مارچ 2012

اے پاکستانی سوچ ذرا

اے پاکستانی! سوچ ذرا
تجھے کن راہوں پہ چلنا ہے

اب عزت شان سے جینا ہے
یا بس خیرات پہ پلنا ہے

بے وقعت ہےتقدیس ِ قلم
پامال ہوئے لفظوں کے بھرم

وہ افسر ہوں کہ سیاستدان
منصف ہوں یا اہل ِ قلم

شامل ہیں ضعف ِ ملت میں
یوں ہم نے ڈھائے خود پہ ستم

اے پاکستانی! سوچ ذرا
تجھے کن راہوں پہ چلنا ہے

جمہوری راہ پکڑنا ہے
یا آمر کے ہاتھوں جکڑنا ہے

اپنے ووٹ کی طاقت سے
دیس کا حال بدلنا ہے

طاقت کو کرنا ہے سلام
یا خود طاقتور بننا ہے

اے پاکستانی! سوچ ذرا
تجھے کن راہوں پہ چلنا ہے

ٹیڑھے ہیں ترازو کے پلڑے
مجرم نے منصف ہیں پکڑے

عدل بکاؤ مال بنا
قانون کے ملتے ہیں ٹکڑے

انصاف کا بھاؤ لگا جب سے
بن بیٹھے ظالم بے فکرے

اے پاکستانی! سوچ ذرا
تجھے کن راہوں پہ چلنا ہے

حق تلفی بڑھ جانے سے
نفرت کی آگ بھڑکتی ہے

انصاف جہاں پر عام نہ ہو
واں قوم دُکھوں میں جکڑتی ہے

ہاں یاد رہے فرمانِ علی ؓ
بِن عدل تو قوم بکھرتی ہے

اے پاکستانی! سوچ ذرا
تجھے کن راہوں پہ چلنا ہے

مُلّا کی نصیحت بے حکمت
سجدے ہیں حضوری سے خالی

صوفی کی باتیں بے روحی
اسرارِ باطن سے خالی

اپنے ہی قول کا پاس نہیں
حاکم کی کیسی بے حالی

اے پاکستانی! سوچ ذرا
تجھے کن راہوں پہ چلنا ہے

غیروں کو سمجھ مت اپنا امام
دنیا میں بنا خود اپنا مقام

مشکل ہے مگر اتنا بھی نہیں
کوشش کر ، لے اپنا انعام

تحقیق و تجسّس ، علم و عمل
ہاں محنت سے کر اپنا کام

اے پاکستانی! سوچ ذرا
تجھے کن راہوں پہ چلنا ہے

تو وارث شہہ سواروں کا
اللہ نبی کے پیاروں کا

ؒرحمٰن ؒ ، لطیف ؒو بلّھے شاہ
دیں درس یہ من کے اُجالوں کا

ہمت کر ، تو محتاج نہ بن
دنیا کے جھوٹے سہاروں کا

اے پاکستانی! سوچ ذرا
تجھے کن راہوں پہ چلنا ہے

(ؔڈاکٹر وقار یوسف عظیمی)

قرآن سے رشتہ توڑ دیا!


یہ دور ہے افراتفری کا
اور وقت ہے نفسانفسی کا
کچھ ہوش نہیں انسانوں کو
خطرہ ہے سب کی جانوں کو
دھارے سب اُلٹے بہتے ہیں
انسان پریشان رہتے ہیں
اِک خوف سا سب پہ چھایا ہے
چہرہ چہرہ مُرجھایا ہے
جانے کب وہ وقت آئے گا؟
ابن ِ آدم  مسکرائے گا!
یہ سوچ لگی سی رہتی ہے
اور دل کو اذیت دیتی ہے
کیوں دنیا میں اندھیرا ہے؟
کیوں ظلم نے سب کو گھیرا ہے؟
آواز یہ دل سے آتی ہے
اور راز مجھے بتلاتی ہے
دین ہم نے اپنا چھوڑ دیا
قرآن سے رشتہ توڑ دیا!

عبداللہ

عبداللہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف و منفرد ڈرامہ رائٹر اور ناول نگار ہاشم ندیم کامشہور ناول ہے۔ یہ دراصل عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کے انوکھے و لافانی سفر پر مشتمل ایک داستان ہے۔ جس کا سارا خاکہ ، ہماری دنیا کے بالکل متوازی چلتی ایک دوسری دنیا کے اسرارورموز کے گرد گھومتا ہے۔





مجھے بھی جنگ کےسنڈے میگزین میں اس شاہکار ناول کو پڑھنے کا موقع ملا۔ بعض اقساط پڑھنے سے رہ گئیں تھیں مگر انٹرنیٹ زندہ باد۔۔۔۔معمولی سی تلاش کے بعد عبداللہ ناول کی مکمل پی ڈی ایف مل گئی۔ کافی لوگوں سے اس ناول کی تعریف سن چکا ہوں اور حقیقت میں یہ ناول تعریف کے قابل ہے۔اگر آپ کو یہ ناول پڑھنے کا موقع نہ ملا ہو یا کچھ اقساط سنڈے میگزین میں پڑھنے سے رہ گئیں ہوں تو فی الفورمندرجہ ذیل روابط سے اس ناول کو ڈاؤن لوڈ کریں اور اس کا مطالعہ شروع کیجئے!

<<< پچھلا صفحہ

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.