مارچ 2016

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور؟

ایک تو ویسے ہی بم دھماکوں میں ہماری جانیں جا رہی ہیں. اوپر سے ہم نے یہ "تو گستاخ! نہیں تو گستاخ!" کا نیا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے. کوئی نہیں ہے جو اس خونی کھیل کو آگے بڑھ کر روکے. علماء کرام کو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہیں. اسی لیے کوئی صاحب جنت کی حسین و جمیل حوروں کے دلکش نقوش بیان کرنے میں مصروف ہیں تو کوئی صاحب "ایک چُپ سو سُکھ اور خاموشی کے فضائل" بتانے میں مشغول ہیں.

آج جب کہ سرزمینِ پاکستان میں ایک طرف خوارج خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہیں اور دوسری طرف چند نام نہاد عاشقانِ رسول دین کے ٹھیکیدار بن کر ایک دوسرے کو گستاخ قرار دے کر اسلام کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں، ہمارے علماء کرام لمبی تانے سو رہے ہیں۔ اے اللہ کے بندو! اٹھو! کچھ بولو اور کچھ کرو! اب نہیں کچھ کرو گے تو کب کرو گے؟ کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور؟

مقدس مقامات اور سیلفی جنون

اسلام امن اور باہمی رواداری کا مذہب ہےاور ہر رنگ، نسل اور عقیدےکے لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اسلام میں کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں ۔ اسلام کی نظر میں سب انسان برابر اسلام امن اور باہمی رواداری کا مذہب ہےاور ہر رنگ، نسل اور عقیدےکے لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اسلام میں کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں ۔ اسلام کی نظر میں سب انسان برابر ہیں۔ برتری کا معیار صرف تقویٰ ہے یعنی اسلام کی نظر میں صرف وہی شخص عزت اور مرتبہ میں بڑا ہے جو خالص اللہ کی عبادت کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری رسول مانتے ہوئے ان کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال میں اسلام پوری دنیا میں پھیل چکا ہے اور ہر رنگ، نسل اور زبان کے لوگ اس میں شامل ہیں اور اسلام کے مرکز حجاز مقدس کے سفر کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اور زندگی کی سب سے بڑی خواہش سمجھتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ سفر ہفتوں ، مہینوں یا شاید سالوں پر محیط ہوتا تھا مگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا سفر نہایت آسان اور مختصر ہوچکا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان زائرین میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو اس مقدس مقام کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔

مذہبی رسومات آج بھی اسی طرح انجام دی جا رہی ہیں جس طرح پہلے انجام دی جاتی تھیں۔ ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فونز نے بلاشبہ زائرین کواس سفر میں کئی طرح کی آسانیاں بہم پہنچائی ہیں مگر موجودہ زمانے کے سب سے مشہور فیشن "سیلفیاں" لینےنے اسے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ حجاز مقدس کے متبرک مقامات پر اپنی تصویریں اُتارنے کا "جنون" اب معمول کی بات بنتی جا رہی ہے بلکہ کسی وبائی مرض کی طرح تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔

سیلفی لینے والے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص باور کروا سکے کہ وہ اس مقام پر موجود تھا۔ یہ "مرض" زائرین میں شاید کسی حج سے شروع ہوا تھا مگر اب شاید ہر مقام پراس مرض میں مبتلا مریض دیکھے جا سکتے ہیں۔زائرین کی ایک بڑ ی تعداد اب طوافِ کعبہ کے دوران رُک رُک کر سیلفیاں لیتے دیکھی جا سکتی ہے یہاں تک کہ کئی لوگوں کو کعبہ کے گرد گھومتے ہوئے ویڈیو بناتے اور براہِ راست ویڈیو کال کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔یہ عمل ٹھیک ہے یا غلط اور اس عمل سے زائر کی عبادت متاثر ہوتی ہے یا نہیں، یہ ایک علیحدہ بحث ہےلیکن اس بات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ اس عمل سے دوسرے زائرین کی عبادات لازمی متاثر ہوتی ہیں یا کم از کم ان کی توجہ ضرور بھٹکتی ہے۔

مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب اسمارٹ فونز یاکیمرے والے موبائل فونز کا وجود نہیں تھا اور حرم شریف کے اندر کیمرہ لے جانا ممنوع تھا۔ حرم شریف کے باہر صحن میں ضرور لوگ چھپ کر چپکے سے تصاویر اُتار لیا کرتے تھے مگر اگر کسی سیکورٹی والے کی نظر پڑ جاتی تھی تو ان کے کیمرے ضبط کر لیے جاتے تھے یا انھیں تنبیہ کر کے چھوڑ دیا جاتا تھا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ "سیلفی جنون" کی وجہ سے نہ صرف طوافِ کعبہ کی روانی متاثر ہوتی ہےبلکہ سیلفی لینے والے کے اچانک رُک جانے کی وجہ سےپیچھے آنے والے زائرین ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں یا انھیں راستہ بدل کر گزرنا پڑتا ہے۔ اس طرح اس عمل سے ناصرف سیلفی لینے والے کی توجہ متاثر ہوتی ہے بلکہ دوسرے زائرین کی عبادت کا بھی خشوع و خضوع رخصت ہو جاتا ہے۔

سیلفیاں لینے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ یہ "بے ضرر" عمل صرف اس زیارت کو محفوظ اور یادگار بنانے کے لیے انجام دیتے ہیں تاکہ واپس جا کر اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ شیئر کر سکیں مگروہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اس عمل سے دوسرے زائرین کس قدر متاثر ہوتے ہیں۔ مقدس مقامات میں ویسے ہی لوگوں کا رش ہوتا ہےاور پھر جب کوئی شخص طواف یا سعی کے دوران سیلفی لینے کے لیے اچانک رُک جاتا ہے تو پیچھے آنے والے افراد کو بھی رُکنا پڑ جاتا ہے اور اس طرح لوگوں کی آمدورفت کی روانی متاثر ہوتی ہے۔بعض لوگ اخلاقیات سے اس قدر عاری ہوتے ہیں کہ گزرنے والے شخص کو ہاتھ سے روک کر اس کا رخ دوسری جانب موڑ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے سیلفی لینے کے"بے ضرر" عمل کو خشوع و خضوع سے انجام دے سکیں۔ یوں بھی سیلفی لینے سے پس منظر میں گزرنے والے غیر محرم خواتین و حضرات بھی تصویر کا حصہ بن جاتے ہیں جو کہ سراسر غیر شرعی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ 

سیلفیاں لینے والے لوگوں کو خود سوچنا چاہیئے کہ کہیں ان کا یہ عمل کسی دوسرے کی عبادت تو متاثر نہیں کر رہا ؟ اگر سیلفی لینا اتنا ہی ضروری ہے تو کم از کم کسی ایسے مقام پر کھڑے ہوکر سیلفی لیں جہاں لوگوں کا رش کم ہو اور ان کے اس عمل سے کسی دوسرے کو کسی قسم کی دشواری یا پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ 
  

ہمارا معیار اور لوگ

لوگوں کو اپنے معیار پر جانچنے سے سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا کیونکہ قدرتی طور پر ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔



<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.