اپریل 2012

گلوبلائزیشن کیا ہے؟

گلوبلائزیشن سے مراد مختلف ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کا وہ پھیلاﺅ ہے جس کے نتیجے میں ایک عالمی معیشت تخلیق ہوئی ہے۔ جس نے ہر قومی معیشت کو دیگر معیشتوں کا محتاج بنا دیا ہے۔ کوئی بھی ملک خود کفیل نہیں ہے۔سب کو دوسرے ممالک کے ساتھ پیداواری اشیاءکے تبادلے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک مربوط عالمی معیشت بذات خود کوئی منفی چیز نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر ایک ہم آہنگ عالمی منصوبہ بندی پر مبنی معیشت پروان چڑھ سکتی ہے۔ایک ایسے معاشی نظام کے تحت جس کی بنیاد سماجی انصاف اور ذرائع پیداوار(فیکٹریوں‘ ٹیکنالوجی‘ سرمایہ) کی اجتماعی ملکیت پر ہو۔ یہ عالمی انسانیت کےلئے ایک زبردست پیش رفت کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام ذرائع پیداور کی نجی ملکیت اور ہر انفرادی سرمایہ دار کی زیادہ سے زیادہ منافع کی ہوس کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ چیز ترقی کو ناممکن بنا کر ایک ایسی صورتحال پیدا کر دیتی ہے جس میں مٹھی بھر لوگ بے حد وحساب دولت جمع کر لیتے ہیں جبکہ کرہ ارض پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کا معیار زندگی کم سے کم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔


اس وقت کرہ ارض پر چھ ارب انسان موجودہیں جبکہ دس ارب انسانوں کےلئے خوراک پیدا کی جا سکتی ہے۔تاہم بھوک‘فاقہ کشی اور غربت وافلاس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔80 کروڑ افراد غذائی کمی کا شکار ہیں جبکہ دو ارب چالیس کروڑ افراد اغربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔مائیکرو سافٹ کمپنی کے تین اعلیٰ ترین عہد یداروں کے پاس اس قدردولت موجود ہے جو امریکی حکومت کی طرف سے غربت کے خلاف جاری پروگراموں کےلئے مختص کردہ رقم سے زیادہ ہے۔ مختلف معیشتوں کے درمیان اشیاءکا تبادلہ منصفانہ بنیادوں پر نہیں ہوتا۔ مٹھی بھر ملٹی نیشنل کمپنیاں جوبے پناہ طاقت کی مالک ہیں زیادہ تر دولت پر قابض ہیں(کرہ ارض کی مجموعی داخلی پیداوار کا چالیس فیصد اور تجارت کا ستر فیصد ) اور باقی دنیا پر اپنے مفادات کی تکمیل کےلئے من مانیشرائط مسلط کرتی ہیں۔ عالمی معیشت کی تقسیم سے سبھی ممالک کو برابر کا فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ہوتا یہ ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک کو ترقی یافتہ ممالک اور عالمی اجارہ داریوں کے ہاتھ اپنا خام مال(تیل‘معدنیات‘ زرعی اجناس)اور محنت انتہائی سستے داموں فراہم کرنا پڑتی ہیں۔ اس عمل سے عدم مساوات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی ہے۔ غریب ممالک ایسی پیداوری اشیاءکے تبادلے پر مجبور ہوتے ہیں جن کی تیاری میں زیادہ محنت صرف ہوئی ہوتی ہے(تکنیکی پسماندگی کی وجہ سے) جبکہ ان کے عوض وہ ترقی یافتہ ممالک اور سامراجی اجارہ داریوںسے ایسی اشیاءلیتے ہیں جو مہنگی ہوتی ہیںجبکہ ان کی تیاری بہت آسان ہوتی ہے(ذرائع پیداوار کی معیاری اور مقداری حوالے سے اعلیٰ سطحی کے باعث)۔ اس عمل میں کون کھوتا ہے اور کون پاتا ہے یہ بات بالکل واضح ہے۔علاوہ ازیں عالمی معیشت مغربی طاقتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیرنگیں ہے اور وہ اپنی مرضی کی قیمتیں‘تجارتی قوانین اور معاشی پالیسیاں باقی دنیا پر مسلط کر سکتی ہیں۔ مثال کے طورپر 1960 ءمیں ایک امریکی ٹریکٹر خریدنے کےلئے تنزانیہ کو کافی کے دو سو تھیلے دینا پڑتے تھے۔ تیس سال بعد ایک امریکی ٹریکٹر کی خریداری کےلئے تنزانیہ کو چھ سو سے زائد کافی کے تھیلے دینا پڑتے ہیں۔

دنیا میں مٹھی بھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ سرمایہ داری کے ارتقاءکا فطری نیتجہ ہے جوکہ زیادہ انفرادی منافع کی لالچ کی بنیاد پر قائم ہے۔اسے حاصل کرنے کےلئے سرمایہ دار مجبور ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کریں‘اپنی پیداوار میں اضافہ کریں‘فروخت بڑھائیں‘نئی منڈیاں تلاش کریںاور موجودہ منڈیوں کے استحصال میں اضافہ کریں اور سستی محنت اور سستے خام مال کے حصول کےلئے نئے ممالک میں سرمایہ کاری کریں وغیرہ وغیرہ۔ نتیجے کے طورپر دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو گئی ہے یعنی ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی مٹھی بھر بڑی بڑی کارپوریشنوں کے پاس جنہوں نے دنیا پرغلبہ حاصل کر لیا ہے۔جب ان کےلئے محض معاشی ذرائع سے اپنی شرائط منوانا ممکن نہیں رہتا تو ملٹی نیشنل کمپنیاں سامراجی ممالک کے سیاسی اور فوجی اداروں(امریکہ ‘یورپ اور جاپان جیسی بڑی طاقتوں کی حکومتوں‘پارلیمانی‘قوانین اور افواج ) کو اپنے مقاصد کے حصول کےلئے استعمال کرتی ہیں۔ اکثر اوقات مفادات کو چھپانے کےلئے”انسانیت کے مفادات“کے دفاع کی آڑ میں مداخلت کرتی ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں ہم یوگو سلاویہ‘ افغانستان اور عراق وغیرہ میں اسی قسم کی’انسانی بہبود کےلئے کی جانے والی بمباریوں‘ کے نمونے دیکھ چکے ہیں۔ جنہیں بذات خود بڑی طاقتوں نے تخلیق کیا تھا اور وہی ان پر غالب ہیں۔ (عالمی مالیاتی فنڈ‘عالمی بینک‘ نیٹو‘اقوام متحدہ وغیرہ)گلوبلائزیشن اس نظام کی حقیقی نوعیت کو چھپانے کےلئے نقاب کاکام کرتی ہے۔موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی تعریف کےلئے جس کا خاصہ بین الاقوامی سطح پر محنت کش طبقے اور دنیا بھر کی اقوام کاچند طاقتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں استحصال ہے‘سامراج سے بہتر کوئی اصطلاح نہیں۔

غیر مساویانہ تبادلہ جس نے غریب ممالک کو غربت اور افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا ہے انہیں بڑی طاقتوں یا ان کے تخلیق کردہ مالیاتی اداروں (عالمی مالیاتی فنڈ‘عالمی بینک وغیرہ) سے قرضے لینے پر مجبور بھی کرتا ہے جس سے وہ مکمل طورپر غلام ہو کر رہ جاتے ہیں۔اپنے قرضوں کی وجہ سے وہ قرضے دینے والے اداروں کی جانب سے ان پر مسلط کئے جانے والے معاشی منصوبوں اور بین الاقوامی تعلقات کو قبول کرلینے پر مجبور ہوتے ہیں۔عالمی مالیاتی فنڈ‘ عالمی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے تمام ادارے سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ بڑی طاقتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ان اداروں کو محض اسی وجہ سے رقوم فراہم کرتی ہیں کیونکہ ان اداروں پر انہی کا غلبہ ہے اور وہ ہی ان کی پالیسیوں کا تعین کرتی ہےں۔ان اداروں کی اصلاح کرنا یا ان کو جمہوری بنانا قطعاً ناممکن ہے کیونکہ اگر یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کےلئے سود مند نہ رہے تووہ انہیں رقوم کی فراہمی بند کرکے نئے ادارے تخلیق کر لیں گے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طاقت کی بنیاد ذرائع پیداوار پر ان کا قبضہ اورملکیت ہے یعنی مشینری ‘ فیکٹریوں‘زمینوںاور سرمائے کی ملکیت۔جب تک ان طفیل خوروں کو بے دخل کر کے ان کی دولت کو عوام کے جمہوری کنٹرول میں نہیں دیا جاتا موجودہ صورتحال کی اصلاح کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔

عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کی جانب سے نام نہاد ”امداد“حاصل کرنے والے ممالک پر جو پالیسیاں مسلط کی جاتی ہیںوہ وہی ہیں جو دنیا بھر کے سرمایہ دار اپنے منافعوں میں اضافے کےلئے کرتے ہیں یعنی ریاست کی جانب سے فراہم کی جانے والی تعلیم اور صحت عامہ کی سہولتوں پر حملہ ‘ اجرتوں میں کمی‘ چھانٹیاں ‘پینشنوں اور دیگر مراعات میں کمی‘ لیبر قوانین میں اصلاحات‘پبلک سیکٹر میں چلنے والی کمپنیوں کی نجکاری وغیرہ۔ غریب ترین ممالک میں ان پالیسیوں پر اور بھی زیادہ تیز رفتاری سے عمل درآمد ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں ان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجہ میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہو تی ہے۔ غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں ماحول کی تباہی کا سلسلہ اور آگے بڑھتا ہے۔
روزنامہ چنگاری سے لیا گیا۔

جناح سے قائدِاعظم

قائدِ اعظم محمد علی جناح
محمد علی جناح کی سیاسی شخصیت ایک تاریخی معمہ ہے۔ ایک ایسا شخص جو اپنے طرز زندگی اور انداز فکر میں عام مسلمانوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتا تھا۔ ۔ ۔ جناح سے قائد اعظم کیسے بن گیا؟
 
اس معمے کا حل ڈھونڈنا ہو تو دو حقائق پر نظر رکھنی چاہئے۔محمد علی جناح کا خلوص اور دیانت اور ان کے ہم عصر مسلمان لیڈروں میں عین انہی صفات کا فقدان!۔ ۔ ۔ مسلمان رؤسا اور عمائدین میں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں تھی جنہیں انگریز سرکار کی بارگاہ میں قرب حقیقی حاصل تھا اور جن کی بات کو وائسرائے ہند بھی سن سکتا تھا۔ ایسے لوگ بھی بہت تھے جو اپنی خطیبانہ ولولہ انگیزی سے بڑے بڑے اجتماعات کو مسحور کرسکتے تھے۔ان کے لیے نوجوانوں کو جوش دلا کر حکومت کی مسلح فوجوں کے سامنے سینہ سپر کر دینا بائیں ہاتھ کا کرتب تھا۔
مگر پھر محمد علی جناح ہی کو سالارِ قوم کیوں چنا گیا؟۔ ۔ ۔ دراصل یہ سب لوگ موجود تھے مگر مسلمانوں کو ایک مخلص اور بے غرض رہنما کی تلاش تھی۔ان کی آنکھیں کسی ایسے شخص کو ڈھونڈ رہی تھیں جو ان کے قومی مفاد کواپنے ذاتی مقاصد پر قربان نہ کرے اور جو کسی صورت ، کسی قیمت پر خریدا نہ جاسکے۔ انھوں نے اوروں کو بھی دیکھا اور جناح کو بھی اور پھر انہی کو اپنا رہنما چن لیا۔

٭۔ ۔ ۔ ٭

ہندوستان کے لیڈروں سے بات کرنے اور سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے سر اسٹیفورڈ کرپس ہندوستان آیا۔ الہ آباد میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔کوئی ایک لاکھ افراد کے مجمع میں چوہدری خلیق الزماں قرادداد پیش کرتے ہیں کہ کرپس سے مذاکرات کے لیے صدر مسلم لیگ یعنی قائد اعظم کو پورے اختیارات دیے جائیں۔اتنے میں ایک باریک سی آواز آتی ہے۔
’’یہ نہیں ہوسکتا!‘‘
یہ حسرت موہانی ہیں جو اپنی مہین آواز میں مزید کہتے ہیں۔
’’قائد اعظم بادشاہ نہیں ہیں۔ڈکٹیٹر نہیں ہیں کہ انہیں سارے اختیارات دے دیے جائیں۔ یہ قرارداد پاس نہیں ہوسکتی۔ ۔ ۔ ‘‘
مولانا حسرت کا یہ کہنا تھا کہ مجمع نے ہلڑ مچانا شروع کردیا۔
’’مولانا بیٹھ جاؤ! ہم نہیں سنتے۔قائداعظم کو پورے اختیارات دیے جائیں! قائد اعظم زندہ باد!‘‘
ادھر مولانا حسرت اور ادھر ایک لاکھ کا مجمع۔ ۔ ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ جمے ہوئے ہیں ۔شور ہے کہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
قائد اعظم سلک کی نہایت عمدہ سلی ہوئی شیروانی پہنے، مونیکل گلاس لگائے ،کرسی صدارت میں بیٹھے، کچھ پڑھنے میں مصروف ہیں۔ شور بڑھتا ہے تو وہ گردن کو خفیف سا جھٹکا دیتے ہیں ،مونیکل نیچے آکر لٹک جاتا ہے۔وقار سے چلتے ہوئے وہ مائیک تک آتے ہیں اور کہتے ہیں۔
’’Order! Order!‘‘
بس ۔ ۔ ۔ اتنا سنتے ہی خاموشی چھا جاتی ہے۔مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ اس کے بعد قائد اعظم فرماتے ہیں۔
’’مسلم لیگ ایک جمہوری ادارہ ہے۔آپ کو مولانا کا کہا سننا پڑے گا۔ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔‘‘
لیجئے صاحب ۔ ۔ ۔ تقریر ہوتی ہے۔مولانا اپنی بات کہتے ہیں۔پھر ووٹ لیے جاتے ہیں۔سارے ووٹ قرارداد کے حق میں آتے ہیں۔صرف مولانا کا واحد ووٹ مخالفت میں آتا ہے۔جلسے کے بعد مولانا باہر آتے ہیں۔چند لوگ ان کے پاس کھڑے ہیں،کوئی کہتا ہے۔
’’مولانا ! آپ نے خوامخواہ مخالفت کی۔ کیا فائدہ ہوا؟۔ ۔ ۔ ‘‘
اور لوگ بھی نقطہ چینی کرتے ہیں۔مولانا برہم ہو جاتے ہیں اور غصے میں کہتے ہیں۔
’’آپ بچے ہیں ، آپ سیاست کیا جانیں؟ میں نے آج ثابت کر دیا کہ جناح ڈکٹیٹر نہیں ہے۔ خود اپنی مخالفت میں تقریر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ پوری پبلک اس کے ساتھ ہے۔اب کرپس کو پتا چل جائے گا کہ مسلم لیگ ایک جمہوری ادارہ ہے اور جناح مسلمانوں کا متفقہ ترجمان ہے۔‘‘
کیسے عظیم لوگ تھے ، کیسی دور کی کوڑی لاتے تھے۔ان کی اپنی ذات غیر اہم اور قوم اہم تھی۔یہ تھے تدبّر کے اصول اور جمہوریت کی پاسداری۔ ۔ ۔

٭۔ ۔ ۔ ٭

گاندھی جی سورت (علاقے کا نام ہے)گئے تو ٹرین کے تھرڈ کلاس میں بیٹھے مگر پورا ڈبّہ خالی ہے ، کوئی دوسرا گھس نہیں سکتا ۔گدّے لگا کر اسے فرسٹ کلاس کردیا گیا۔ واہ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

۔ ۔ ۔ اس کے بعد مسٹر جناح سورت گئے۔ایک مسلم لیگی نے چپکے سے ان سے کہا۔’’سر اگر آپ بھی تھرڈ کلاس میں سفر کریں تو بہت Popularہونگے۔گاندھی جی بھی تھرڈ میں گئے ہیں۔‘‘
مسٹر جناح مسکراتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔’’مگر مسٹر گاندھی کے لیے تھرڈ کلاس کے سب مسافروں کے ٹکٹ خریدے جاتے ہیں اور روپیہ کسی اور کی جیب سے آتا ہے۔تھرڈ بھی فرسٹ بن جاتا ہے۔مگر میں اپنا ٹکٹ خود اپنی کمائی سے خریدتا ہوں!‘‘

٭۔ ۔ ۔ ٭

یہ میرٹھ ہے۔قائد اعظم کا جلوس جارہا ہے۔وہ دیکھئے!ایک غریب آدمی تہمد باندھے آگے آکر چلّاتا ہے۔
’’روکو!۔ ۔ ۔ روکو!۔ ۔ ۔ ذرا گاڑی روکو، ڈلیور بھیا !‘‘
گاڑی رکتی ہے تو قائد اعظم سے کہتا ہے۔’ ’ حجور ، میری چھوٹی سی چائے کی دکان ہے۔حجور ایک پیالی چائے پی لیں۔فس کلاس بنائی ہے۔بڑی مہربانی ہوگی!‘‘
قائد اعظم مسکراتے ہیں۔دو گھونٹ چائے پیتے ہیں، تب آگے بڑھتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ تھے عوامی لیڈر۔

٭۔ ۔ ۔ ٭

جن دنوں قائد اعظم وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے، لوگ انھیں دیکھنے اور ان کی چاندی کی طرح کھنکتی ہوئی آواز سننے کی تمنا کرتے تھے۔چونکہ نوجوان اور ہینڈسَم تھے،اسلئے حسین لڑکیاں بھی ان کی ایک جھلک دیکھنے ہائی کورٹ پہنچ جاتی تھیں۔ایک دفعہ لڑکیوں کا ایک گروہ ان کے دلائل سننے اور آواز سے محظوظ ہونے ہائی کورٹ پہنچ گیا۔ ایک لڑکی جو اپنے آپ کو بڑا تیز طرّار سمجھتی تھی۔خوش ہو کر بولی۔
’’آپ واقعی خوب بولتے ہیں مگر آپ کی مونچھیں بڑی نمایاں ہیں۔ انھیں منڈا لیجئے!‘‘
مسٹر جناح نے فوراً جواب دیا۔’’میڈم شکریا! مگر آپ کا ان مونچھوں سے کبھی رابطہ نہیں ہوگا!‘‘
یہ سن کر وہ لڑکی جھینپ کر رہ گئی اور بڑے قہقہے لگے۔

٭۔ ۔ ۔ ٭

’’قائد اعظم ‘‘ہر وقت ہمہ تن مسلمانوں کے سیاسی مسائل کے حل اور قومی مستقبل کی تعمیر میں مصروف رہتے تھے۔ البتہ ’’مسٹر جناح‘‘کی دلچسپیاں اس سے زیادہ وسیع تھیں ۔حتیٰ کہ ان کی طبیعت ظرافت سے بھی خالی نہ تھی۔ ایک دفعہ ممتاز حسن کو ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔
’’ایک دفعہ میں ایک فرانسیسی کسٹم افسر کے سامنے اپنے اسباب کی تفصیل پیش کر رہا تھا۔اس میں کچھ سگریٹوں کے ڈبے تھے۔افسر نے کہا کہ ان سگریٹوں پر آپ کو ٹیکس دینا ہوگا ۔ساتھ ہی اس نے ایک معقول رقم بھی بتا دی، جو سگریٹ کی قیمت سے کچھ کم نہ تھی۔ میں نے بہت کہا کہ یہ سگریٹ خود میرے پینے کے ہیں، مگر وہ نہ مانا۔اس پر میں نے دیکھتے ہی دیکھتے سگریٹ کے ڈبے اس کے ہاتھ سے لے کر جنگلے کے باہر پھینک دیے اور کہا کہ اب میرے پاس نہ تو سگریٹ ہیں اور نہ ہی مجھ سے کوئی ڈیوٹی وصول کی جاسکتی ہے۔اگر آپ کو شوق ہے تو یہ ڈبے خود اُٹھا لائیے اور سگریٹ پی جائیے۔‘‘
ظاہر ہے کسٹم افسر حیران رہ گیا ہوگا۔پھر جتنی بحث اس نے کی ہوگی وہ بھی بے سود نکلی۔خدا جانے اس نے وہ سگریٹ اُٹھائے یا نہیں۔

٭۔ ۔ ۔ ٭

ان کے خلوص اور اُصول پرستی کی مثال مشکل سے ہی ملے گی۔جو دیانت اور روحانی بلندی وہ اپنے ساتھ لائے تھے، وہ صدیوں میں بھی پیدا نہیں ہوتی۔تقسیم سے پہلے جب مختلف فرقوں اور گروہوں کی شر پسند اور فسادانہ سرگرمیوں کی خبریں آنے لگیں، تو کچھ لوگوں نے جاکر قائد اعظم کی خدمت میں عرض کی کہ مسلمانوں کو بھی ان کے مخالفین کی طرح ہتھیاروں اور گولہ بارود سے مسلح رہنا چاہئے۔اس سلسلے میں آپ کچھ اقدام کریں۔
قائد اعظم یہ سن کر بہت برہم ہوئے اور کہنے لگے۔’’کیا تم لوگ مجھے منافق سمجھتے ہو کہ ایک طرف تو صلح کی اپیل پر دستخط کروں اور دوسری طرف تمہارے لیے ہتھیاروں کا بندوبست کروں۔میں ہرگز کسی ایسی تحریک کی حمایت نہیں کر سکتا، خواہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو، خواہ غیر مسلموں کی طرف سے۔‘‘

٭۔ ۔ ۔ ٭

حرفِ آخر
مندرجہ بالا واقعات جو کہ میں نے ’’روزنامہ جنگ‘‘ اور ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ سے منتخب کیے ہیں، قائد اعظم کی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔اُمید ہے آپ بھی ان کے مطالعے سے اتنا ہی متاثر ہونگے جتنا کہ میں ہوا ہوں۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہمارے قائد اعظم لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ایک تھے؟۔ ۔ ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو قائد اعظم جیسا رہنما نصیب نہ ہوتا تو شاید آج ہم پاکستان کی آزاد فضاؤں میں سانس نہ لے رہے ہوتے!

٭۔ ۔ ۔ ٭

کلرڈ

 جب میں پیدا ہوا تو، کالا۔۔۔
جب میں پروان چڑھا تو، کالا۔۔۔
جب سورج میں جھلسا تو، کالا۔۔۔
جب ڈرا سہما تو، کالا۔۔۔
جب بیمار پڑا تو، کالا۔۔۔
اور جب مرا، تب بھی کالا۔۔۔
 اور تم اے سفید فام۔۔۔
جب پیدا ہوئے تو گلابی۔۔۔
پروان چڑھے تو سفید۔۔۔
سورج میں نکلے تو لال۔۔۔
ٹھنڈے پڑے تو نیلے۔۔۔
ڈرے سہمے تو پیلے۔۔۔
بیمار ہوئے تو ہرے۔۔۔
اور مرے تو سرمئی۔۔۔پھر بھی تم مجھے کہتے ہو’’کلرڈ؟‘‘

Colored
 When I born, I Black…
When I grow up, I Black…
When I go in Sun, I Black…
When I scared, I Black..
When I sick, I Black..
And when I die,I still black…
 And you White fellow..
When you born, you pink..
When you grow up, you White…
When you go in Sun, you Red..
When you cold, you blue…
When you scared, you yellow..
When you sick, you Green…
And when you die, you Gray… And you call me colored

 *******************

مطمئن زندگی گزاریے

دنیا کا ہر انسان خوش اور مطمئن زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین نفسیات اپنے اپنے انداز سے تحقیق کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق مطمئن زندگی گزارنے کے لیے آٹھ باتوں پر عمل ضروری ہے۔

١۔ ان نعمتوں کو شمار کیا جائے جو انسان کو انفرادی طور پر حاصل ہیں۔
٢۔ لوگوں پر مہربان رہا جائے۔
٣۔ زندگی سے لطف اُٹھایا جائے۔
٤۔ خیر خواہوں کا شکریہ ادا کیا جائے۔
٥۔ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کیا جائے۔
٦۔ زیادہ سے زیادہ وقت اور وسائل گھر والوں اور احباب پر صرف کیے جائیں۔
٧۔ زندگی کے مسائل اور مشکلات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کی جائے۔
٨۔ درگزر اور مہربانی کا رویہ اپنایا جائے۔
(روحانی ڈائجسٹ، دسمبر ٢٠٠٨)

سنہ ہجری کی ابتدا کیسے ہوئی؟

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ  کے دین کی دعوت عام کرنے پر اللہ تعالیٰ  کے دین کے دشمنوں نے طرح طرح کی تکالیف پہنچائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی راہ میں کانٹے بچھائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر تکلیف و مشقت برداشت کرتے ہوئے دشمنان اسلام کے حق میں ہدایت کی دعا کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ  نے آپ کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ دین کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے وطن کا سفر کرنے کو اسلام کی اصطلاح میں ہجرت  کہتے ہیں۔ اسلامی سال کو ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا سال کہا جاتا ہے اور یہ سال ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ کرتا ہے۔

تقویم سنہ ہجری کی ابتدا خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے نہ سنہ تھا نہ سال۔ مسلمان کسی نہ کسی خاص واقعہ سے سال کا حساب لگایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ہاتھیوں کے حملے کے حوالے سے عام الفیل وغیرہ۔۔۔غرض مہینے مقرر تھے مگر سنہ نہ تھا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو سنہ ١٦ میں ایک دستاویز دستخط کے لئے آپ کے سامنے پیش کی گئی۔ اس پر تاریخ کی جگہ صرف شعبان کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کھٹکی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ کیوں کر معلوم ہو کہ اس سے گزرا ہوا شعبان سمجھا جائے یا موجودہ شعبان؟  آپ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت مجلس شوریٰ  بلائی اور اس کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا۔ سب نے طے کیا کہ تاریخ، مہینہ اور سال سب ہونا چاہیئے۔ لیکن ایک بات پھر رہ گئی کہ سنہ کی ابتدا کب سے کی جائے؟ سب نے اپنی اپنی رائے دی لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے کو سب نے قبول کر لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ اسے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے شروع کیا جائے۔ اس طرح سنہ ہجری کی ابتدا ہوئی۔

اس طرح ہر نیا اسلامی سال ہمیں  ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی یاد دلاتا ہے۔ ہمیں اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیئے کہ سنہ عیسوی (انگریزی) کے ساتھ ساتھ اسلامی مہینوں کے نام بھی یاد رکھیں اور اپنی خط و کتابت میں سنہ ہجری لکھنا بھی یاد رکھیں!

وحی

عجیب موسم تھا وہ بھی ، جب کہ
عبادتیں کور چشم تھیں
اور عقیدتیں اپنی ساری بینائی کھو چکی تھیں
خود اپنے ہاتھوں سے ترشے پتھر کو دیوتا کہہ کے
خیروبرکت کی نعمتیں لوگ مانگتے تھے!
مگر وہ اِک شخص
جو ابھی اپنے آپ پر بھی نہ منکشف تھا
عجیب اُلجھن میں مبتلا تھا
یہ وہ نہیں ہیں، وہ کون ہوگا کا کرب ِ بے نام چکھ رہا تھا!
سو اپنےان نارسا دُکھوں کی صلیب اُٹھائے
غموں کی نایافت شہریت کو تلاش کرتے
وہ شہرِ آزر سے دُور
اپنے تمام لمحے
حرا کے غاروں کے خواب آسا سکوت کو سونپنے لگا تھا
یہ سوچ کا اعتکاف بھی تھا
اور ایک اَن دیکھی رُوح ِ کُل کے وجود کا اعتراف بھی تھا
وہ رات بھی ارتکاز کی ایک رات تھی
جبکہ لمحہ بھر کو
فضا پہ سناٹا چھا گیا
اور ہواؤں کی سانس رُک گئی تھی
ستارہ شب کے دل کی دھڑکن ٹھہر گئی تھی
گریز پا ساعتیں تحیر زدہ تھیں
جیسے وجود کی نبض تھم گئی ہو!
یکایک اِک روشنی جمال و جلال کے سارے رنگ لے کر
فضا میں گونجی
“پڑھو!“
“میں پڑھ نہیں سکوں گا!“
“پڑھو!“
“میں پڑھ نہیں سکوں گا!“
“پڑھو!“
“(مگر) میں کیا پڑھوں؟“
پڑھو۔۔۔۔تم اپنے (عظیم) پروردگار کا نام لے کے
جو سب کو خلق کرتا ہے
جس نے انسان کو بنایا ہے منجمد خون سے
پڑھو (کہ) تمھارا پروردگار بے حد کریم ہے
(اور) جس نے تم کو قلم سے تعلیم دی
اُسی نے بتائیں انسان کو وہ باتیں
کہ جن کو وہ جانتا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔“
فضائے بے نطق جیسے اقراء کا ورد کرنے لگی تھی
وہ سارے لفظ ، جو
تیرگی کے سیلاب میں کہیں بہہ چکے تھے
پھر روشنی کی لہروں میں
واپسی کے سفر کا آغاز کر رہے تھے
دریچہ بے خیال میں
آگہی کے سُورج اُتر رہے تھے
اس ایک پل میں
وہ میرا اُمی
مدینہ العلم بن چکا تھا!
*******

ہم جا رہے ہیں بھائی!

باندھی ہوئی ہے کس کے ٹانگے سے چارپائی
ہے ساتھ ساتھ اپنے
اجداد کی نشانی، اِک مضمحل رضائی
اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی

 
پہنے ہوئے ہیں تن پر پیراہنِ ہوائی
کالر نہیں ہے پھر بھی
گردن میں اِک پرانی، لہرا رہی ہے ٹائی
اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی
مکتب میں مدتوں سے موقوف ہے پڑھائی
کیا گل کھلا رہی ہے
واعظ کی خوش بیانی، مسجد میں ہے لڑائی
اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی
رختِ سفر ہے اپنا، اپنی برہنہ پائی
آنکھوں میں صرف سپنے
ہاتھوں میں ناتوانی اور کاسئہ گدائی
اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی
(انور مسعود)



پتھر کا سبق

راجستھان کا ایک طالب علم ہائی اسکول میں فیل ہو گیا۔ دوسرے سال اس نے پھر امتحان دیا، مگر وہ دوبارہ فیل ہو گیا۔ اس کے بعد جب اس کا تیسرے سال کا نتیجہ آیا اور اس نے دیکھا کہ وہ اب بھی فیل ہے تو اس کو سخت دھجکا لگا۔ وہ اتنا بیزار ہوا کہ گھر سے بھاگ نکلا۔
چلتے چلتے وہ ایک گاؤں کے کنارے پہنچا۔ اس کو پیاس لگ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ایک کنواں ہے، جس پر کچھ عورتیں اور بچے پانی بھر رہے ہیں۔ وہ کنویں کے پاس پہنچا، تاکہ اپنی پیاس بجھا سکے۔ مگر وہاں اس نے ایک منظر دیکھا۔ منظر بظاہر چھوٹا سا تھا، مگر وہ اس سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنی پیاس بھول گیا۔ اس کو اچانک محسوس ہوا کہ اس نے پانی سے زیادہ بڑی ایک چیز حاصل کر لی ہے۔
اس نے دیکھا کہ  گاؤں کے لوگ جو پانی بھرنے کے لیے کنویں پر آتے ہیں۔ عام طور پر ان کے ساتھ دو عدد مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں۔ ایک گھڑے کو وہ کنویں کے قریب ایک پتھر پر رکھ دیتے ہیں اور دوسرے گھڑے کو کنویں میں ڈال کر پانی نکالتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ جس پتھر پر گھڑا رکھا جاتا ہے، وہ گھڑا رکھتے رکھتے گھس گیا ہے۔


“گھڑا مٹی کی چیز ہے۔“  اس نے سوچا؛ “ مگر جب وہ بار بار بہت دنوں تک ایک جگہ رکھا گیا تو اس کی رگڑ سے پتھر گھس گیا۔ استقلال کے ذریعے مٹی نے پتھر کے اوپر فتح حاصل کر لی۔ مسلسل عمل نے کم زور کو طاقت ور کے اوپر غالب کر دیا۔ پھر اگر میں برابر محنت کروں تو کیا میں امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتا؟ کیا کوشش کے اضافے سے میں اپنی کمی پر قابو نہیں پا سکتا؟“
یہ سوچ کر بھاگے ہوئے طالب علم کے قدم رک گئے۔ وہ لوٹ کر اپنے گھر واپس آ گیا اور دوبارہ  تعلیم میں اپنی محنت شروع کر دی۔ اگلے سال وہ چوتھی بار ہائی اسکول کے امتحان میں بیٹھا۔ اس بار نتیجہ حیرت انگیز طور پر مختلف تھا۔ اس کے پرچے اتنے اچھے ہوئے کہ وہ اول درجے میں پاس ہو گیا۔ تین بار ناکام ہونے والے نے چوتھی کوشش میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ پتھر کا یہ سبق نوجوان  کی زندگی کے لئے اتنا اہم ثابت ہوا کہ اس کی زندگی کا رخ بدل گیا۔ جو طالب علم ہائی اسکول میں مسلسل ناکام ہوکر بھاگا تھا، وہ اس کے بعد مسلسل فرسٹ آنے لگا۔ یہاں تک کہ ایم۔اے میں اس نے ٹاپ کیا۔ اس کے بعد وہ ایک اسکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک گیا اور وہاں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں کہ جو صرف ایک گاؤں میں پیش آیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر جگہ ایسے “پتھر“ موجود ہیں، جو آدمی کو زندگی کا سبق دے رہے ہیں۔ جو ناکامیوں میں سے کامیاب بن کر نکلنے کا اشارہ دیتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر نصیحت قبول کرنے کا مزاج ہوتو وہ اپنے قریب ہی ایسا ایک “پتھر“ پا لے گا جو خاموش زبان میں اس کو وہی پیغام دے رہا ہو،  جو مذکورہ نوجوان کو ایک پتھر سے ملا تھا۔
(مولانا وحید الدین خان)

اپنی لگائی آگ میں جل مرا

ایک مرتبہ کسی جنگل کے قریب کوئی انگریز افسر خیمہ زن تھا۔ اس نے دیکھا کہ بہت سے سپیرے جنگل کی طرف چلے جا رہے ہیں۔ معلوم کروایا تو پتہ چلا کہ جنگل میں کلی ناس نامی سانپ رہتا ہے، جو نہایت خطرناک سانپ ہے۔اس کی پھنکار سے درخت جل کر کوئلہ ہو جاتے ہیں۔ بڑے بڑے سپیرے بلائے گئے ہیں لیکن یہ سانپ کے بل کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر پارہے ہیں۔
اس انگریز آفیسر نے کہا۔۔۔۔یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔تم لوگ ایسا کرو کہ اس کے بل کے ارد گرد لکڑیوں کا ایک ڈھیر جمع کر دو۔۔۔۔۔اس کےبعد بین بجاؤ تاکہ وہ بل سے باہر نکلے۔۔۔۔
سپیروں نے انگریز آفیسر کی ہدایت پر عمل کیا۔ سانپ باہر نکلا اور پھنکار ماری تو اس کے گرد رکھی لکڑیوں کے ڈھیر میں آگ لگ گئی، سانپ کے باہر نکلنے کا راستہ بند تھا چنانچہ وہ گھبرا کر اِدھر اُدھر پھنکار مارنے لگا۔۔۔۔۔اس حرکت سے اس کے گرد تمام لکڑیوں میں آگ لگ گئی اور وہ اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل مرا۔۔۔۔
انسان کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، وہ اپنے اردگرد مال و دولت کے ڈھیر لگا کر اور اس پر حرص و طمع و ہوس کی آگ پھونکتا رہتا ہے، پھر ایک دن اپنی ہی لگائی آگ میں جل کر فنا ہو جاتا ہے۔۔۔۔!
تذکرہ غوثیہ سے اقتباس

پہلے روز

تھمائے بابو کو جب ہم نے دام ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے روز

ہمارا ہو گیا فی الفور، کام ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے روز

کیا نہ کوئی بھی سروس میں کام ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے روز

نیاز! کھایا ہے ہم نے حرام ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے روز

تمام عمر رہا وہ غلام ، بیگم کا

بنا سکا نہ جو اس کو غلام ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے روز

وہ کاما ڈال رہی ہے کہیں، نہ فُل اسٹاپ

نہیں جو کرتی تھی مجھ سے کلام ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے روز

بنا ہوا ہے مرا باس اس لیے دشمن

نہ کر سکا تھا میں اس کو سلام ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے روز

مجھے وہ چھوڑ کے جاتی نہ اپنے میکے کو

اگر سناتا نہ اس کو کلام ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے روز

ہمیشہ اس کا میاں ، بے لگام رہتا ہے

نہیں جو ڈالتی اس کو لگام ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے روز

یہ ساس ، خون کے آنسو تجھے رُلائے گی

جو کر رہی ہے ترا احترام ۔۔۔۔۔۔۔ پہلے روز

(نیاز سواتی)

کمزوروں کا تحفظ

نبی کریم ﷺ کی دو احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
    ایک سیاہ فام غریب شخص مسجد میں جھاڑو لگایا کرتا تھا۔ اس کا انتقال ہو گیا تو صحابہ نے اس کی تدفین کر دی۔

    ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اسے موجود نہ پایا تو اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ لوگوں نے کہا کہ وہ تو فوت ہو گیا۔
    آپ ﷺ نے فریایا؛
    مجھے اطلاع کیوں نہیں دی؟
    راوی کا بیان ہے کہ لوگوں نے اس کے انتقال کو ایک معمولی واقعہ سمجھتے ہوئےآپ ﷺ کو اطلاع نہ دی تھی۔
    آپ ﷺ نے فرمایا؛
    مجھے اس کی قبر بتلاؤ، لوگوں نے قبر بتلائی۔ آپ نے قبر پر پہنچ کر اس کی نماز جنازہ ادا کی۔
    (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ۔۔۔۔۔۔۔۔مسلم۔ کتاب الجنائر۔ح۔2215 )

مزید فرمایا:
    حضرت مصعب بن سعد رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛

    تمہیں ضعیفوں اور کمزوروں کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور روزی ملتی ہے۔
  (بخاری۔ح۔2896 )

اندازے

فلم شیریں اور فرہاد کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ سین کچھ یوں تھا کہ ہیرو نے خطرناک پہاڑ پر چڑھنا تھا۔ بہت سے لوگ کھڑے یہ خطرناک سین دیکھ رہے تھے۔ ان میں ایک اَن پڑھ جاہل بوڑھا بھی تھا ، جب ہیرو پہاڑ پر چڑھنے لگا تو بوڑھا آدمی بولا:
“او بچے! کیوں اپنی جان کا دشمن بن گیا ہے؟ ۔۔۔۔۔نیچے آجا!۔۔۔۔۔دیکھ پہاڑ بہت خطرناک ہے۔۔۔۔ میں کہتا ہوں واپس آجا!”

تھوڑی دیر بعد ہیرو پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا اور زور زور سے کہنے لگا۔ “شیریں شیریں۔۔۔۔۔”
بوڑھا آدمی بولا:
“میں آ کھیا سی ناں۔۔۔۔۔۔نا چڑھ اپر ہونڈ منگدا رؤ سیڑھی”!

**********

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.