ کچھ بچے ّ تو ایک دوسرے کو’’دل‘‘ دیتے بھی پائے گئے۔اب کسی بچے ّ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ ویلن ٹائن ڈے کیا ہوتا ہے؟اُسے خود پتا ہوتا ہے۔

پہلے فیشن برسوں میں بدلتا تھا۔ اب اسٹار پلس کے ہر ڈرامے کے ساتھ روز بدلتا ہے۔ پہلے مرد ٹخنوں سے اوپر شلوار پہنتے تھے،اب خواتین پہنتی ہیں۔بازاروں میں ’’کُم کُم ‘‘ کی چوڑیاں، ’’کشش‘‘ کی سینڈیلیں اور ’’تُلسی‘‘ کی ساڑھیاں تک ملنے لگی ہیں۔بائی دا وے۔۔۔۔ میں نے تو ’’کُم کُم‘‘ چھالیہ بھی کھائی ہوئی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اسٹار پلس کے ڈرامے جہاں ’’رنگین ‘‘ اور ’’گلیمر‘‘ سے بھرپور ہوتے ہیں وہیں ہندوانہ مذہبی شعائر کے اعلیٰ تربیتی مراکز بھی ہیں۔ان میں نہ صرف ہندومت کے نظریات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ گھر بیٹھے لوگوں کو مفت ہندوانہ مذہبی رسومات کی تربیت دی جارہی ہے۔ ان کے شاندار نتائج سے روگردانی بھی نہیں کی جاسکتی ۔ ان ڈراموں کا ہی اثر ہے جو اب آہستہ آہستہ ہم لوگ اپنے اسلامی دنوں کو تو بھولتے جارہے ہیں مگر ہمیں ہند ؤوں کے خاص دن یاد رہتے ہیں۔

شاید ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا ۔ہم نے اگر اب بھی نہ سوچا، اب بھی نہ سمجھا اور اب بھی نہ جانا تو شاید میڈیا کے ذریعے پھیلتا ہوا یہ ثقافتی زہر ہمارے معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔آج اگر ایک ناپختہ ذہن بچہ ہندوانہ مذہبی رسومات کومعمولاتِ زندگی سمجھ کرسیکھ رہا ہے تو کل وہ کس کے گریبان میں ہاتھ ڈال کراپنا ’’اسلامی تشخّص ‘‘ تلاش کرے گا؟

میرا خیال ہے کافی لمبا ’’جلسہ‘‘ ہوگیا۔ اب مجھے اجازت دیں۔میں نے ابھی ’’کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی ‘‘ بھی دیکھنا ہے۔


نوٹ: یہ مضمون اسٹار پلس کریز (پاگل پن) زمانے کی یادگار ہے اور پرانے بلاگ کی بیک اپ سے حاصل ہوا ہے۔ اب تو اسٹار پلس کا زمانہ لد چکا۔۔!۔

ایک کرکٹر کی آپ بیتی


میں ایک عظیم کرکٹر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ اور آج اپنے شاندار ماضی کے ایام یاد کر کے اور ٹھنڈی آہیں بھر کے وقت گزارتا ہوں۔

مجھے بچپن ہی سے کر کٹ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ۔ ۔ خوابوں میں ، میں خود کو جاوید میانداد ، عمران خان اور وسیم اکرم تصور کرتا تھا۔ ۔ ۔ ہم لوگ ویسے تو متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر ہمارے والد صاحب کے کئی زمینداروں،وڈیروں اور اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ گہرے روابط تھے۔ چنانچہ کہاں میں گلیوں میں ٹیپ بال سے کھیلا کرتا تھا مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں انڈر 16 ٹیم میں شامل ہوگیاکرکٹ سے والہانہ لگاؤ اور والد صاحب کے تعلقات کی بدولت میں انڈر 19 میں جا پہنچا۔یہ دور بڑا ہی سخت دور تھا اورمجھے نہایت سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔دن کا زیادہ تر وقت پریکٹس میںگزارنا پڑتا تھا۔

ایک دفعہ ہمارا انگلینڈ کا دورہ ہوا۔اس دورے میں ، میں نے نہایت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سلیکٹرز میری پر فارمنس سے نہایت متاثر ہوئے اور انھوں نے مجھے قومی کرکٹ ٹیم کی طرف سے ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع دے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ والد صاحب کی کوششیں بھی اس میں شامل تھیں۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ٹیسٹ میچ میں ، میں نے ایک نصف سینچری اسکور کر ڈالی۔تین وکٹیں بھی خوش قسمتی سے حاصل کیں ۔ 

اس طرح میں قومی ٹیم میں شامل ہوگیا۔ اپنی آل راؤنڈ کارکردگی کی وجہ سے ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کراتا رہا۔ میری پرفارمنس خراب بھی رہتی تو پھر بھی سلیکٹرز مجھے ڈراپ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ والد صاحب کی کافی ’’اُوپر‘‘ تک پہنچ تھی۔

میں نے تین ورلڈ کپ بھی کھیلے ، جس میں سے ایک میں ، میں نے کپتانی بھی کی۔ جس میں ہماری ٹیم کو بری طرح شکست ہوگئی۔ ۔ ۔ بس یہ میرے کیرےئر کا گویا اختتا م تھا کیونکہ اس کے بعد مجھ پر سٹے بازی اور میچ فکسنگ کے الزامات لگنا شروع ہوگئے۔ میری کرکٹ جاری تو رہی مگر اب میں پہلے جیسا بہترین کھلاڑی نہ رہا تھا۔ کچھ عرصہ بعد وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ مجھ پر الزامات ثابت ہوگئے ۔ مجھے ناصرف ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا بلکہ ۵۰ لاکھ روپے کرکٹ بورڈ کو جرمانہ کے طور پر بھی ادا کرنے پڑے۔(اُن پیسوں سے میرا ایک فیکٹری کھولنے کا ارادہ تھا)۔ میں نے اپنے ساتھی کرکٹرز کے ساتھ مل کر اور انھیں بھرپور اعتماد میں لے کر سٹے باز سے بات کی تھی، مگر وہ مشہور مقولہ ہے نا ۔ ۔ ۔ ’’گھر کا بھیدی ، لنکا ڈھائے‘‘ ۔ ۔ ۔ بس یہی کچھ ہوا اور میرے ساتھیوں نے (خدا اُنھیں غارت کرے)عدالت کو سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔

۔ ۔ ۔ چنانچہ میں بدنام ہو کر رہ گیا۔ آج بھی میں اس وقت کو کوستا ہوں، جب میں نے چند روپوں کی خاطر اپنا ضمیر بیچ دیا اور عزت ، دولت اور شہرت ہر چیز سے محروم ہوگیا۔ ۔ ۔ میرے دل سے تو بس یہی دعا نکلتی ہے۔


کسی کو خدا نہ برے دن دکھائے
برے وقت میں ہوتے ہیں اپنے، پرائے


٭۔ ۔ ۔ ٭

ماما دے (رحیم شاہ)

رحیم شاہ کا یہ گانا سمجھ میں نہ آنے کے باوجود بھی بہترین لگ رہا ہے۔ مجھے تو یہ رحیم شاہ کے اردو گانوں سے بھی لاکھ درجہ بہتر لگا ہے۔ ویڈیو بھی بہت اچھی ہے اس گانے کی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟


اس گانے کے پشتو بول (لیرکس) اور اس کا ترجمہ جناب تلخابہ (ابوسعد) صاحب نے مجھے لکھ کر دے دیے ہیں۔(ابوسعد !۔۔۔۔آپ کا بے انتہا شکریہ!)۔۔۔۔۔۔۔نیلے رنگ میں گانے کا ترجمہ ہے۔ اب گانا سننے میں یقینا لطف آئے گا


اسلام علیکم ! رحیم شاہ دہ کراچی نہ ، یوسف دہ لندن نا، جواد اور شاہ جہان دا جرمن نہ زکہ راغلی وہ چہ دہ ماما دہ زوی وادہ وہ۔
ماما دے
چہ خاندی خوشالیگی پہ جامو کے نہ زائیگی
دہ خپلو خورایانوں سرہ ہر زائے تہ رسیگی
چہ خاندی خوشالیگی پہ جامو کے نہ زائیگی
دہ خپلو خورایانوں سرہ ہر زائے تہ رسیگی
ماما دے
اوکنا ،
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما

نظر ساتی پہ ہر سڑی بیدارہ وی ہر وختے
خوری و سرہ ولاڑ وی لکہ خستہ دہ چنار لختے
کہ ضد دی ورسرہ وکڑو نو بیا بہ ترنا تختے
اللہ دی ورتہ خیر کڑی دا زل نمبر دہ چا دے
ماما دے ۔۔۔۔
اوکنا ،
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما

پہ اسٹائل او انداز کے پہ مزہ مزہ روان وی
سلور واڑہ چی یو زی شی بیا گورہ شاہ زادگان وی
بیا داسے معلومیگی چی ہوم دوی زمونگ پیران وی
خو خیال کوہ پہ ٹولو کے انداز دہ دہ جدا دے
ماما دے
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما

یو خبرہ واورہ چی ہوم دے دہ کار سڑے دے
پہ عمر کے بہ زیات وی خو پہ زڑہ باندے زلمے دے
چہ گوتے ورتہ نہ کڑی بیا لمبہ اخلی لیتکے دے
زمونگ دہ ٹولو یار دے او دہ ہر سڑی آشنا دے
ماما دے
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
زندہ باد خوریانو زندہ باد

اسلام علیکم ! رحیم شاہ کراچی سے ، یوسف لندن سے ، جواد اور شاہ جہان جرمنی سے اس لیے آئے تھے کیوں کہ ان کے ماموں کے بیٹے کی شادی تھی۔

ماموں ۔
جب ہنستے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے
اپنے بھانجوں کے ساتھ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں
جب ہنستے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے
اپنے بھانجوں کے ساتھ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں
ماموں ۔
بالکل جی
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں

ہر کسی پر نظر رکھتے ہیں ، ہر وقت چوکس رہتے ہیں
بھانجے اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں چنار کی لکڑیوں کی طرح
اگر ان کے ساتھ آڑ گئے تو پھر بھاگنا پڑے گا
اللہ اس پر رحم کرے جس کی اس بار باری ہے
ماموں
بالکل جی
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں

خاص اسٹائل اور انداز میں دھیرے دھیرے چلتے ہیں
جب چاروں ملتے ہیں تو شہزادے لگتے ہیں
پھر ایسے لگتا ہے جیسے یہی ہمارے پیر ہوں
لیکن انداز میں یہ سب سے جدا ہے
ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں

یہ ماننا پڑے گا کہ یہ کام کا آدمی ہے
عمر میں زیادہ لیکن دل سے جوان ہے
چھیڑنا نہیں ورنہ آگ کی طرح بھڑک اٹھے گا
یہ ہم سب کے یار اورہر کسی کا دوست ہے
ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
زندہ باد میرے بھانجوں زندہ باد

اے جذبہ دل گر میں چا ہوں ہر چیز مقا بل آ جائے


اے جذبہ دل گر میں چا ہوں ہر چیز مقا بل آ جائے
منزل کے لئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

اے دل کی خلش چل یونہی سہی چلتا توہوں اُنکی محفل میں
اُس وقت مجھے چو نکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے

ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے

اے ر ہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں ، پر یاد رہے
اُس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے

اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم ِ کرم، ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبہ غم ، مشکل پس ِ مشکل آجائے

بہزاد لکھنوی


قاری عبد الباسط

تاریخ میں اتنی شہرت شاید ہی کسی قاری کو ملی ہو، جتنی کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے قاری عبد الباسط کے نصیب میں لکھی۔ مصر سے تعلق رکھنے والے یہ عظیم قاری 1988ء میں آج ہی کے دن، یعنی 30 نومبر کو، ہم سے بچھڑ گئے۔ آپ کی آواز میں اللہ کی آخری کتاب "قرآن مجید" کی خوبصورت تلاوت آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔دلنشیں آواز اور منفرد اندازکے حامل قاری عبد الباسط کا پورا نام عبد الباسط بن محمد بن عبد الصمد بن سلیم تھا اور دنیائے عرب میں آپ عبد الباسط عبد الصمد کے نام سے جانے جاتے تھے۔ آپ 1951ء میں ریڈیو قاہرہ پر تلاوت پیش ہوتے ہی ملک بھر میں مشہور ہو گئے اور پھر آہستہ آہستہ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں آپ کی تلاوت نے لوگوں کے دل موہ لیے اور حکومت مصر نے آپ کو "کتاب اللہ کا سفیر" کا خطاب دیا۔

قاری عبد الباسط ہی کی وجہ سے عرب و عجم کے نوجوانوں میں قرآن مجید کی قرات کا شوق پیدا ہوا اور مقابلہ حسن قرات کی روایت زور پکڑتی چلی گئی۔ آپ واحد قاری تھے جنہوں نے 1970ء کی دہائی میں تین مرتبہ عالمی مقابلہ حسن قرات جیتا اور آپ اُن اولین حفاظ کرام میں سے تھے جنہوں نے اپنی قرات کی کمرشل ریکارڈنگ کروائی۔

آپ کو حرمین شریفین یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی کے علاوہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ، دمشق میں اموی مسجد اور پاکستان میں بادشاہی مسجد سمیت دنیا بھر کے ممالک میں تلاوت قرآن مجید کا شف ملا اور جہاں بھی گئے فرزندانِ توحید کے دلوں کو اپنی آواز سے گداز کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے امریکہ، یورپ، افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک کے دورے بھی کیے۔

آپ کو حکومت مصر کے علاوہ شام، ملائیشیا، پاکستان اور سینی گال کی جانب سے اعلیٰ قومی اعزازات سے نوازا گیا۔

قاری عبد الباسط کی زندگی کے آخری ایام ذیابیطس اور جگر کے عارضے میں گزرے، یہاں تک کہ آپ 30 نومبر 1988ء کو مصر میں انتقال کر گئے۔

آپ کی نماز جنازہ سرکاری سطح پر ادا کی گئی اور کئی مسلم ممالک کے سفیروں حتیٰ کے سربراہان مملکت نے بھی آپ کی آخری رسومات میں شرکت کی۔

دین اسلام کے مطالعہ کی اہمیت



یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے۔ دین ہمیں ورثے میں ملا۔ لیکن یہی امر اس وقت ہماری بد قسمتی بن جاتا ہے جب ہم صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں۔ جنت میں جانا ہمارا حق ہے۔ حالانکہ اپنی زندگی ایک نظم و ضبط سے گزارنے کے لیے، اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے ہمیں اس دین ِ بر حق کوخود سمجھنا چاہئے،قر آن پاک کا خود مطالعہ کرنا چاہئے، اس کے مفاہیم تک ہماری اپنی رسائی ہونی چاہئے۔ احادیث نبوی  ﷺ  ہمیں خود پڑھنا چاہئیں، ان کے معانی اور تشریح تک ہمیں خود پہنچنا چاہئے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے، پاپائیت نہیں ہے۔ مذہبی امور جیسے دوسرے مذاہب میں پادریوں اور پنڈتوں پر چھوڑ دیے جاتے ہیں، ہمارے دین میں ایسا نہیں ہے۔ ہر مسلمان کو اپنے اعمال کا
جواب خود دینا ہے۔ اپنا حساب خود چکانا ہے۔           

٭تاثرات از محمود شام٭
مطالعہ قرآن (حصہ اول)مفتی حافظ قاری محمد حسام اللہ شریفی صفحہ ۷

ایک مسافر شاعر


کراچی شہر میں بس کا سفر یقینا ایک الگ ہی تجربہ ہوتا ہے۔جس میں انسان کے کئی رُوپ سامنے آتے ہیں ۔بس کے سفر میں بعض اوقات ایسے انوکھے اور دلچسپ واقعات پیش آتے ہیں جو مسافروں کے لئے خوشگوار یاد اور ناقابل فراموش بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ڈان اخبار میں شائع ہوا جیسے ’’اے۔ قاضی شکور‘‘ نے انگریزی میں تحریر کیاہے۔ اس واقعے کا خلاصہ ترجمہ کی صورت میں یہاں پیش کرہا ہوں۔


بس میں سفر کے دوران کسی اسٹاپ سے ایک شخص سوار ہوا۔ بس چونکہ بھری ہوئی تھی۔ لہٰذا وہ بڑی مشکل سے آگے بڑھتا ہوا بالآخر جالی یا (گِرل) تک پہنچ گیا، جو لیڈیز پورشن کے پارٹیشن کے لئے لگی ہوتی ہے۔ وہ شخص کچھ دیر اپنی چڑھی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا۔پہلی نظر میں وہ کوئی بھکاری ہی محسوس ہوا۔ مگر جب اس نے نہایت خوش الحانی سے اپنی ’’مدّعا ‘‘ سنائی تو مسافروں پر اس کا کیا ’’اثر ‘‘ ہوا؟۔ ۔ ۔ یہ آپ کو بعد میں پتا چلے گا!۔ ۔ ۔ پہلے آپ اس اجنبی شخص کی ’’منظوم مدّعا ‘‘ ملاحظہ فرمائیں!۔ ۔ ۔

اچھا تو بھائی جان، قدردان، مہربان!
اب دل پر ہاتھ رکھ کے سنیں میری داستان!
کرتے ہیں آپ بس میں سفر روز، صبح و شام
بس یونہی چل رہا ہے اس شہر کا نظام
ملتے ہیں بس میں آپ کو ہاکر نئے نئے
سنتے ہیں آپ روز ہی لیکچر نئے نئے
کپڑوں پر کوئی آپ کے خوشبو لگائے گا
بسکٹ دکھائے گا، کوئی ٹافی کھلائے گا
یا کچھ ملیں گے آپ کو محتاج اور فقیر
جو خود بھی تھے کبھی بڑے خوش حال اور امیر
ایک حادثہ ہوا تو وہ معذور ہوگئے
خیرات مانگنے پہ وہ مجبور ہوگئے
لیکن نہیں ہوں میں کوئی محتاج یا فقیر
ہوں خود کفیل خیر سے، ایک مردِ باضمیر
جیبوں سے پیسے کھینچنے آیا نہیں ہوں میں
کچھ مانگنے یا بیچنے آیا نہیں ہوں میں
دراَصل بات یہ ہے کہ شاعر ہے خاکسار
لیکن ہوں بدنصیب، نہیں کوئی میرا یار
ٹی وی سے، ریڈیو سے، محافل سے دُور دُور
راہی کی طرح جوکہ ہو منزل سے دُور دُور
دیوار ودَر کو گھر میں سناتا ہوں میں کلام
بس آپ سے ہے عرض میری کیجئے یہ کام
سو کے قریب آدمی موجود ہیں یہاں
بس میں مشاعرے کا بندھے اگر سماں
سن لیجئے غزل میری، احسان کیجئے!
اور بھیک میں غریب کو کچھ داد دیجئے!

’’ مسافر شاعر‘‘ کی مدّعا سن کرسوائے ان مسافروں کے جو بیچارے بس کی چھت میں سوار تھے ، بس کے تمام مسافراس کے ’’فن‘‘ کے قائل ہوگئے اورانھوں نے ’’مسافر شاعر‘‘ کو بھرپور داد دیتے ہوئے اس کی ’’تازہ غزل ‘‘ سننے پر آمادگی ظاہر کردی۔ ۔ ۔ !

سفر آخرت (آخری حصہ)

نیک اعمال کا آنا کم ہوتا چلا گیا۔ نہ معلوم کیا وجہ تھی کہ سورۃ الملک کا آنا بھی موقوف ہو گیا۔ میری قبر میں پھر اندھیرا چھا گیا۔ مجھے بعض گناہ یاد آئے جو میں نے کیے تھے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک گھڑی یاد آرہی تھی ۔ مجھے اپنے گناہ پہاڑ کے برابر لگ رہے تھے۔ میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا۔ کتنے گناہ تھے جو میں نے دیدہ دلیری سے کیے تھے۔ کتنی نمازیں تھیں جو میں نے ادا نہیں کی تھیں۔ کتنی فجر کی نمازیں تھیں جو میں نے غفلت کی وجہ سے نہیں پڑھیں۔

یہ سارے گناہ یاد کر کے میں نجانے کتنا روتا رہا؟ اگر میں کہہ دوں کہ مہینوں رویا ہوں گا تو مبالغہ نہیں ہوگا۔

ایک دن اچانک ایسی روشنی آئی جیسے سورج نکل چکا ہو اور میں نے فرشتوں کی آوازیں سنیں کہ وہ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے کہ اچانک میرے پاس سورۃ الملک آئی اور خوشخبری سنانے لگی: رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا ہے اور اس میں بہت سارے مرحومین مسلمانوں کی دعاؤں کی برکت سے نجات پا لیتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر کتنا مہربان ہے لیکن انسان ہے کہ گمراہی پر تُلا ہوا ہے۔

سورۃ الملک نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو آگ میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن یہ انسانوں کی اپنی حماقت ہوتی ہے کہ وہ ایسے گناہ کر جاتے ہیں جو ان کی سزا کا موجب بن جاتے ہیں۔
پھر اس نے کہا: اب تھوڑی دیر بعد مسلمان نماز پڑھیں گے اور تم ان کی آواز بھی سنو گے۔سورۃ الملک چلی گئی۔ میری قبر کی روشنی بدستور موجود تھی۔میں نے قبر میں پہلی بار مسجد سے آنے والی آواز سنی۔ اپنی زندگی کو یاد کیا ۔ مجھے نماز تراویح کی یاد آگئی۔میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں نے سنا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور پھر میں نے امام کی دعا سنی۔ وہ دعا مانگ رہے تھے:


اللهم لا تدع لنا في مقامنا هذا ذنبا الا غفرته ولاهما الا فرجته ولا كربا الا نفستهولا مريضا الا شفيته ولا مبتليً الا عافيته ولا ميتا الا رحمته برحمتك يا ارحم الراحمين۔


اس دعا سے مجھے بہت سکون ملا اور میں نے تمنا کی کہ کاش امام دعا کو طویل کر دے۔ میں نے محسوس کیا کہ امام صاحب کی دعا فوری قبول ہورہی ہے کیونکہ مجھے اس سے کافی خوشی اور راحت مل رہی تھی۔ میں روتا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ آمین پڑھتا جا رہا تھا۔ اس طرح رمضان کا سارا مینہ بہت سکون اور آرام سے گزرا۔

ایک دن میری قبر میں انسان کی شکل میں ایک آدمی آیا جس سے بہت تیز خوشبو آ رہی تھی۔ میں حیران ہوا کیونکہ مرنے کے بعد یہ پہلا انسان تھا جو میں دیکھ رہا تھا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور میں نے اسے سلام کا جواب دیا۔ اس نے کہا: میں تمھیں بشارت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے گناہ معاف کر دیے ہیں۔

میں نے کہا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ کون ہیں؟ میں پہلی دفعہ قبر میں انسان کی شکل دیکھ رہا ہوں۔ اس نے کہا: میں انسان نہیںہوں۔ میں نے پوچھا: کیا آپ فرشتے ہیں۔ اس نے کہا: نہیں بلکہ میں تمھارا نیک عمل ہوں۔ تمھاری نمازیں، تمھارے روزے، حج، انفاق فی سبیل اللہ، صلہ رحمی وغیرہ وغیرہ کو اللہ تعالیٰ نے اس شکل میں تمھارے پاس بھیجا ہے۔

میں بہت خوش ہوا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر اس سے پوچھا: تم اتنی تاخیر سے کیوں آئے؟

اس نے کہا: تمھارے گناہ اور تمھارے قرضے میری راہ میں رکاوٹ تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے معافی کا اعلان کر دیا تو میرے لیے راستہ کھل گیا۔

میں نے پوچھا: تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر ے گا؟

اس نے کہا: یہ بات اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔قیامت کے روز اس بات کا تعین ہوگا کہ تم جنت میں جاؤ گے یا دوزخ میں۔

اس کے بعد عمل صالح نے کہا: تمھارے کچھ نیک اعمال بالکل زندگی کی آخری گھڑیوں میں آگئے۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے؟

اس نے کہا: اگر تمھیں یاد ہو کہ مرتے وقت اللہ تعالیٰ نے تمھیں توفیق دی تھی اور تم نے کلمہ شہادت پڑھاتھا۔تمھیں اندازہ نہیں ہے کہ فرشتوں کو اس بات کی کتنی خوشی ہوئی کہ تمھاری زندگی کا خاتمہ توحید پر ہوا جبکہ شیطان لعین تمھیں نصرانیت اور یہودیت کی تلقین کر رہا تھا۔ اس وقت تمھارے ارد گرد دو قسم کے فرشتے موجود تھے۔ ایک وہ جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔جب تم نے کلمہ پڑھا تو وہ فرشتے چلے گئے جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور وہ ٹھہر گئے جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور انھوں نے ہی تمھاری روح قبض کی۔

میں نے پوچھا: اس کے علاوہ بھی کوئی نیکی ہے؟

اس نے کہا: ہاں جب تم نے ڈرائیور کو سگریٹ چھوڑنے کی نصیحت کی تو آج جو خوشبو تم محسوس کر رہے ہو، یہ اس نصیحت کی بدولت ہے۔
اس کے علاوہ اپنی والدہ کو جو تم نے فون کیا اور ان کے ساتھ تم نے جو بھی باتیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات کے بدلے تمھارے لیے نیکیاں لکھ دیں۔

مجھے وہ باتیں یاد آئیں جو میں نے والدہ سے کی تھیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اگر مجھے پتا ہوتا تو میں ان باتوں میں گھنٹے لگا دیتا۔

پھر عمل صالح نے مجھے بتایا: زندگی کے آخری وقت میں ایک گناہ بھی تمھارے کھاتے میں لکھا گیا۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا: وہ کون سا؟ اس نے جواب دیا: تم نے اپنی بچی سے کہاتھا کہ میں تھوڑی دیر میں آجاؤنگا۔ اس طرح تم نے اسے جھوٹ بولا۔ کاش مرنے سے پہلے تم توبہ کر لیتے۔

میں رویا اور پھر اسے بتایا: اللہ کی قسم میرا ارادہ جھوٹ کا نہیں تھا بلکہ میں میرا ارادہ اسے مطمئن کرنے کا تھا تاکہ وہ میری واپسی تک صبرکر لے مگر ایسا نہ ہو سکا۔

اس نے کہا: جو بھی ہو۔ آدمی کو ہمیشہ سچ بولنا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ سچے لوگوں کو پسند کرتا ہے اور جھوٹ بولنے والوں کو ناپسند کرتا ہے، مگر افسوس لوگ اس معاملے میں بہت تساہل اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

پھر اس نے بتایا: تمھاری وہ بات بھی گناہ کے کھاتے میں لکھ دی گئی تھی، جو تم نے ایئر پورٹ میں کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہی تھی کہ اللہ تمھارا حساب کر دے۔ اس طرح تم نے ایک مسلمان کا دل دکھایاتھا۔ میں حیران ہوگیا کہ اتنی معمولی باتیں بھی ثواب اور گناہ کا باعث بنتی ہیں!

عمل صالح نے مزید بتایا: یہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ جب وہ ایک نیکی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے 10 گناہ بلکہ 700 گنا بڑھا دیتا ہے مگر ایک گناہ کو ایک ہی شمار کرتا ہے اور بہترین اعمال وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

میں نے پوچھا: پنج وقتہ نماز کے بارے میں کیا خیال ہے؟

عمل صالح نے بتایا: نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ تو فرائض ہیں۔میں ان کے علاوہ بھی تمھیں ایسے اعمال بتاؤنگا جو اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہیں۔

میں نے پوچھا: وہ کیا ہیں؟

اس نے بتایا: تمھاری عمر جب بیس برس تھی تو تم عمرے کے لیے رمضان کے مہینے میں گئے تھے اور تم نے وہاں سو ریال کی افطاری خرید کر لوگوں میں تقسیم کی تھی، اس کا بہت زیادہ اجر تم نے کمایا ہے۔

اسی طرح ایک بار ایک بوڑھی عورت کو تم نے کھانا کھلایا تھا۔ وہ بوڑھی ایک نیک عورت تھی۔ اس نے تمھیں جو دعا دی اس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے تمھیں بہت اجر و ثواب عطا کیا ہے۔

اسی طرح ایک بار تم مدینہ جا رہے تھے کہ راستے میں تمھیں ایک آدمی کھڑا ہوا ملا، جس کی گاڑی خراب تھی۔ تم نے اس کی مدد کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کو تمھاری وہ نیکی بہت پسند آئی اور تمھیں اس کا بہت زیادہ اجر ملا ہے۔

اس کے بعد میری قبر کھل گئی اور اس میں بہت زیادہ روشنی آگئی ۔ مجھے فرشتوں کے گروہ درگروہ آسمان سےاُترتے ہوئے دکھائی دیے۔ عمل صالح نے بشارت دی: آج لیلۃ القدر ہے!

٭۔۔۔ ۔٭

 ذرا سوچئے!

یہ کہانی عبرت کے لیے لکھی گئی ہے ،لیکن احادیث مبارکہ کے بیان کے عین مطابق ہے۔

1۔ کیا یہ کہانی پڑھنے کے بعد بھی ہم آخرت کے لیے فکرمند نہیں ہوں گے؟

2۔ کیا اب بھی ہم گناہ کریں گے؟

3۔ کیا اب بھی ہم فجر کی نماز میں اللہ کے حضور غیر حاضر رہیں گے؟

4۔ کیا مسجد کی باجماعت نماز ہمارے لیے باعث رحمت نہیں ہے، جہاں وقتا فوقتا اسی طرح کے ایمان افروز اور عبرت انگیز تذکرے سننے کو ملتے ہیں؟

أقول قولي هذا ـ ایها الاخوة ـ و أستغفر الله تعالی لي ولكم فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم، وادعوه یستجب لکم۔۔

ختم شد

سفر آخرت (حصہ ششم)

اس کے بعدسورۃ الملک چلی گئی ۔ میری قبر میں بدستور وہ روشنی باقی تھی جو میرے والد کی دعا کی برکت سے آئی تھی اور میں انتظار کرتا رہا جیسے کہ میں جیل کے اندرکوئی قیدی ہوں۔ مجھے وقت کا کوئی اندازہ نہیں تھا کیونکہ نہ یہاں گھڑی تھی، نہ نماز، نہ کھانا پینا اور نہ کوئی اورمصروفیت۔ دعائیں مانگنا اور ذکرواذکار کرنا بھی لاحاصل۔ بعض اوقات لوگوں کے قدموں کی آوازیں سن لیتا تو اندازہ ہوتا کہ شاید کسی کا جنازہ ہے۔ بعض اوقات لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں آ جاتی تھیں تو مجھے تعجب ہوا کرتا تھا کہ ان کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم کس صورتحال سے دوچار ہیں اور یہ دنیا میں مگن ہیں۔


ایک روز اچانک میرے جسم کی گرمی بڑھنی شروع ہوئی اور میں چیخنے لگا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ایک تندور کے اندر ہوں۔ میرے خوف میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ لیکن پھر اچانک گرمی کم ہونی شروع ہوگئی یہاں تک کہ بالکل غائب ہوگئی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

اس کے بعد ایک بار پھر سورۃ الملک کی روشنی آگئی اور مجھے سے بولی: تمھیں مبارک ہو! میں نے کہا: کیا ہوا؟

اس نے کہا: خوابوں کا فرشتہ تمھاری بیوی کو خواب میں آیا اور تمھاری بیوی نے خواب میں تمھیں ایک سیڑھی پر چڑھتے ہوئے دیکھا کہ سات سیڑھیاں باقی ہیں ، تم پریشان کھڑ ےہو اور آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ پھر وہ فجر کی نماز سے پہلے اٹھی۔ تمھاری یاد میں روئی اور صبح ہوتے ہی ایک عورت سے رابطہ کیا جو خوابوں کی تفسیر بیان کرتی ہے اور اسے اپنا خواب سنایا۔ اس عورت نے کہا: اے بیٹی! تمھارا شوہر قبر میں تکلیف میں مبتلا ہے کیونکہ اس پر کسی کے 1700ریال قرض ہیں۔

تمھاری بیوی نے پوچھا: کس کا قرض ہے اور ہم کیسے ادا کریں؟

اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم۔ اس بارے میں علماء سے معلوم کرو۔

پھر تیری بیونی نے ایک شیخ کی اہلیہ سے رابطہ کیا اور اسے ساری بات بتا دی تاکہ وہ شیخ سے جواب پوچھ لے۔شیخ نے اسے بتایا: مرحوم کی طرف سے صدقہ کر دے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کر کےمرحوم کا عذاب دور کر دے۔

تمھاری بیوی کے پاس سونا تھا جس کی مالیت چار ہزار ریال تھی۔ اس نے وہ سونا تمھارے والد کے حوالے کر دیا اور تمھارےوالد نے اس میں کچھ مزید رقم شامل کر کے صدقہ کر دیا اور یوں تمھارامسئلہ حل ہوگیا۔

میں نے کہا: الحمداللہ مجھے اس وقت کوئی تکلیف نہیں ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تمھارے تعاون سے ہوا۔

سورۃ الملک نے کہا: الحمداللہ! اب اعمال والے فرشتے تمھارے پاس آئیں گے۔

میں نے پوچھا: کیا اس کے بعد بھی میرے لیے کوئی خطرہ ہے؟

اس نے کہا: سفر بہت طویل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں کئی سال لگ جائیں لہٰذا اس کے لیے تیار رہو۔

کئی سال والی بات نے میری پریشانی میں اضافہ کر دیا۔

سورۃ الملک نے بتایا: بہت سارے لوگ صرف اس وجہ سے اپنی قبروں میں عذاب جھیل رہے ہیں کہ وہ بعض باتوں کو معمولی سمجھتے تھے، جبکہ اللہ کے نزدیک وہ معمولی نہیں تھیں۔

میں نے پوچھا: کون سی باتیں؟

اس نے کہا: بہت سارے لوگوں پر قبروں میں اس لیے عذاب جاری ہے کہ وہ پیشاب سے نہیں بچتے تھے اور گندگی کی حالت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے۔ اسی طرح چغلی، چوری، سود اور یتیم کا مال غصب کرنے کی وجہ سے ان پر عذاب ہو رہا ہے۔کچھ لوگوں پر عذابِ قبر اس لیے ہے تاکہ قیامت آنے سے پہلے ان کا کھاتہ صاف ہو جائے اور کچھ لوگوں پر قیامت تک عذاب رہے گا اور پھر جہنم میں انھیں داخل کردیا جائے گا۔

میں نے پوچھا: اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کی کوئی سبیل ہے؟

سورۃ الملک نے کہا: عمل تو تمھارا منقطع ہو چکا ہے البتہ تین کام ایسے ہیں جو تمھیں اب بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

میں نے پوچھا: وہ کیا ہیں؟

اس نے کہا: اہل و عیال کی تمھارے حق میں دعا اور صدقات۔ اس کے علاوہ کوئی ایساکام تم نے دنیا میں کیا ہو جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو مثلاََ مسجد کی تعمیر تو اس سے تم مرنے کے بعد بھی مستفید ہو سکتے ہو۔اسی طرح اگر علم کی نشر و اشاعت میں تم نے حصہ لیا ہو تو وہ اب بھی تمھارے لیے نفع بخش ہے۔

میں نے سوچاکہ میں کتنا بدبخت ہوں ! دنیا میں نیک اعمال کرنے کے کتنےمواقع تھے جن سے میں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور آج بے یارومددگار قبر میں پڑا ہوں۔
میرا دل چاہا کہ میں چیخ چیخ کر لوگوں کو پکاروں : اے لوگو! قبر کے لیے تیاری کر لو۔ خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے وہ کچھ دیکھ لیا جو میں نے دیکھا ہے تو مسجد سے باہر نہیں نکلو گے اور اللہ کی راہ میں سارا مال لگا دو گے۔

سورۃ الملک نے کہا: مرجانے والوں کی نیکیاں عام طور پر شروع کے دنوں میں بہت ہوتی ہیں لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔

میں نے پوچھا: کیا یہ ممکن ہے کہ میرے گھر والے اور میرے رشتہ دار مجھے بھول جائیں گے؟ مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ وہ اتنی جلدی مجھے فراموش کر دیں گے؟

اس نے کہا: نہیں ایسا ضرور ہوگا! بلکہ تم دیکھو گے کہ شروع میں تمھاری قبر پر تمھارے اہل و عیال زیادہ آئیں گے لیکن جب دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہونگے تو تمھاری قبر پر آنے والاایک بندہ بھی نہیں ہوگا!

مجھے یاد آیا کہ جب ہمارے دادا کا انتقال ہوا تھا تو ہم ہر ہفتے ان کی قبر پر جایا کرتے تھے۔ پھر مہینے میں ایک بار جانے لگے اور پھر سال میں ایک دفعہ۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہم انھیں بھول گئے۔جب میں زندہ تھا تو مرحومین کو بھول جاتا تھا لیکن آج میں خود اس حالت کو پہنچ چکا تھا۔ دن، ہفتے اور مہینے گزرتے گئے اور میری مدد کے لیے کوئی نہ تھا۔ سوائے چند نیک اعمال (صدقہ جاریہ)کے جو مجھے پہنچتے تھے۔ یا میرے والد، بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کا میری قبر پر ایصالِ ثواب کے لیےآنا جو رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ زیادہ تر مجھے اپنی والدہ کی دعا پہنچتی تھی جو وہ تہجد میں میرے لیے کرتی تھیں۔ بخدا وہ دعا میرے لیے طمانیت کا باعث ہوتی تھی۔

ساتواں اور آخری حصہ پڑھیے ۔۔۔۔۔


سفر آخرت (حصہ پنجم)

میرا سوال ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ میری قبر میں اچانک روشنی آگئی اور ایک ایسی خوشبو پھیل گئی کہ ایسی خوشبو میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں سونگھی تھی۔

اسی روشنی سے آواز آئی: السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ! میں نے کہا: وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ! تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں سورۃ الملک ہوں۔ میں اس لیے آئی ہوں کہ اللہ سے تمھارے لیے مدد طلب کروں کیونکہ تم نے میری حفاظت کی تھی اور تمھارے رسولﷺ نے تمھیں بتا دیا تھا کہ جو کوئی سورۃ الملک پڑھے گا، قبر میں وہ اس کے لیے نجات کا ذریعہ ہوگی۔

میں بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا: میں نے بچپن میں تمھیں حفظ کر لیا تھا اور میں ہمیشہ نماز میں اور گھر میں تمھاری تلاوت کیا کرتا تھا، مجھے اس وقت تمھاری اشد ضرورت ہے۔

اس نے کہا: ہاں اسی لیے تو میں آئی ہوں کہ اللہ سے دعا کروں کہ وہ تمھاری مشکل کو آسانی میں بدل دے لیکن تم سے ایک غلطی ہوئی ہے کہ تم نے لوگوں کے قرضے ادا نہیں کیے ہیں۔

میں نے پوچھا: نجات کا کوئی طریقہ ہے؟

اس نے کہا: تین باتوں میں سے کوئی ایک بات تمھارا مسئلہ حل کر سکتی ہے۔

میں نے جلدی سے کہا: وہ کیا ہیں؟

اس نے کہا: پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے کوئی کاغذ لکھ کر چھوڑا ہے، جسے دیکھ کر تمھارے ورثاء وہ قرضے ادا کر دیں؟

ورثاء کا نام سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ مجھے تمام گھر والے والد،والدہ، بیوی، بچے، بھائی اور بہن یاد آگئے۔ پتا نہیں میرے بعد ان کا کیا حال ہوگا؟ میری چھوٹی بچی جس سے میں نے چاکلیٹ کا وعدہ کیا تھا۔ اب کون اس کو چاکلیٹ لے کر دے گا؟ میری بیوی کو لوگ بیوہ کہیں گے۔ کون ان کا خیال رکھے گا؟

سورۃ الملک نے پوچھا: لگ رہا ہے، تم کوئی چیز یاد کر رہے ہو؟

میں نے کہا: مجھے اپنے اہل و عیال اور بچے یاد آئے کہ نجانے میرے بعد ان کیا کیا حال ہوگا؟

سورۃ الملک نے کہا: جس نے انھیں پیدا کیا ہے، وہی روزی بھی دے گا اور وہی نگہبان بھی ہے۔

سورۃ الملک کی اس بات سے مجھے کافی تسلی ہوئی۔ اس کے بعد میں نے پوچھا: کیا میں جان سکتا ہوں کہ میرے اوپرکل کتنا قرضہ ہے؟

سورۃ الملک نے بتایا: میں نے فرشتے سے پوچھا تھاتو اس نے بتایا کہ تم ایک ہزار سات سو ریال کے مقروض تھے۔ ایک ہزارتمھارے اس دوست کے ہیں، جس کا نام ابو حسن ہے اور باقی مختلف لوگوں کے ہیں۔

میں نے پوچھا: مختلف لوگ کون ہیں؟

اس نے کہا: دراصل بلوغت سے لے کرموت تک تم سے کئی بار اس حوالے سے کوتاہی ہوئی ہےاور اس طرح قرضہ بڑھتا گیا۔مثلاََپانچ ریال اس دکاندار کے ہیں جس سےتم نے کوئی چیز خریدی تھی، اس وقت تمھاری عمر 15 سال تھی۔تم نے اسے کہا: پیسے کل دے دونگا اور پھر تم نے نہیں دیے۔

اسی طرح لانڈری والے سے تم نے کپڑے دھلوائےلیکن اس کو ادائیگی کرنا بھول گئے۔ اسی طرح اس نے ایسے کئی لوگوں کے نام بتا دیے جن کے پیسے مجھ پر قرض تھے اور مجھے بھی وہ اب یاد آ تے جا رہے تھے۔

سورۃ الملک نے کہا: لوگوں کے حقوق کو معمولی سمجھنے اور ان سے تساہل برتنے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ کیا تمھیںتمھارے رسول ﷺنے خبر نہیں دی تھی کہ شہید کے اعمال بھی روک لیے جائیں گے، جب تک کہ اس کا قرضہ ادا نہیں ہوگا!

میں نے کہا: نجات کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟

اس نے کہا: پہلا حل تو یہ ہے کہ جس کا قرضہ ہے، وہ اپنا قرضہ معاف کر دے۔

میں نے کہا: ان میں سے اکثر تو ان قرضوں کو بھول گئے ہیں، جس طرح میں بھول گیا تھا اور ان کو میرے مرنے کی خبر بھی نہیں ہو گی۔

اس نے کہا: پھر دوسرا حل یہ ہے کہ تمھارے ورثاء تمھاری طرف سے ادائیگی کر دیں۔

میں نے کہا: ان کو میرے قرضوں کی اور میری تکلیف کی کہاں خبر ہے؟ جب کہ میں نے کوئی وصیت نامہ بھی نہیں چھوڑا کیونکہ موت نے اچانک مجھےآلیا تھااور مجھے ان ساری مشکلات کا علم بھی نہیں تھاجو مجھے اب درپیش ہیں۔

سورۃ الملک نے کہا: ایک اور حل ہو سکتا ہے، لیکن وہ میں تھوڑی دیر بعد تمھیں بتا ؤں گی اور اب میں جاتی ہوں۔

میں نے کہا: خدارا مت جاؤ کیونکہ تمھارے چلے جانے سے قبر دوبارہ تاریک ہو جائے گی، جو میری موجودہ تکلیف میں اضافے کا باعث بنے گی۔

سورۃ الملک نے کہا : میں زیادہ دیر کے لیے نہیں جا رہی ،بلکہ تمھارے لیے کوئی حل نکالنے کے لیے جا رہی ہوں۔ اس کے بعد سورۃ الملک چلی گئی اور میں گھپ اندھیرے میں اکیلا رہ گیا۔ ہیبت اور تکلیف کے باوجود میں نے کہا: یا ارحم الراحمین! اے اجنبیوں کے مولیٰ اور تنہائی کےساتھی۔ اس قبر کی تاریکی میں میری مدد کر لیکن مجھے خیال آیا کہ میں تو دارالحساب میں ہوں۔ اب دعاؤں کا کیا فائدہ؟

زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ایک مانوس آواز سنی۔ یہ میرے والد بزرگوار کی آواز تھی جو کہہ رہے تھے : السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ لیکن میرا جواب انھیں کون پہنچاتا؟ پھر انھوں نےاللہ سے میرے لیے مغفرت اور عذاب ِ قبر سے نجات کی دعا کی۔ پھر انھوں نے روتے ہوئے کہا: اے اللہ! میں اپنےاس بیٹے سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔

میرے والد صاحب جب دعا مانگ رہے تھے تو دعا کے دوران ایک نہایت تیزروشنی میری قبر میں آئی۔ یہ دراصل رحمت کا فرشتہ تھا جو میرے والد کی دعا کو نوٹ کر رہا تھا اور جب تک میرے والد میری قبر سے نہیں گئے، وہ میرے ساتھ رہا۔

جب میرے والد صاحب چلے گئے تو فرشتے نے کہا: تیرے والد کی دعا آسمانوں تک جائے گی اور انشاءاللہ ،اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا کیونکہ والد کی دعا اپنے بیٹے کے لیےمقبول ہوتی ہے۔

میں نے تمنا کی کہ کاش میرے والد میری قبر پر زیادہ دیر کے لیے ٹھہرتے اور دعا کومزید طول دیتے کیونکہ ان کی دعا کی وجہ سے مجھے کافی آرام ملا۔

میں نے فرشتے سے پوچھا: کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟

فرشتے نے کہا: پوچھو!

میں نے پوچھا: مجھے مرے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے؟

اس نے کہا:: تمھاری وفات کو آج تین دن گزر گئے ہیں اور اس وقت ظہر کا وقت ہے۔

میں نے حیرانگی سے کہا: تین دن اور اتنے سارے معاملات اور واقعات؟ یہاں میری قبر میں تاریکی ہے جبکہ باہر کی دنیا روشن ہے؟

فرشتے نے کہا: تمھارے سامنے بہت لمبا سفر ہے، اللہ اسے تمھارے لیے آسان کر دے۔

میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور زاروقطار رونے لگا اور ایسا رویا کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی زندگی میں اتنا رویا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اتنا خطرناک سفر اور دنیا میں میری اس سفر کے لیے اتنی غفلت!

فرشتے نے جاتے وقت بتا یا کہ قبر میں موجود روشنی تیرے والد کی دعا کی وجہ سے ہے اور یہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ مجھے پتا چلا کہ والد کا میری قبر تک آنا میرے لیے باعث رحمت ہے۔

میں نے تمنا کی کہ کاش میرے والد صاحب میری آواز سن لیں اور میں انھیں بتادوں کہ والد صاحب! میرے قرضوں کی ادائیگی کر دیں اور میری طرف سے صدقہ کر دیں۔ اللہ کے واسطے! میرے لیے دعا کریں۔ لیکن کون تھا جو انھیں میری یہ بات بتا تا؟

میں نے محسوس کیا کہ بعض اوقات میرے جسم کی گرمی کم ہوجاتی تھی اور پھر اچانک سے بڑھ جاتی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس کا تعلق میرے حق میں لوگوں کی دعائیں ہیں۔

اچانک میری قبر میں پھر وہی روشنی آئی جو اس سے پہلے میں دیکھ چکا تھا یعنی سورۃ الملک کی۔سورۃ الملک نے بتایا: تمھارے لیے دو خوشخبریاں ہیں۔

میں نے اشتیاق سے پوچھا: کیا ہیں؟

سورۃ الملک نے بتایا: تمھارے دوست نے اللہ کی خاطر تمھارا قرضہ معاف کر دیا ہے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ میری قبر کی گرمی کم ہوجانے کی وجہ شاید یہی تھی۔

میں نے پوچھا: دوسری بشارت کیا ہے؟

اس نے کہا: میں نے اللہ سے بہت درخواست کی لیکن انسانوں کے حقوق وہ معاف نہیں کرتا۔ البتہ اللہ نے ایک فرشتہ بھیج دیا ہے جو تیرے رشتہ داروں میں سے کسی کو خواب میں آئے گا تاکہ وہ تمھارے قرضوں کے متعلق سمجھ جائیں۔

پھر اس نے پوچھا: تمھارے خیال میں کون بہتر ہے جس کو خواب میں وہ فرشتہ کسی شکل میں آئے اور وہ اس خواب کو سمجھ کر قرضے کی ادائیگی کرے۔
میں نے اپنی والدہ کے بارے میں سوچا لیکن پھر سوچا کہ اگر انھوں نے مجھے خواب میں دیکھا تو رونا شروع کر دے گی اور خواب کی تفسیر نہیں سمجھ سکے گی، پھر میں نے تمام رشتہ داروں کے متعلق سوچا۔ ان سب میں مجھے میری بیوی موزوں ترین لگی کیونکہ وہ خوابوں کو ہمیشہ اہمیت دیا کرتی تھی۔ میں نے کہا: میری بیوی اگر مجھے خواب میں دیکھ لے تو ہوسکتا ہے، وہ اس کی تفسیر سمجھ جائے۔

سورۃ الملک نے کہا: میں متعلقہ فرشتے کو اطلاع دیتی ہوں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ تمھاری مشکل کو آسان کر دے۔

حصہ ششم پڑھیے ۔۔۔۔۔

سفر آخرت (حصہ چہارم)

نماز ختم ہوئی تو موذن نے نماز جنازہ کے لیے لوگوں کو پکارا۔ امام صاحب میرے قریب آگئے اور نماز جنازہ شروع کی۔ میں حیران ہوا کہ وہاں بہت سارے فرشتے آگئے جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ نماز پڑھنے والے کتنے لوگ ہیں اور ان میں سے کتنے موحد ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے؟

چوتھی تکبیر میں میں نے دیکھا کہ فرشتے کچھ لکھ رہے ہیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ لوگوں کی دعائیں لکھ رہے ہوں گے۔اس وقت میرے دل میں شدید خواہش ہوئی کہ امام اس رکعت کو مزیدلمبی کر دے کیونکہ لوگوں کی دعاؤں سے مجھے عجیب سی راحت اور سرور مل رہا تھا۔


نماز ختم ہوئی اور مجھے اٹھا کر قبرستان کی طرف لے جایا گیا۔ راستے میں کچھ لوگ دعائیں مانگ رہے تھے اور کچھ رو رہے تھے اور میں حیران و پریشان تھا کہ نہ معلوم میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟مجھے اپنے تمام گناہ ، خطائیں اور غفلت کی گھڑیاں جو میں نے دنیا میں گزاری تھیں، ایک ایک کر کے یاد آرہی تھیں۔ ایک شدید ہیبت کا عالم تھا جس سے میں گزر رہا تھا۔ الغرض قبرستان پہنچ کر مجھے اتارا گیا۔ اس وقت مختلف قسم کی آوازیں سننے میں آئیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ جنازے کو راستہ دو۔ کوئی کہہ رہا تھاکہ فلاں طرف لے جاؤ۔ کوئی کہتاکہ قبر کے قریب رکھ دو۔ یا اللہ! میں نے تو کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ معاملات کبھی میرے ساتھ بھی پیش آ سکتے ہیں؟

مجھے قبر میں روح اور جسم کے ساتھ اتارا گیا لیکن لوگوں کو صرف میرا جسم نظر آرہا تھا، روح نظر نہیں آرہی تھی۔اس کے بعد میری لحد کو بند کرنا شروع کر دیا گیا۔ میرا دل چاہا کہ چیخ چیخ کر کہوں کہ مجھے یہاں نہ  چھوڑو، معلوم نہیں میرے ساتھ کیا ہوگا لیکن میں شدید خواہش کے باوجود بول نہیں سکتا تھا۔

الغرض میری قبر میںمٹی ڈالی جاتی رہی حتیٰ کہ قبر میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔ لوگوں کی آوازیں بند ہوتی چلی گئیں لیکن میں ان کے قدموں کی آوازیں سن رہا تھا۔ ان میں سے جو کوئی میرے لیے دعا کرتا تو اس سے مجھے سکون ملتا تھا۔
اچانک قبر مجھ پرتنگ ہوگئی اور ایسا لگا کہ میرے پورے جسم کو کچل دے گی۔ اور قریب تھا کہ میں ایک زوردار چیخ نکالتا۔ لیکن قبرپھر دوبارہ اپنی اصل حالت میں آگئی۔

اس کے بعد میں نےدونوں جانب دیکھنے کی کوشش کی کہ اچانک دو ہیبت ناک قسم کے فرشتے نمودار ہوئے۔ جن کے بڑے بڑے جسم،کالی رنگت اور نیلی آنکھیں تھیں۔ ان کی آنکھوں میں بجلی جیسی چمک تھی اور ان میں سے ایک کے ہاتھ میں گرز تھا۔ اگر اسے پہاڑ پر مارے تو اسے ریزہ ریزہ کر دے۔

ان میں سے ایک نے مجھے کہا: بیٹھ جاؤ تو میں فوراََ بیٹھ گیا۔ پھر اس نے کہا:    من ربک (تمھارا رب کون ہے؟)۔ جس کے ہاتھ میں گرز تھا، وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا۔ میں نے جلدی سے کہا: ربی اللہ (میرا رب اللہ ہے)۔ جواب دیتے وقت مجھ پرکپکپی طاری تھی۔ اس لیے نہیں کہ مجھے جواب میں کوئی شک تھا بلکہ ان کے رعب کی وجہ سے ایسا ہو رہا تھا۔ پھر اس نے مزید دو سوال کیے کہ تمھارا نبی کون ہے اور تمھارا دین کون سا ہے؟ اور الحمداللہ میں نے ٹھیک جوابات دے دیے۔
انھوں نے کہا: اب تم قبر کے عذاب سے بچ گئے۔ میں نے پوچھا: کیا تم  منکر و نکیر ہو؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں اور اگر تم صحیح جوابات نہیں دیتے تو ہم تمھیں اس گرز سے مارتے اور تم اتنی شدیدچیخیں نکالتے کہ اسے زمین کی تمام مخلوقات سن لیتیں، سوائے انسانوں اور جنوں کے اور اگر جن و انس اسے سن لیں تو وہ بے ہوش ہو جائیں۔

میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے اس مصیبت سے بچا لیا۔ اس کے بعد وہ چلے گئے اور ان کے جانے سے مجھے قدرے اطمینان حاصل ہوا،مگر ساتھ ہی مجھے سخت گرمی محسوس ہوئی اور مجھے لگا کہ میرا جسم جلنے والا ہے گویا جہنم کی کوئی کھڑکی کھولی گئی ہو۔

اتنے میں دو اور فرشتے آگئے اور سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔انھوں نے کہا: ہم فرشتے ہیں اور قبر میں تمھارے اعمال تمھیں پیش کرنے آئے ہیں تاکہ قبر میں قیامت تک تمھیں اپنی نیکیوں کا جو بدلہ ملنا چاہیئے، وہ مل جائے۔ میں کہا: اللہ کی قسم جس سختی اور اذیت سے میں اس وقت دوچار ہوں، میں نے کبھی اس کے متعلق سوچا بھی نہیں تھا۔

پھر میں نے پوچھا: کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا: کر لو۔ میں نے پوچھا: کیا میں اہل جنت میں سے ہوں اور کیا اتنی ساری تکلیفیں  جھیلنے کے بعد بھی میرے لیے جہنم میں جانے کا خطرہ ہے؟

انھوں نےکہا: تم ایک مسلمان ہو۔ اللہ اور اس کے رسولﷺپر ایمان لائے ہو۔ لیکن جنت میں جانے کا علم اللہ کے سواکسی کو نہیں ہے۔ بہرحال اگر تم جہنم چلے بھی گئے تو وہاں ہمیشہ نہیں رہو گے کیونکہ تم موحد ہو۔

یہ سن کرمیری آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور میں نے کہا: اگر اللہ نے مجھے دوزخ میں ڈال دیاتو پتا نہیں میں وہاں کتنا عرصہ رہوں گا؟

انھوں نے کہا: اللہ سے اچھی اُمید رکھو کیونکہ وہ بہت کریم ہے اور اب ہم تمھارے اعمال پیش کر رہے ہیں۔ تمھارے وقتِ بلوغت سے تمھارے روڈ ایکسیڈنٹ کے وقت تک۔

انھوں نے کہا: سب سے پہلے ہم نماز سے شروع کرتے ہیں کیونکہ کافر اور مسلمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے لیکن فی الحال تمھارے سارے اعمال معلق ہیں۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا: میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے نیک اعمال کیے ہیں، آخر میرے اعمال معلق کیوں ہیں؟ اوراس وقت جو میں اپنے جسم میں دنیا جہان کی گرمی محسوس کر رہا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

انھوں نے کہا: اس کی وجہ یہ ہے کہ تمھارے اوپر قرضہ ہے جو تم نے مرنے سے پہلے ادا نہیں کیا ہے۔

میں رو پڑا اور ان سے پوچھا: کیسے؟ اور یہ جو میرے اعمال معلق ہیں، کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟


حصہ پنجم پڑھیے ۔۔۔۔۔

سفر آخرت (حصہ سوم)


میں نے پوچھا: کون ہیں؟ وہ بولے جبرائیل علیہ السلام  اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور یہ کبھی اللہ کے حکم کی سرتابی نہیں کیا کرتے۔

لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یؤمرون۔(وہ اللہ کے دیے ہوئے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں)۔

 اس کے بعد ہم مزید اوپر چڑھتے گئے، یہاں تک کہ ہم آسمانِ دنیا پہنچ گئے۔ میں اس وقت ایک خوف اور کرب کے عالم میں تھا کہ اللہ جانے آ گے کیا ہوگا؟

میں نے آسمان کو بہت بڑا پایا ۔ اس کے اندر دروازے تھے جو بند تھے اور ان دروازوں پر رحمت کے فرشتے تعینات تھے، جن کے جسم بہت بڑے تھے۔ میرے ساتھی فرشتوں نے کہا: السلام علیکم و رحمتہ اللہ اور ان کے ساتھ میں نے بھی یہی الفاظ دہرائے۔ دوسرے فرشتوں نے جواب دیا: وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ! اھلا و سھلا ضرور یہ مسلمان ہی ہوگا۔ میرے ساتھی فرشتوں نے کہا: ہاں یہ مسلمان ہے۔ دروازے پر معین رحمت کے فرشتوں نے کہا: تم اندر آسکتے ہو کیونکہ آسمان کے دروازے صرف مسلمانوں کے لیے کھلتے ہیں۔ کافروں کے بارے میں اللہ کا حکم ہے: لا تفتح لھم ابواب السمائ۔ ان (کافروں) کے لیے آسمان کے دروازے نہیںکھولے جائیں گے)۔

ہم اندر گئے تو بہت ساری عجیب چیزیں دیکھیں۔ پھر ہم آگے بڑھے اور اوپر چڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا اور آخرکار ساتویں آسمان پر جا پہنچے۔ یہ آسمان باقی تمام آسمانوں سے بڑا نظر آیا جیسے ایک بہت بڑا سمندر۔ فرشتے کہہ رہے تھے: اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام۔

مجھ پراس وقت شدید ہیبت طاری ہوگئی۔میں نے سر نیچے کیا اورمیری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں حکم صادر فرمایا: میرے اس بندے کا اعمال نامہ علیین میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ کیونکہ میں نے انھیں زمین سے پیدا کیا۔ اسی میں ان کی واپسی ہوگی اور ایک بار پھر اسی زمین سے انھیں اٹھاؤں گا۔شدید مرعوبیت، ہیبت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے سرشارہوکرمیں نے کہا: پروردگار! تو پاک ہے لیکن ہم نے تیری وہ بندگی نہیں کی جو ہونی چاہیئے تھی: سبحانك ما عبدناك حق عبادتك۔

فرشتے مجھے لے کر واپس زمین کی طرف روانہ ہوئے۔وہ جہاں جہاں سے گزرتے گئے، دوسرے فرشتوں کو سلام کرتے گئے۔ میں نے راستے میں ان سے پوچھا: کیا میں اپنے جسم اور گھر والوں کے متعلق جان سکتا ہوں؟

انھوں نے کہا: اپنے جسم کو عنقریب تم دیکھ لوگے لیکن جہاں تک تمھارے گھر والوں کا تعلق ہے۔ ان کی نیکیاںتمھیں پہنچتی رہیں گی لیکن تم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔

اس کے بعد وہ مجھے زمین پر لے آئے اور کہا: اب تم اپنے جسم کے ساتھ رہو۔ ہمارا کام ختم ہوگیا۔ اب قبر میں تمھارے پاس دوسرے فرشتے آئیں گے۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ کیا میں پھر کبھی آپ کو دیکھ سکوں گا؟ انھوں نے کہا: قیامت کے دن! یہ کہتے ہوئے ان پر ایک ہیبت طاری تھی۔ پھر انھوں نے کہا: اگر تم اہل جنت میں سے نکلے تو ہم ساتھ ساتھ ہوں گے، انشاء اللہ۔ میں نے پوچھا جو کچھ میں نے دیکھا اور   سنا ،کیا اس کے بعد بھی میرے جنت میں جانے میں کوئی شک رہ گیا ہے؟  انھوں نے کہا: تمھارے جنت میں جانے کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ تمھیں جو عزت و اکرام ملا وہ اس لیے ملا کہ تم مسلمان مرے ہو لیکن تمھیں اعمال کی پیشی اور میزان سے ضرور سابقہ پیش آنا ہے۔

مجھے اپنے گناہ یاد آئے اور میں نے چاہا کہ میں زور زور سے روؤں۔ انھوں نے کہا: اپنے رب سے نیک گمان رکھو کیونکہ وہ کسی پر ظلم ہرگز نہیں کرتا۔ اس کے بعد انھوں نے سلام کیا اور بڑی تیزی سے اوپر کی طرف اٹھ گئے۔

میں نے اپنے جسم پر نظر دوڑائی۔ میری آنکھیں بند تھیں اور میرے ارد گرد میرے بھائی اور والد صاحب رو رہے تھے۔ اس کے بعد میرے جسم پر پانی ڈالا گیا تو مجھے پتہ چلا کہ مجھے غسل دیا جارہا ہے۔ ان کے رونے سے مجھے تکلیف ملتی تھی اور جب میرے والد دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے تو ان کی یہ بات مجھے راحت پہنچاتی تھی۔ اس کے بعد میرے جسم کو سفید کفن پہنایا گیا۔

میں نے اپنے دل میں کہا: افسوس میں اپنے جسم کو اللہ کی راہ میں قربان کرتا۔ کاش میں شہید مرتا۔کاش میں ایک گھڑی بھی اللہ کے ذکر، نماز یا عبادت کے بغیر نہ گزارتا۔ کاش میں شب و روز اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا۔ افسوس صد افسوس!
اتنے میں لوگوں نے میرا جسم اٹھایا۔ میں اپنے جسم کو دیکھ رہا تھا لیکن نہ تو اس کے اندر جا سکتا تھا اور نہ دور ہو سکتا تھا۔ ایک عجیب سی صورتحال سے دوچار تھا۔مجھے جب اٹھایا گیا تو جو چیز میرے لیے اس وقت نہایت تکلیف دہ تھی، وہ میرے گھر والوں کا رونا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اپنے ابا سے کہہ دوں: ابا جان پلیز رونا بند کر دیں بلکہ میرے لیے دعا کریں کیونکہ آپ کا رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے۔ میرے رشتہ داروں میں اس وقت جو کوئی میرے لیے دعا کرتا تھاتو اس سے مجھے راحت ملتی تھی۔

مجھے مسجد پہنچایا گیا اور وہاں میرا جنازہ اتارا گیا۔ میں نے سنا کہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں۔ مجھے شدید خواہش ہوئی کہ میں بھی ان کے ساتھ نماز میں شریک ہوجاؤں۔ میں نے سوچا کہ کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ کہ نیکیاں کما رہے ہیں جبکہ میرا اعمال نامہ بند ہوگیا ہے۔

حصہ چہارم پڑھیے۔۔۔۔

سفر آخرت (حصہ دوم)

نوٹ: اس کہانی کے متعلق آخر میں بتاؤں گا کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟یہاں ہم میں سے ہر بھائی یہ تصور کرے کہ جو کچھ اس کہانی میں ہو رہا ہے، خود اس کے ساتھ ہو رہا ہے، کیونکہ عنقریب ہم سب کو اس سے ملتے جلتے حالات سے سابقہ پیش آنا ہے۔
 


اس کے بعد لوگوں کی آوازیں آنی بند ہوگئیں۔ میری آنکھوں کے سامنے مکمل تاریکی چھا گئی اور میں ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے میرے جسم کو چھریوں سے کاٹا جا رہا ہو۔ اتنے میں مجھے ایک سفید ریش آدمی نظر آیا۔ اس نے مجھے کہا:بیٹے یہ تمھاری زندگی کی آخری گھڑی ہے، میں تمھیں نصیحت کرنا چاہتا ہوں ،کیونکہ اللہ نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے۔ میں پوچھا:کیا ہے نصیحت؟ اس نے جواب دیا:عیسائیت قبول کر لو! خدا کی قسم اسی میں تمھاری نجات ہے۔ اگر تم عیسائیت پر ایمان لائے تو تمھیں واپس تمھارے گھر والوںتک پہنچا دوں گا اور تمھاری روح واپس دنیا میں لے آؤں گا۔ جلدی سے بولو، وقت ختم ہوا جا رہا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شیطان ہے۔ ہرچند کہ میں اس وقت سخت تکلیف عالم میں تھا اور شدید اذیت سے دوچار تھا لیکن اس کے باوجود میرااللہ اور اس کے رسولﷺ پر پکا ایمان تھا۔ میں نے اسے کہا: دفع ہو جا اللہ کے دشمن ! میں نے اسلام کی حالت میں زندگی گزاری ہے اور میں مسلمان رہ کر ہی مرونگا۔ یہ سن کر اس کا رنگ زرد پڑ گیا اور کہنے لگا: تمھاری نجات اسی میں ہے کہ تم یہودی یا نصرانی مر جاؤ ورنہ میں تمھاری تکلیف بڑھا دونگا اور تمھاری روح قبض کر لوں گا۔ میں نے کہا: موت تمھارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ کچھ بھی ہوجائے، میں اسلام کی حالت ہی میں مروں گا۔ اتنے میں اس نے اوپر دیکھا اور دیکھتے ہی بھاگ نکلا۔ مجھے لگا کہ جیسے کسی نے اسے ڈرایا ہو۔

 اچانک میں نے عجیب و غریب قسم کے چہروں والے اور بڑے بڑے جسموں والے لوگ دیکھے۔ وہ آسمان کی طرف سے آئے اور کہا:   السلام علیکم! میں نے کہا: وعلیکم السلام۔ اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے اور ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ ان کے پاس کفن تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری زندگی ختم ہوگئی ہے۔ ان میں سے ایک بہت بڑا فرشتہ میری طرف آیا اور کہنے لگا: ایتہا النفس المطمئنہ اخرجی الی مغفرتہ من اللہ و رضوان (اے نیک روح اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی کی طرف نکل آ)۔ یہ سن کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ میں نے کہا: اللہ کے فرشتے! میں حاضر ہوں۔

اس نے میری روح کھینچ لی۔ مجھے اب ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں نیند اور حقیقت کے مابین ہوں۔ ایسا لگا کہ مجھے میرے جسم سے اوپر آسمان کی طرف اٹھایا جا رہا ہے۔ میں نے نیچے دیکھا تو پتہ چلا کہ لوگ میرے جسم کے ارد گرد کھڑے ہیں اور انھوں نے میرے جسم کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ ان میں سے کسی نے کہا: انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میں نے دو فرشتوں کو دیکھا کہ وہ مجھے وصول کر رہے ہیں اور مجھے کفن میں لپیٹ کر اوپر کی طرف لے جا رہے ہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے افق کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ مجھے بلندی سے بلندی کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ ہم بادلوں کو چیرتے چلے گئے جیسے کہ میں ایک جہاز میں بیٹھا ہوں۔ یہاں تک کہ پوری زمین مجھے ایک گیند کی طرح نظر آ رہی تھی۔ میں نے ان دو فرشتوں سے پوچھا: کیا اللہ مجھے جنت میں داخل کرے گا؟ انھوں نے کہا: اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ ہمیں صرف تمھاری روح لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور ہم صرف مسلمانوں پر مامور ہیں۔ ہمارے قریب سے کچھ اور فرشتے گزر گئے، جن کے پاس ایک روح تھی اور اس سے ایسی خوشبو آرہی تھی کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی زبردست خوشبو کبھی نہیں سونگھی تھی۔ میں نے حیرانی کے عالم میں فرشتوں سے پوچھا: یہ کون ہے؟ اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ اللہ  کے رسولﷺ بہت پہلے دنیا سے رحلت فرما چکے ہیں تو میں کہتا کہ یہ ان کی روح ہوگی۔ فرشتوں نے بتایا کہ یہ ایک فلسطینی کی روح ہے جسے یہودیوں نے تھوڑی دیر پہلے قتل کیا جبکہ وہ اپنے دین اور وطن کی مدافعت کر رہا تھا۔ اس کا نام ابو العبد ہے۔میں نے سوچا کہ کاش میں شہید ہو کر مرتا۔

اس کے بعد کچھ اور فرشتے  ہمارے قریب سے گزرے ۔ ان کے پاس بھی ایک روح تھی جس سے سخت بدبو آرہی تھی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ فرشتوں نے بتایا: یہ بتوں اور گائے کو پوجنے والا ایک ہندو ہے ،جسے تھوڑی دیر پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے ہلاک کر دیا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں کم از کم مسلمان مرا ہوں۔ میں نے ان سے  کہا : میں نے آخرت کے سفر کے حوالے سے بہت پڑھا ہے لیکن جو کچھ میرے ساتھ پیش آ رہا ہے، میں نے کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ فرشتوں نے کہا : شکر ادا کرو کہ مسلمان مرے ہو لیکن ابھی تمھارے سامنےسفر بہت لمبا ہے اور آگےبے شمار مراحل پیش آئیں گے۔

اس کے بعد ہم فرشتوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے پاس سے گزر گئے اور ہم نے انھیں سلام کیا۔انھوں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میرے ساتھ والے دو فرشتوں نے جواب دیا کہ یہ ایک مسلمان ہے، جو تھوڑی دیر پہلے حادثے کا شکار ہوگیا اور اللہ نے ہمیں اس کی روح قبض کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے کہا: مسلمانوں کے لیے بشارت ہے کیونکہ یہ اچھے لوگ ہیں۔ میں نے فرشتوں سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے بتایا: یہ وہ فرشتے ہیں جو آسمان کی حفاظت کرتے ہیں اور یہاں سے شیطانوں پر شہاب پھینکتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو اللہ کی بہت عظیم مخلوق ہیں۔ انھوں نے کہا: ان سے بھی زیادہ عظیم فرشتے ہیں۔

سفر آخرت (حصہ اول)

(ایک آدمی کی کہانی جو جدہ سے ریاض جا رہا تھا)

نحمده و نصلی علی رسوله الکریم فاعوذ بالله من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم

﴿ رب اشرح لی صدري ويسرلی أمرِي واحلل عقدة  من لسانی يفقهوا قولي﴾
ّّْْ اے میرے پروردگار میرے سینے کو کشادہ کر دے اور میرے کام کو آسان فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھیں۔

﴿کل نفس ذائقة الموت﴾
ہرجاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے
٭۔ ۔ ۔ ٭
ایک بار ریاض جانے کے لیے میں ایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا، لیکن راستے میں ٹریفک کے رش اور پولیس چیکنگ کی وجہ سے میں ایئرپورٹ تاخیر سے پہنچا۔جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور دوڑتے ہوئے کاؤنٹر جا پہنچا۔ کاؤنٹر پر موجود ملازم سے میں نے کہا: مجھے ریاض جانا ہے۔ اس نے کہا:ریاض والی فلائٹ تو بند ہو چکی ہے۔ میں نے کہا: پلیز!۔۔۔مجھے آج شام تک لازمی ریاض پہنچنا ہے۔ اس نے کہا: جناب! زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت آپ کو کوئی بھی نہیں جانے دے گا۔ میں نے کہا: اللہ تمھارا حساب کر دے۔ اس نے کہا: اس میں میرا کیا قصور ہے؟

بہرحال میں ایئرپورٹ سے باہر نکلا، حیران تھاکیا کروں؟ریاض جانے کا پروگرام منسوخ کر دوں یا اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے روانہ ہو جاؤں یا کسی ٹیکسی میں چلا جاؤں؟ آخرکار ٹیکسی میں جانے والی بات موزوں معلوم ہوئی۔

ایئرپورٹ کے باہر ایک پرائیویٹ گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے پوچھا: ریاض کے لیے کتنے پیسےلوگے؟ اس نے کہا:500ریال۔ بڑی مشکل سے اسے 450ریال پر راضی کیا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ریاض کیلئے روانہ ہوا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے اسے کہا: گاڑی تیز چلانی ہے۔ اس نے کہا: فکر مت کرواور واقعی اس نے خطرناک حد تک گاڑی دوڑانی شروع کر دی۔ راستے میں اس سے کچھ باتیں ہوئیں۔ اس نے میرے ذریعہء روزگار اور خاندان سے متعلق سوالات کیے ۔ اسی طرح کچھ سوال میں نے بھی پوچھ لیے۔

اچانک مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا کہ ان سے بات کر لوں۔ میں نے موبائل نکالا اور والدہ کو فون کیا۔ انھوں نے پوچھا: بیٹے کہاں ہو؟ میں نے جہاز کے نکل جانے اور ٹیکسی میں سفر کرنے والی بات بتا دی۔ ماں نے دعا دی: بیٹے اللہ تمھیں ہر قسم کے شر سے بچا ئے۔ میں نے کہا: انشاءاللہ! جب میں ریاض پہنچ جاؤں گا تو آپ کو اطلاع دے دونگا۔

اس وقت نہ جانے کیوں میرے دل میں قدرتی طور پرایک عجیب سی گھبراہٹ طاری ہونے لگی اور مجھے ایسا لگنے لگا جیسے کوئی مصیبت میرا انتظار کر رہی ہو۔

اس کے بعد میں نے اپنی بیوی کوفون کیا۔ میں نے اسے بھی ساری بات بتا دی اور اسے ہدایت کی کہ بچوں کا خیال رکھے۔ بالخصوص چھوٹی بچی سلمیٰ کا۔ اس نے کہا: جب سے آپ گئے ہیںسلمیٰ مسلسل آپ کے بارے میں پوچھ رہی ہے۔ میں نے کہا کہ سلمیٰ سے میری بات کرواؤ۔ بچی نے کہا: بابا!آپ کب آئیں گے۔ میں نے کہا: بیٹی! تھوڑی دیر میں آجاؤں گا، کوئی چیز چاہیئے؟ وہ بولی: ہاں بابا میرے لیے چاکلیٹ لے آؤ۔ میں ہنسا اور کہا: ٹھیک ہے۔

اس کے بعد میں اپنی سوچوں میں گم ہو گیا۔ اچانک ڈرائیور کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔ اس نے پوچھا: کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں؟ میں نے کہا: بھائی! تم مجھے ایک نیک اور سمجھدار انسان لگ رہے ہو۔ تم کیوں خود کو اور اپنے مال کو نقصان پہنچا رہے ہو؟ اس نے کہا: میں نے پچھلے رمضان میں بہت کوشش کی کہ سگریٹ نوشی چھوڑ دوں لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمھیں بڑی قوت عطا کی ہے، تم سگریٹ نوشی چھوڑنے جیسا معمولی سا کام نہیں کر سکتے؟ بہرحال اس نے کہا کہ آج کے بعد میں سگریٹ نہیں پیوں گا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ تمھیں ثابت قدمی عطا فرمائے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کے بعد میں نے گاڑی کے دروازے کے ساتھ سر لگایا کہ اچانک گاڑی سے ایک زوردار آواز آئی اور پتا لگا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ میں گھبرایا اور ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی کی رفتار کم کر دو اور گاڑی کو قابو کرو۔ اس نے گھبراہٹ میں کوئی جواب نہیں دیا۔ گاڑی ڈرائیور سے بے قابو ہو کر ایک طرف نکل گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ایک جگہ جا کر رک گئی۔ مجھے اس وقت اللہ نے توفیق دی اور میں نے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا۔

مجھے سر میں چوٹ لگی تھی اور درد کی شدت سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سر پھٹا جارہا ہے۔ میں جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ میں بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ حتیٰ کہ میری آنکھیں کھلی تھیں، لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اتنے میں میں نےلوگوں کے قدموں کی آوازیں سنیں جو ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اسے ہلاؤنہیں، سر سے خون نکل رہا ہے اور دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاتھا اورمیں سانس لینے میں شدید دشواری محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ شاید میری موت واقع ہوگئی ہے۔ اس وقت مجھے گزری ہوئی زندگی پر جو ندامت ہوئی، میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

حصہ دوم پڑھیے۔۔۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.