جنوری 2013

انگلش میڈیم استاد اور استانیاں

اماں جیراں اکثر کوئی نہ کوئی مسئلہ لے کر میرے پاس آتی رہتی ہے‘ اس بار بھی وہ منہ بنائے بیٹھی تھی‘ پتا چلا کہ اس کی بیٹی نبیلہ پھر نویں جماعت کے امتحان میں فیل ہوگئی ہے‘ ماسی نے پہلے تو نبیلہ کو کوسا‘ پھر مجھے کہنے لگی ’’اے بیٹا! کچھ کر کرا کے پاس نہیں ہوسکتی؟؟؟
میں نے سرہلایا۔۔۔’’ہوسکتی ہے۔۔۔ایک طریقہ ہے!!!‘‘
اماں خوشی سے اچھل پڑی۔۔۔’’وہ کیا؟‘‘
’’وہ یہ کہ تمہاری بیٹی دوبارہ سے امتحان دے۔۔۔‘‘ میں نے اطمینان سے کہا۔
اماں کا پھر منہ بن گیا۔۔۔’’وہ سو دفعہ بھی امتحان دے لے تو پاس نہیں ہوگی‘نکمی کہیں کی۔۔۔‘‘ اماں نے جلی کٹی سنادیں اور برقعہ سنبھال کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ایک ہفتے بعد میری دوبارہ اماں سے ملاقات ہوئی‘ میں نے پوچھا’’سناؤ اماں! نبیلہ کا کیا بنا؟۔۔۔دوبارہ امتحان دیا؟‘‘
’’نہیں پُتر! اس کے ابے نے اسے سکول سے ہی اٹھوا لیا ہے‘ وہ کہتا ہے پڑھائی اِس کے نصیب میں ہی نہیں۔۔۔‘‘
میں نے افسوس کیا۔۔۔’’اماں یہ ظلم نہ کرو۔۔۔کچھ پڑھ جائے گی تو کہیں نہ کہیں نوکری ہی مل جائے گی‘ چا ر پیسے آجایا کریں گے۔‘‘
اما ں خوش ہوکر بولی۔۔۔’’نوکری تو اسے مل بھی گئی۔‘‘
میں حیرت سے اچھل پڑا۔۔۔’’نوکری بھی مل گئی۔۔۔لیکن کہاں؟‘‘
اماں اطمینان سے بولی۔۔۔’’الحمد للہ ۔۔۔اگلی گلی والے انگلش میڈیم سکول میں ساڑھے سات سو روپے مہینے پر استانی لگ گئی ہے اور دسویں جماعت کو پڑھا رہی ہے۔‘‘
***
آپ کے اِردگرد بھی ایسی کئی استانیاں ’’فروغ علم‘‘ میں مصروف ہوں گی‘ یہ ایسی استانیاں ہوتی ہیں جو ایک ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتی ہیں اور دو ہزار روپے ماہانہ میک اپ پر لگا دیتی ہیں۔گلی گلی میں کھلے انگلش میڈیم سکول‘ انگلش ٹوتھ پیسٹ کی طرح ہیں تو بہت سستے لیکن ان کے دعوے آسمانوں سے باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔میں نے ایک ڈیڑھ مرلے کے انگلش میڈیم سکول کے باہر لکھا دیکھا کہ ’’یہاں بچوں کو کمپیوٹر کی عملی تربیت بھی دی جاتی ہے‘‘۔ مجھے بہت تجسس ہوا‘ میں نے پرنسپل صاحبہ سے پوچھا کہ کمپیوٹر ہے کہاں؟ وہ مجھے بڑے فخر سے سیڑھیوں کے نیچے بنی ’’کمپیوٹر لیب‘‘ میں لے آئیں جہاں سی پی یو کے بغیر صرف ایک مانیٹر پڑا تھا۔چونکہ کمپیوٹر کے متعلق میری معلومات بھی چنگیز خان جتنی ہیں لہذا میں نے تعریفی نظروں سے مانیٹر کی طرف دیکھا اورمرعوب ہوکر پوچھا’’میڈم! کیا یہ پینٹی ایم فورہے؟‘‘
وہ کچھ دیر سوچتی رہیں ‘ پھر اٹھلا کر بولیں۔۔۔’’نہیں نہیں۔۔۔یہ تو پینٹی ایم سیون‘‘ ہے۔میں نے مزید متاثر ہوکر پوچھا’’ بچوں کو اس کی عملی تربیت کیسے دی جاتی ہے؟‘‘ وہ اطمینان سے بولیں۔۔۔’’پہلے تو دو ماہ تک بچوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ یہی کمپیوٹر ہے۔۔۔پھر دو ماہ تک انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ بجلی سے چلتا ہے‘پھر اگلے دوماہ تک انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر بجلی چلی جائے تو یہ نہیں چلتا۔۔۔پھر اگلے دوماہ تک انہیں بتایا جاتاہے کہ دوبارہ بجلی آنے پر یہ دوبارہ چل پڑتاہے۔۔۔پھر اگلے دو ماہ تک انہیں بتایا جاتاہے کہ اگر یہ زمین پر گرے تو ٹوٹ بھی سکتا ہے۔۔۔پھر اگلے دو ماہ تک انہیں بتایا جاتاہے کہ اگر یہ زمین پر نہ گرے تو بالکل نہیں ٹوٹتا۔۔۔پھر اگلے دو ماہ تک انہیں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کمپیوٹر سیکھ لیا ہے۔۔۔پھر اگلے دو ماہ کے بعد انہیں سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتاہے۔

ایسی کسی اُستانی سے اگر آپ پوچھیں کہ آپ میٹرک فیل ہیں؟ تو وہ کبھی ہاں میں جواب نہیں دے گی بلکہ کہے گی‘ نہیں! میں نویں پاس ہوں۔اس نوح میں مرد اساتذہ بھی شامل ہیں جو ایسے ہی انگلش میڈیم سکول میں ایک مہینہ اپنی قابلیت دکھا کر ڈیفنس کے سکول میں پرنسپل کی سیٹ کے لیے اپلائی کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ایسا ہی ایک نویں پاس اُستاد برطانیہ کا ویزہ لگوانے کے لیے ایمبیسی پہنچا‘وہاں ویزہ افسر نے پوچھا کہ کیا تمہیں انگلش آتی ہے؟ ۔۔۔فوراً بولا۔۔۔’’جناب کیسی بات کرتے ہیں‘ میں انگلش میڈیم سکول کا سینئر ٹیچر ہوں۔‘‘

افسر نے کہا ۔۔۔’’ٹھیک ہے‘ ابھی ٹیسٹ کرلیتے ہیں‘ میں کچھ چیزوں کے نام لیتا ہوں‘ تم نے ان کا الٹ بتانا ہے۔‘‘استاد صاحب نے سر ہلایا اور تیار ہوگئے۔

افسر نے کہا ۔۔۔بلیک (Black)
جواب آیا۔۔۔وائٹ(white)
افسر نے کہا۔۔۔لیفٹ(Left)
جواب آیا۔۔۔رائٹ(Right)
افسر نے کہا۔۔۔اگلی(Ugly)
جواب آیا۔۔۔پچھلی۔۔۔!!!
***

میں ایسے استاد اور استانیوں کی بڑی قدر کرتا ہوں جو اپنے علم سے کہیں زیادہ تعلیم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور بعض اوقات بچوں کو ایسی ایسی انوکھی باتوں سے روشناس کراتے ہیں کہ کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی ادارہ بھی یہ کام نہیں کر سکتا۔مثلاً میرے محلے میں ایک کمرے کا ہوٹل ہے جو دن کے وقت بطور انگلش میڈیم سکول استعمال ہوتاہے۔اس سکول کے ایک ذہین طالبعلم سے میں نے پوچھا کہ’’ بتاؤ اسلامی تاریخ کا وہ کون سا نیک اور خوبصورت انسان تھا جس کو اس کے بھائیوں نے کنوئیں میں دھکا دے دیا تھا؟

کچھ سوچ کر بولا۔۔۔’’ہریتک روشن‘‘
میں نے دانت پیس کر کہا۔۔۔’’میں ہندو کی نہیں‘ مسلمان کی بات کر رہا ہوں۔‘‘
جلدی سے بولا۔۔۔’’سوری۔۔۔شاہ رخ خان‘‘
میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور پوچھا۔۔۔’’یہ بتاؤ صبح اٹھ کر پہلا کام کیا کرنا چاہیے؟‘‘
کچھ سوچ کر بولا۔۔۔’’ممی ڈیڈی کا آشیر باد لینا چاہیے۔۔۔‘‘
میں نے گہرا سانس لے کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے منہ پر تھپڑ دے مارا۔
***
گل نوخیز اختر

نغمۂ محمدی

وہ پاکیزہ چشمہ
جواوجِ فلک سے چٹانوں پہ اترا
سحابوں سے اوپر بلند آسمانوں پہ جولاں ملائک کی چشم نگہداشت کے سائے سائے
چٹانوں کی آغوش میں عہد برنائی تک جوئے جولاں بنا

چٹانوں سے نیچے اترتے اترتے
وہ کتنے ہی صد رنگ اَن گھڑ خزف ریزے
آغوشِ شفقت میں اپنی سمیٹے
بہت سے سسکتے ہوئے رینگتے، سُست کم مایہ سوتوں کو چونکاتا ، للکارتا ساتھ لیتا ہوا خوش خراماں چلا


بے نمو وادیاں لہلہانے لگیں
پھول ہی پھول چاروں طرف کھل اٹھے
جس طرف اُس ﷺ کا رخ پھر گیا
اُس ﷺ کے فیضِ قدم سے بہار آگئی
یہ چٹانوں کے پہلو کی چھوٹی سی وادی ہی کچھ
اُس ﷺ کی منزل نہ تھی
وہ تو بڑھتا گیا
کوئی وادی ، کوئی دشت، کوئی چمن، گلستاں، مرغزار
اُس ﷺ کے پائے رواں کو نہ ٹھہرا سکا

اُس ﷺ کے آگے ابھی اور صحرا بھی تھے
خشک نہريں بھی تھیں ، اُترے دریا بھی تھے ۔
سیلِ جاں بخش کے ، اُس ﷺ کے سب منتظر
جوق در جوق پاس اُس ﷺ کے آنے لگے
شور آمد کا اُسﷺ کی اٹھانے لگے
راہبر ﷺ ساتھ ہم کو بھی لیتے چلو
کب سے تھیں پستیاں ہم کو جکڑے ہوئے
راہ گھیرے ہوئے ، پاؤں پکڑے ہوئے
یاد آتا ہے مسکن پرانا ہمیں
آسمانوں کی جانب ہے جانا ہمیں
ورنہ یونہی نشیبوں میں دھنس جائیں گے
جال میں اِن زمینوں کے پھنس جائیں گے
اپنے خالق کی آواز کانوں میں ہے
اپنی منزل وہيں آسمانوں میں ہے
گرد آلود ہیں پاک کر دے ہمیں
آ ۔ ہم آغوش ِ افلاک کردے ہمیں

وہ رواں ہے ، رواں ہے ، رواں اب بھی ہے
ساتھ ساتھ اُس کے اک کارواں اب بھی ہے
شہر آتے رہے شہر جاتے رہے
اُس ﷺ کے دم سے سبھی فیض پاتے رہے

اُس ﷺ کے ہر موڑ پر ایک دنیا نئی
ہر قدم پر طلوع ایک فردا نئی

قصر ابھرا کيے خواب ہوتے گئے
کتنے منظر تہہ ِ آب ہوتے گئے
شاہ اور شاہیاں خواب ہوتی گئیں
عظمتیں کتنی نایاب ہوتی گئیں
اُس ﷺ کی رحمت کا دھارا ہے اب بھی رواں
از زمیں تا فلک
از فلک تا زمیں
از ازل تا ابد جاوداں ، بیکراں
دشت و در ، گلشن و گل سے بے واسطہ
فیض یاب اس سے کل
اور خود کل سے بے واسطہ
ـ ـ ـ ـ ـ ـ
جرمن شاعر گوئٹے کی نظم
Song of Muhammad
کا منظوم ترجمہ
مترجم: شان الحق حقی
سہ ماہی " کولاژ " شمارہ اول


اصل نظم یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
 




تنقید اور تائی کا فلسفہ

بہت عرصہ پہلے میرے علاقے میں ایک انتہائی ماڈرن قسم کی بیوہ عورت وہاں آ کر رہنے لگی اس کے دو بچے بھی تھے - ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب کردار آکر ہمارے درمیان آباد ہو گیا ہے - اور اس کا انداز زیست ہم سے ملتا جلتا نہیں ہے ایک تو وہ انتہائی اعلا درجے کے خوبصورت اور باریک کپڑے پہنتی تھی ، پھر اس کی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی تیسری اس میں خرابی یہ تھی کہ اس کے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتیں تھیں۔

اس کے جو دو بچے تھے وہ گھر سے باہر بھاگتے پھرتے تھے ، اور کھانا گھر پر نہیں کھاتے تھے - لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے اور جن گھروں میں جاتے وہیں سے کھا پی لیتے - یعنی گھر کی زندگی سے ان بچوں کی زندگی کچھ کٹ آف تھی۔-

اس خاتون کو کچھ عجیب و غریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے - گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھ دیکھ کر آپ جان جاتے ہیں - لیکن اس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتیں تھیں - ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں اخذ کر سکتے۔

اس کے بارے میں ہمارا ایسا ہی رویہ تھا ، جیسا آپ کو جب میں یہ کہانی سنا رہا ہوں ، تو آپ کے دل میں لا محالہ اس جیسے ہی خیالات آتے ہو نگے - ہمارے گھروں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہوتی تھیں کہ یہ کون آ کر ہمارے محلے میں آباد ہو گئی ہے۔

میں کھڑکی سے اسے جب بھی دیکھتا ، وہ جاسوسی ناول پڑھتی رہتی تھی - کوئی کام نہیں کرتی تھی - اسے کسی چولہے چوکے کا کوئی خیال نہ تھا - بچوں کو بھی کئے بار باہر نکل جانے کو کہتی تھی۔

ایک روز وہ سبزی کی دکان پر گر گئی ، لوگوں نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے وینٹے مارے تو اسے ہوش آیا اور وہ گھر گئی - تین دن کے بعد وہ فوت ہوگئی ، حالانکہ اچھی صحت مند دکھائی پڑتی تھی - جو بندے اس کے ہاں آتے تھے - انھوں نے ہی اس کے کفن دفن کا سامان کیا۔

بعد میں پتا چلا کے ان کے ہاں آنے والا ایک بندہ ان کا فیملی ڈاکٹر تھا - اس عورت کو ایک ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں تھا - اس کو کینسر کی ایسی خوفناک صورت لاحق تھی skin وغیرہ کی کہ اس کے بدن سے بدبو بھی آتی رہتی تھی - جس پر زخم ایسے تھے اور اسے خوشبو کے لئے اسپرے کرنا پڑتا تھا ، تا کہ کسی قریب کھڑے کو تکلیف نہ ہو - اس کا لباس اس لئے ہلکا ہوتا تھا اور غالباً ایسا تھا جو بدن کو نہ چبھے دوسرا اس کے گھر آنے والا وکیل تھا ، جو اس کے حقوق کی نگہبانی کرتا تھا - تیسرا اس کے خاوند کا چھوٹا بھائی تھا ، جو اپنی بھابھی کو ملنے آتا تھا۔

ہم نے ایسے ہی اس کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگا لیے اور نتائج اخذ کر لیے اور اس نیک پاکدامن عورت کو جب دورہ پڑتا تھا ، تو وہ بچوں کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیتی تھی اور تڑپنے کے لیے وہ اپنے دروازے بند کر لیتی تھی۔-

میرا یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم تنقید اور نقص نکالنے کا کام الله پر چھوڑ دیں وہ جانے اور اس کا کام جانے - ہم الله کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہ اٹھائیں ، کیونکہ اس کا بوجھ اٹھانے سے آدمی سارے کا سارا "چبہ" ہو جاتا ہے ، کمزور ہو جاتا ہے ، مر جاتا ہے۔

الله تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین۔

از اشفاق احمد زاویہ ٢ تنقید اور تائی کا فلسفہ

کلمئہ حق

حجاج بن یوسف اپنے محل کے دریچے میں بیٹھا ہوا تھا کچھ عراق کے معزز لوگ بھی اس کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ایک نو عمر لڑکا وہاں سے گزرا اور اس نے محل کو دیکھ کر کہا کہ کیا اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہو بے فائدہ اور مضبوط قلعےبناتےہو اس خیال سے کہ ہمیشہ جیتے رہو گے؟

حجاج نے لڑکے کو بلا لیا اور کہا کہ تو عقل مند اور ذہین معلوم ہوتا ہے مجھے کچھ نصیحت کر۔

لڑکے نے قرآن کی ایک آیت پڑھی اذا جاء نصراللہوالفتح و رایت الناس یخرجون من دین اللہ افواجا جس کا ترجمہ تھا کہ جب خدا کی مدد اور فتح آئی تو دیکھا کہ لوگ دین سے فوج در فوج نکلتے جا رہے ہیں۔

حجاج نے کہا تو نے آیت کو غلط پڑھا ، یخرجون من دین نہیں ہے یدخلون فی دین ہے کہ دین میں داخل ہو رہےہیں۔
لڑکے نے جواب دیا کہ بے شک پہلے داخل ہی ہوتے تھے مگر اب تیرے دور میں تیری وجہ سے، اس لیے میں نے یخرجون کا لفظ استعمال کیا۔

حجاج نے کہا کہ تو جانتا ہے کہ میں کون ہوں؟

لڑکے نے جواب دیا ہاں میں جانتا ہوں کہ میں ثقیف کے شیطان سے مخاطب ہوں۔

حجاج نے کہا کہ تو دیوانہ اور قابل علاج معلوم ہوتا ہے امیر المومنین کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟

لڑکے نے جواب دیا کہ اللہ ابو الحسن (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہہ ) پر رحمت کرے۔

حجاج نے کہا کہ میں نے عبدالمالک بن مروان کے بارے میں پوچھا ہے۔

لڑکے نے جواب دیا کہ اس کے تو اتنے گناہ ہے کہ زمین و آسمان میں بھی نہیں سما سکتے۔

حجاج نے کہا کہ میں بھی تو سنوں کے اس نے کونسے گناہ کیے ہیں؟

لڑکے نے جواب دیا کہ اس کا ایک گناہ تو یہ ہے کہ تجھ جیسے ظالم کو حکمران بنایا جو رعایا کے مال کو مباح اور خون کو حلال سمجھتا ہے۔

حجاج نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ اس لڑکے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟

سب نے کہا کہ یہ واجب القتل ہے کیونکہ یہ اطاعت پزیر جماعت سے الگ ہو گیا۔

لڑکے نے جواب دیا کہ تم سے اچھے تو فرعون کے ساتھی تھے جنہوں نے کہا تھا کہ حضرت موسی اور انکے بھائی کے قتل کے بارےمیں جلدی نہ کرو اور تم لوگ محض خوشامند کی وجہ سے بغیر سوچے سمجھے میرے قتل کا فتویٰ دے رہے ہو۔

حجاج نے سوچا کہ اس معصوم لڑکے کے قتل سے کہیں سورش ہی برپا نہ ہو جائے اس لیے اسکے قتل کا ارادہ ملتوی کیا اور اسے خوف دلانے کی بجائے نرمی سے کام لیا اور کہا اے لڑکے تمیز سے بات کر اور اپنی زبان کو قابو رکھ ۔ جا میں نے تیرے واسطے چار ہزار درہم کا حکم دیا ۔ جا اپنی ضرورتیں پوری کر۔

لڑکے نے جواب دیا کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں اللہ تیرا منہ سفید اور ٹخنہ اونچا کرے۔

حجاج نے ساتھیوں سے پوچھا کہ اس کی بات کا مطلب سمجھے؟ سب نے کہا کہ نہیں تو اس نے کہا کہ اس نے مجھے بددعا دی ہے کہ مجھے برص ہو اور مجھے سولی لٹکا دیا جائے۔

حجاج نے لڑکے سے کہا کہ جا میں نے تجھے تیری دلیری، بہادری اور ذہانت کی وجہ سے معاف کیا ۔ لڑکا وہاں سے چلا گیا۔

حجاج نے کہا کہ میں نے آج تک اتنا ذہین اور دلیر بچہ نہیں دیکھا۔

منتخب موتی جلد 5 صفحہ 241

عظیم کامیابی


رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے نے ہر طرف اپنے سائے پھیلائے ہوئے تھے۔ ایسے میں ایک شخص قلعے کی دیوار سے رسا لٹکائے نیچے اتر رہا تھا۔ وہ جس قدر اپنی منزل کے قریب آرہا تھا، اسی قدر طرح طرح کے اندیشے اس کے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہے تھے۔
“کہیں ایسا نہ ہو کہ قلعے والے مجھے دیکھ لیں اور تیر مار کر راستے ہی میں میرا قصہ تمام کر دیں۔۔۔۔ کہیں نیچے اترتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میرے خون سے رنگین نہ ہو جائیں۔”
یہ تھے وہ خدشات جو اس کے دل و دماغ میں شدت سے گونج رہے تھے۔ پھرجوں ہی اس نے زمین پر قدم رکھا مجاہدین نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس کایہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا کہ مسلمان مجاہد رات کے اندھیرے میں قلعے سے بے خبر ہوں گے۔
اترنے والے نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ اسے لشکر کے سپہ سالار کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ وہ سپہ سالار کون تھے؟ وہ اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مجاہدین کی مٹھی بھر فوج کے ساتھ ملک شام کے دارالسلطنت دمشق کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ دن پر دن گزرتے جا رہے تھے مگر قلعہ تھا کہ کسی طور فتح ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ مجاہدین کو ایک دو دن کے آرام کا وقفہ دے کر وہ یاتو قلعے کے دروازے توڑنے کی کوشش کریں گے یا اس کی مضبوط دیواروں میں سرنگ لگانے کی ترکیب آزمائیں گے۔ انھیں یہ بھی یقین تھا کہ اللہ کی غیبی مدد ضرور آئے گی۔

اب یہ غیبی مدد آ پہنچی تھی۔

دمشق کے قلعے سے نیچے اترنے والے نوجوان نے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کی یہ خواہش فوراً پوری کر دی گئی۔ اس نے دعوی کیا کہ وہ مجاہدین کو قلعے کے اندر پہنچا سکتا ہے۔ اس کے مطابق کل رات رومیوں پر حملے کا بہترین موقع ہے۔ ان کے مذہبی رہنما “بطریق” کےہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اور پورا دمشق جشن منا رہا ہے۔ اس جشن میں فوج سمیت سب شراب پئیں گے اور یہی ان پر فیصلہ کن وار کرنے کا موقع ہوگا۔

اگلی رات خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک بہت بڑا خطرہ مول لے رہے تھے۔ انھوں نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور دوسرے ماتحت سالاروں کو اپنے اس منصوبے سے آگاہ کیا تھااور نہ ہی وہ کوئی زیادہ فوج اپنے ہمراہ لے جا رہے تھے۔ وہ یہ کام انتہائی رازداری سے کرنا چاہتے تھے۔ صرف ایک سو مجاہد جنگجوؤں کو قلعے پر شب خون مارنے کے لیے منتخب کیا گیا۔
سب سے پہلے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، پھرمسلمان ہونے والا عیسائی نوجوان یونس بن مرقس، پھر قعقاع اور آخر میں سو مجاہد کمندوں کے ذریعے سے مشرقی دروازے کی طرف سے قلعے کے اندر داخل ہوگئے۔ انتہائی خطرے کا مرحلہ قریب آ چکا تھا۔

جوں ہی وہ دیوار سے اترے انھیں رومی فوجیوں کی باتیں سنائی دیں۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے کہنے پر یونس بن مرقس نے رومی زبان میں بارعب لہجے کے ساتھ ان رومی فوجیوں کو کہا“آگے چلو!” رومی پہرے دار سمجھے کہ یہ حکمان کے کسی افسر نے دیا ہے۔ وہ دروازے پر اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر آگے بڑھتے گئے۔

اتنے میں مجاہد تیار ہو چکے تھے۔ انھوں نے پہرے داروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا اور آناً فاناً ان کا قصہ تمام کر دیا۔ راہ میں آنے والے ہررومی پہرے دار سے یہی سلوک کیا گیا اور آخر کار بہت سی زنجیروں اور بھاری بھرکم تالوں سے بند دروازہ کھول دیا گیا۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا اپنا دستہ اس کے لیے پہلے سے تیار کھڑا تھا۔ وہ قلعے میں داخل ہوگیا اور رومی فوج کے دستوں کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بہادری کے بے مثال جوہر دکھاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ رومی دستے بھی اسلامی سپاہیوں کے آگے ڈٹ گئے مگر خالد رضی اللہ عنہ کا دستہ ان پر آہستہ آہستہ غالب آتا جا رہا تھا۔ غروب آفتاب تک مسلمان اس جنگ کو تقریباً جیت چکے تھے۔ مسلمان سپاہی اب آگے بڑھے تو حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اب ان کے سامنے کوئی رومی سپاہی نہیں آ رہا تھا۔ انھوں نے اسے دشمن کی چال سمجھا اور پھونک پھونک کر قدم بڑھانے لگے۔ جب وہ مرکزی گرجے کے پاس پہنچے تو وہاں سے اس کہانی کے ایک نئے موڑ کا آغاز ہوا۔

خالد رضی اللہ عنہ اپنے دستے کے ساتھ گرجے کی طرف آ نکلے تو سامنے ایک حیرت انگیز منظر تھا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نہایت پر امن انداز میں سامنے سے آرہے تھے۔ ان سب کی تلواریں نیام میں تھیں اور رومی سپہ سالار “توما” اور اس کے خاص آدمی ان کے ساتھ تھے۔

“اے پروردگار! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟” خالد رضی اللہ عنہ کے خیالات اس وقت یقینا” یہی ہوں گے۔ دونوں نامور سپہ سالار خاصی دیر تک ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ آخر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سکوت توڑا اور بولے:

“ابوسلیمان! (خالد رضی اللہ عنہ کی کنیت) کیا تم اللہ کا شکر ادا نہیں کرو گے کہ اس کی ذات نےیہ شہر ہمیں بغیر لڑے عنایت کر دیا ہے؟”

خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: “کس صلح کی بات کرتے ہیں، ابو عبیدہ؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ میں نے لڑ کر یہ شہر حاصل کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں خود شہر میں داخل ہوا ہوں۔ میں نے تلوار چلائی ہے اور میرے ساتھیوں پر تلوار چلی ہے، وہ شہید ہوئے ہیں۔ میں رومیوں کو یہ حق نہیں دے سکتا کہ وہ خیر و عافیت سے شہر سے چلے جائیں۔ ان کا خزانہ اور مال ہمارا مال غنیمت ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ صلح کس نے اور کیوں کی ہے؟”

ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: “ابو سلیمان! میں اور میرے دستے پرامن طریقے سے قلعے میں داخل ہوئے ہیں۔ اگر آپ میرے فیصلے کو رد کرنا چاہیں تو کر دیں لیکن میں دشمن سے معافی کا وعدہ کر چکا ہوں۔ اگر یہ وعدہ پورا نہ ہوا تو رومی کہیں گے کہ مسلمان اپنے وعدوں کی پاس داری نہیں کرتے۔ اس کی زد اسلام ہی پر پڑے گی۔”

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ننگی تلوار سے ابھی بھی خون ٹپک رہا تھا۔ ان کے ساتھیوں کا بھی یہی حال تھا۔ ان میں کئیزخمی بھی تھے۔ انھوں نے پورا دن لڑ کر فتح حاصل کی تھی۔ مگر یہ صلح کیوں اور کیسے؟ اس بات کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔

پھر خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ساری سازش سمجھ گئے۔ وہ یہ کہ خالد رضی اللہ عنہ کے حملے کی خبر رومیوں کو بر وقت ہوگئی اور وہ یہ جان گئے کہ ان کی مدہوش اور شراب کے نشے میں دھت فوج مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔

اسی لیے انھوں نے فوراً لشکر کے دوسرے سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ چونکہ خالد رضی اللہ عنہ کے شب خون سے ناواقف تھے اور قلعے کے طویل محاصرے سے پریشان بھی تھے، اس لیے انھوں نے صلح کے معاہدے پر دستخط کر دیے اور رومیوں کو امان دے دی۔

یہ احساس ہوتے ہی چند مجاہد توما اور اس کے ساتھیو ں کو قتل کرنے کے لیے لپکے۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوتے، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ لپک کر ان کے بیچ میں آ گئے اور فرمایا۔

“خبردار! میں ان کی جان بخشی کا عہد کر چکا ہوں۔”

خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے جاں باز ساتھی غصے سے بپھر رہے تھے۔ وہ کسی طور رومیوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے اس قلعے کو نہایت خطرناک مراحل سے گزر کرحاصل کیا تھا۔ اب وہ اپنی کامیابی کو یوں سازش کی نظر ہوتا دیکھ کر صبر نہیں کر پا رہے تھے۔

اب ایک طرف عہد کی پاس داری کا معاملہ تھا اور دوسری طرف مجاہدوں کی قربانیاں! ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اگرچہ لشکر کے سالار اعلی نہیں تھے، ان کے عہد کی پابندی خالد رضی اللہ عنہ کے لیے ضروری نہیں تھی مگر وہ مسلمان توتھے اور وہ بھی نہایت ممتاز۔

آخر جوش ہارگیا، غصے کو ناکامی ہوئی، عہد کی پاس داری ہوئی اور شیطان کو شکست۔۔۔۔

خالد رضی اللہ عنہ نے بطور سالار اعلی تاریخی فیصلہ کیا۔۔۔۔ یہ فیصلہ تھا عہد کی پاس داری کا! وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلامی تاریخ پر عہد شکنی کا داغ لگے۔

پھر جب رومی اپنا مال و دولت، اپنی جانیں، سب کچھ بچا کے لے جا رہے تھے، تو خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی دل پر پتھر رکھ کر انھیں جاتا دیکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہی رومی اسی اسلحے اور اسی مال کے ساتھ کسی دوسری جگہ ان کے ساتھ جنگ لڑیں گے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انھوں نے اسلام کے سچے اور با اصول مجاہدین ہونے کا ان مٹ ثبوت دےدیاہے، عہد کی پاس داری کی اسلامی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اور یہ ان کی نہایت عظیم کامیابی تھی۔۔۔۔ کبھی نہ بھولنے والی کامیابی۔۔۔--

گیٹ آؤٹ طالبان

سترہ سالہ دانیال کے ایک انکار نے اسلام آباد کی اشرافیہ کو حیران نہیں بلکہ پریشان کر دیا۔ انکار کا یہ واقعہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے ڈرامہ ہال میں پیش آیا جہاں وفاقی دارالحکومت کے ایک معروف انگریزی میڈیم اسکول کی تقریب تقسیم انعامات جاری تھی۔ رمضان المبارک کے باعث یہ تقریب صبح دس بجے سے بارہ بجے کے درمیان منعقد کی گئی اور اتوار کا دن ہونے کے باعث ڈرامہ ہال طلبہ و طالبات کے والدین سے بھرا ہوا تھا۔ ان والدین میں شہر کے معروف لوگ شامل تھے۔ اس تقریب پر مغربی ماحول اور مغربی موسیقی غالب تھی جس میں حیرانگی کی کوئی بات نہ تھی۔ تقریب کی تمام کارروائی انگریزی میں ہو رہی تھی اور انگریزی زبان جہاں بھی جاتی ہے اپنی تہذیب کو ساتھ لے کر جاتی ہے۔ اس دوران اسکول کی طالبات نے جنید جمشید کے ایک پرانے گیت پر رقص پیش کیا۔ یہ گیت ایک سانولی سلونی محبوبہ کے بارے میں تھا جو شہر کے لڑکوں کو اپنا دیوانہ بنا لیتی ہے۔ نو عمر طالبات نے اس گیت پر دیوانہ وار رقص کیا۔ حاضرین میں موجود کئی طلبہ نے اپنے والدین کی موجودگی کی پروا نہ کرتے ہوئے محو رقص طالبات کو چیخ چیخ کر داد دی۔

اس رقص کے بعد اسٹیج سے او لیول اور اے لیول کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے نام پکارے جانے لگے۔ گولڈ میڈل حاصل کرنے والی بعض طالبات اسکارف اور برقعے میں ملبوس تھیں۔ ایک طالب علم ایسا بھی تھا جس کے چہرے پر نئی نئی داڑھی آئی تھی اور جب پرنسپل صاحبہ نے اس کے گلے میں گولڈ میڈل ڈال کر اس کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہا تو دبلے پتلے طالب نے نظریں جھکا کر اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ پرنسپل صاحبہ نے پوچھا کہ کیا تم ہاتھ نہیں ملانا چاہتے؟ طالب علم نے نفی میں سر ہلایا اور اسٹیج سے نیچے اتر آیا۔ پھر دانیال کا نام پکارا گیا جو اے لیول مکمل کرنے کے بعد ایک امریکی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اور صرف گولڈ میڈل حاصل کرنے اپنے پرانے اسکول کی تقریب میں بلایا گیا تھا۔ وہ گولڈ میڈل وصول کرنے کیلئے پرنسپل صاحبہ کی طرف نہیں گیا بلکہ ڈائس پر جا کھڑا ہوا اور مائیک تھام کر کہنے لگا کہ وہ اپنے اسکول کی انتظامیہ کا بہت شکر گزار ہے کہ اسے گولڈ میڈل کیلئے نامزد کیا گیا لیکن اسے افسوس ہے کہ مذکورہ تقریب میں اسکول کی طالبات نے رمضان المبارک کے تقدس کا خیال نہیں کیا اور واہیات گیت پر رقص پیش کیا۔ اس نے کہا کہ مسلمانوں کے ملک میں رمضان المبارک کے تقدس کی پامالی کے خلاف بطور احتجاج وہ گولڈ میڈل وصول نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر وہ اسٹیج سے اتر آیا اور ہال میں ہڑبونگ مچ گئی۔ کچھ والدین اور طلبہ تالیاں بجا کر دانیال کی حمایت کر رہے تھے اور کچھ حاضرین غصے میں پاگل ہو کر اس نوجوان کو انگریزی زبان میں برا بھلا کہہ رہے تھے۔ بوائے کٹ بالوں والی ایک خاتون اپنی نشست سے کھڑی ہو کر زور زور سے چیخیں”گیٹ آؤٹ طالبان، گیٹ آؤٹ طالبان “۔

ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دانیال کے مخالفین حاوی ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ شور کر رہے تھے لیکن یہ ہڑبونگ وفاقی دارالحکومت کی اشرافیہ میں ایک واضح تقسیم کا پتہ دے رہی تھی۔ یہ تقسیم لبرل عناصر اور بنیاد پرست اسلام پسندوں کے درمیان تھی۔ پرنسپل صاحبہ نے خود مائیک سنبھال کر صورتحال پر قابو پایا اور تھوڑی دیر کے بعد ہوشیاری سے ایک خاتون دانشور کو اسٹیج پر بلا لیا اور خاتون نے اپنی گرجدار آواز میں دانیال کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ تم نے جو کچھ بھی کیا وہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی تعلیمات کے خلاف تھا کیونکہ بانی پاکستان رواداری کے علمبردار تھے۔ پچھلی نشستوں پر براجمان ایک اسکارف والی طالبہ بولی کہ بانی پاکستان نے یہ کب کہا تھا کہ مسلمان بچیاں رمضان المبارک میں اپنے والدین کے سامنے سانولی سلونی محبوبہ بن کر ڈانس کریں؟ ایک دفعہ پھر ہال میں شور بلند ہوا اور اس مرتبہ بنیاد پرست حاوی تھے لہٰذا پرنسپل صاحبہ نے مائیک سنبھالا اور کہا کہ طالبات کے رقص سے اگر کسی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو وہ معذرت خواہ ہیں۔

اس واقعے نے اسلام آباد میں ایک مغربی سفارت خانے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ سفارت خانے نے فوری طور پر ایک ماہر تعلیم کی خدمات حاصل کیں اور اسے کہا گیا کہ وہ اسلام آباد کے پانچ معروف انگریزی میڈیم اسکولوں میں او لیول اور اے لیول کے ایک سو طلبہ و طالبات سے امریکی پالیسیوں، طالبان اور اسلام کے بارے میں رائے معلوم کریں۔ اس سروے کے حتمی نتائج ابھی مرتب نہیں ہوئے لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ او لیول اور اے لیول کے طلبہ و طالبات کی ایک بڑی اکثریت امریکہ اور طالبان دونوں سے نالاں ہے لیکن امریکہ کو بڑا دہشت گرد سمجھتی ہے۔ سروے کے دوران بعض طلبہ نے ” خطرناک حد تک “ طالبان کی حمائت کی اور کہا کہ طالبان دراصل امریکہ اور پاکستان حکومت کے ظلم اور بمباری کا ردعمل ہیں اور انہیں دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم ایسے طلبہ دس فیصد سے بھی کم تھے۔ اس سروے سے مغرب کو کم از کم یہ پتہ ضرور چل جائے گا کہ اسلام آباد کے انگریزی میڈیم اسکولوں میں طالبان کے دس فیصد حامی موجود ہیں۔ یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ طالبان صرف دینی مدارس میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ وقت اور حالات انگریزی میڈیم طالبان بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
--------------------------------------------------------------

قلم کمان از حامد میر ، بشکریہ روزنامہ جنگ


اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟

 
اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی
آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی

آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئي جدت تو نہيں

اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرينے تيرے
کسے معلوم نہيں بارہ مہينے تيرے

جنوري، فروري اور مارچ ميں پڑے گي سردي
اور اپريل، مئي اور جون ميں ہو گي گرمي

تيرا مَن دہر ميں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی ميعاد بَسر کر کے چلا جائے گا

تو نيا ہے تو دکھا صبح نئي، شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے ديکھے ہيں نئے سال کئی

بے سبب لوگ ديتے ہيں کيوں مبارک باديں
غالبا بھول گئے وقت کی کڑوي ياديں

تيری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فيض نے لکھی ہے يہ نظم نرالے ڈھب کی

(فیض احمد فیض)

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.