جناح سے قائدِاعظم
قائدِ اعظم محمد علی جناح |
محمد علی جناح کی سیاسی شخصیت ایک تاریخی معمہ ہے۔ ایک ایسا شخص جو اپنے طرز زندگی اور انداز فکر میں عام مسلمانوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتا تھا۔ ۔ ۔ جناح سے قائد اعظم کیسے بن گیا؟
اس معمے کا حل ڈھونڈنا ہو تو دو حقائق پر نظر رکھنی چاہئے۔محمد علی جناح کا خلوص اور دیانت اور ان کے ہم عصر مسلمان لیڈروں میں عین انہی صفات کا فقدان!۔ ۔ ۔ مسلمان رؤسا اور عمائدین میں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں تھی جنہیں انگریز سرکار کی بارگاہ میں قرب حقیقی حاصل تھا اور جن کی بات کو وائسرائے ہند بھی سن سکتا تھا۔ ایسے لوگ بھی بہت تھے جو اپنی خطیبانہ ولولہ انگیزی سے بڑے بڑے اجتماعات کو مسحور کرسکتے تھے۔ان کے لیے نوجوانوں کو جوش دلا کر حکومت کی مسلح فوجوں کے سامنے سینہ سپر کر دینا بائیں ہاتھ کا کرتب تھا۔
مگر پھر محمد علی جناح ہی کو سالارِ قوم کیوں چنا گیا؟۔ ۔ ۔ دراصل یہ سب لوگ موجود تھے مگر مسلمانوں کو ایک مخلص اور بے غرض رہنما کی تلاش تھی۔ان کی آنکھیں کسی ایسے شخص کو ڈھونڈ رہی تھیں جو ان کے قومی مفاد کواپنے ذاتی مقاصد پر قربان نہ کرے اور جو کسی صورت ، کسی قیمت پر خریدا نہ جاسکے۔ انھوں نے اوروں کو بھی دیکھا اور جناح کو بھی اور پھر انہی کو اپنا رہنما چن لیا۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
ہندوستان کے لیڈروں سے بات کرنے اور سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے سر اسٹیفورڈ کرپس ہندوستان آیا۔ الہ آباد میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔کوئی ایک لاکھ افراد کے مجمع میں چوہدری خلیق الزماں قرادداد پیش کرتے ہیں کہ کرپس سے مذاکرات کے لیے صدر مسلم لیگ یعنی قائد اعظم کو پورے اختیارات دیے جائیں۔اتنے میں ایک باریک سی آواز آتی ہے۔
’’یہ نہیں ہوسکتا!‘‘
یہ حسرت موہانی ہیں جو اپنی مہین آواز میں مزید کہتے ہیں۔
’’قائد اعظم بادشاہ نہیں ہیں۔ڈکٹیٹر نہیں ہیں کہ انہیں سارے اختیارات دے دیے جائیں۔ یہ قرارداد پاس نہیں ہوسکتی۔ ۔ ۔ ‘‘
مولانا حسرت کا یہ کہنا تھا کہ مجمع نے ہلڑ مچانا شروع کردیا۔
’’مولانا بیٹھ جاؤ! ہم نہیں سنتے۔قائداعظم کو پورے اختیارات دیے جائیں! قائد اعظم زندہ باد!‘‘
ادھر مولانا حسرت اور ادھر ایک لاکھ کا مجمع۔ ۔ ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ جمے ہوئے ہیں ۔شور ہے کہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
قائد اعظم سلک کی نہایت عمدہ سلی ہوئی شیروانی پہنے، مونیکل گلاس لگائے ،کرسی صدارت میں بیٹھے، کچھ پڑھنے میں مصروف ہیں۔ شور بڑھتا ہے تو وہ گردن کو خفیف سا جھٹکا دیتے ہیں ،مونیکل نیچے آکر لٹک جاتا ہے۔وقار سے چلتے ہوئے وہ مائیک تک آتے ہیں اور کہتے ہیں۔
’’Order! Order!‘‘
بس ۔ ۔ ۔ اتنا سنتے ہی خاموشی چھا جاتی ہے۔مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ اس کے بعد قائد اعظم فرماتے ہیں۔
’’مسلم لیگ ایک جمہوری ادارہ ہے۔آپ کو مولانا کا کہا سننا پڑے گا۔ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔‘‘
لیجئے صاحب ۔ ۔ ۔ تقریر ہوتی ہے۔مولانا اپنی بات کہتے ہیں۔پھر ووٹ لیے جاتے ہیں۔سارے ووٹ قرارداد کے حق میں آتے ہیں۔صرف مولانا کا واحد ووٹ مخالفت میں آتا ہے۔جلسے کے بعد مولانا باہر آتے ہیں۔چند لوگ ان کے پاس کھڑے ہیں،کوئی کہتا ہے۔
’’مولانا ! آپ نے خوامخواہ مخالفت کی۔ کیا فائدہ ہوا؟۔ ۔ ۔ ‘‘
اور لوگ بھی نقطہ چینی کرتے ہیں۔مولانا برہم ہو جاتے ہیں اور غصے میں کہتے ہیں۔
’’آپ بچے ہیں ، آپ سیاست کیا جانیں؟ میں نے آج ثابت کر دیا کہ جناح ڈکٹیٹر نہیں ہے۔ خود اپنی مخالفت میں تقریر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ پوری پبلک اس کے ساتھ ہے۔اب کرپس کو پتا چل جائے گا کہ مسلم لیگ ایک جمہوری ادارہ ہے اور جناح مسلمانوں کا متفقہ ترجمان ہے۔‘‘
کیسے عظیم لوگ تھے ، کیسی دور کی کوڑی لاتے تھے۔ان کی اپنی ذات غیر اہم اور قوم اہم تھی۔یہ تھے تدبّر کے اصول اور جمہوریت کی پاسداری۔ ۔ ۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
گاندھی جی سورت (علاقے کا نام ہے)گئے تو ٹرین کے تھرڈ کلاس میں بیٹھے مگر پورا ڈبّہ خالی ہے ، کوئی دوسرا گھس نہیں سکتا ۔گدّے لگا کر اسے فرسٹ کلاس کردیا گیا۔ واہ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
۔ ۔ ۔ اس کے بعد مسٹر جناح سورت گئے۔ایک مسلم لیگی نے چپکے سے ان سے کہا۔’’سر اگر آپ بھی تھرڈ کلاس میں سفر کریں تو بہت Popularہونگے۔گاندھی جی بھی تھرڈ میں گئے ہیں۔‘‘
مسٹر جناح مسکراتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔’’مگر مسٹر گاندھی کے لیے تھرڈ کلاس کے سب مسافروں کے ٹکٹ خریدے جاتے ہیں اور روپیہ کسی اور کی جیب سے آتا ہے۔تھرڈ بھی فرسٹ بن جاتا ہے۔مگر میں اپنا ٹکٹ خود اپنی کمائی سے خریدتا ہوں!‘‘
٭۔ ۔ ۔ ٭
یہ میرٹھ ہے۔قائد اعظم کا جلوس جارہا ہے۔وہ دیکھئے!ایک غریب آدمی تہمد باندھے آگے آکر چلّاتا ہے۔
’’روکو!۔ ۔ ۔ روکو!۔ ۔ ۔ ذرا گاڑی روکو، ڈلیور بھیا !‘‘
گاڑی رکتی ہے تو قائد اعظم سے کہتا ہے۔’ ’ حجور ، میری چھوٹی سی چائے کی دکان ہے۔حجور ایک پیالی چائے پی لیں۔فس کلاس بنائی ہے۔بڑی مہربانی ہوگی!‘‘
قائد اعظم مسکراتے ہیں۔دو گھونٹ چائے پیتے ہیں، تب آگے بڑھتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ تھے عوامی لیڈر۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
جن دنوں قائد اعظم وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے، لوگ انھیں دیکھنے اور ان کی چاندی کی طرح کھنکتی ہوئی آواز سننے کی تمنا کرتے تھے۔چونکہ نوجوان اور ہینڈسَم تھے،اسلئے حسین لڑکیاں بھی ان کی ایک جھلک دیکھنے ہائی کورٹ پہنچ جاتی تھیں۔ایک دفعہ لڑکیوں کا ایک گروہ ان کے دلائل سننے اور آواز سے محظوظ ہونے ہائی کورٹ پہنچ گیا۔ ایک لڑکی جو اپنے آپ کو بڑا تیز طرّار سمجھتی تھی۔خوش ہو کر بولی۔
’’آپ واقعی خوب بولتے ہیں مگر آپ کی مونچھیں بڑی نمایاں ہیں۔ انھیں منڈا لیجئے!‘‘
مسٹر جناح نے فوراً جواب دیا۔’’میڈم شکریا! مگر آپ کا ان مونچھوں سے کبھی رابطہ نہیں ہوگا!‘‘
یہ سن کر وہ لڑکی جھینپ کر رہ گئی اور بڑے قہقہے لگے۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
’’قائد اعظم ‘‘ہر وقت ہمہ تن مسلمانوں کے سیاسی مسائل کے حل اور قومی مستقبل کی تعمیر میں مصروف رہتے تھے۔ البتہ ’’مسٹر جناح‘‘کی دلچسپیاں اس سے زیادہ وسیع تھیں ۔حتیٰ کہ ان کی طبیعت ظرافت سے بھی خالی نہ تھی۔ ایک دفعہ ممتاز حسن کو ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔
’’ایک دفعہ میں ایک فرانسیسی کسٹم افسر کے سامنے اپنے اسباب کی تفصیل پیش کر رہا تھا۔اس میں کچھ سگریٹوں کے ڈبے تھے۔افسر نے کہا کہ ان سگریٹوں پر آپ کو ٹیکس دینا ہوگا ۔ساتھ ہی اس نے ایک معقول رقم بھی بتا دی، جو سگریٹ کی قیمت سے کچھ کم نہ تھی۔ میں نے بہت کہا کہ یہ سگریٹ خود میرے پینے کے ہیں، مگر وہ نہ مانا۔اس پر میں نے دیکھتے ہی دیکھتے سگریٹ کے ڈبے اس کے ہاتھ سے لے کر جنگلے کے باہر پھینک دیے اور کہا کہ اب میرے پاس نہ تو سگریٹ ہیں اور نہ ہی مجھ سے کوئی ڈیوٹی وصول کی جاسکتی ہے۔اگر آپ کو شوق ہے تو یہ ڈبے خود اُٹھا لائیے اور سگریٹ پی جائیے۔‘‘
ظاہر ہے کسٹم افسر حیران رہ گیا ہوگا۔پھر جتنی بحث اس نے کی ہوگی وہ بھی بے سود نکلی۔خدا جانے اس نے وہ سگریٹ اُٹھائے یا نہیں۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
ان کے خلوص اور اُصول پرستی کی مثال مشکل سے ہی ملے گی۔جو دیانت اور روحانی بلندی وہ اپنے ساتھ لائے تھے، وہ صدیوں میں بھی پیدا نہیں ہوتی۔تقسیم سے پہلے جب مختلف فرقوں اور گروہوں کی شر پسند اور فسادانہ سرگرمیوں کی خبریں آنے لگیں، تو کچھ لوگوں نے جاکر قائد اعظم کی خدمت میں عرض کی کہ مسلمانوں کو بھی ان کے مخالفین کی طرح ہتھیاروں اور گولہ بارود سے مسلح رہنا چاہئے۔اس سلسلے میں آپ کچھ اقدام کریں۔
قائد اعظم یہ سن کر بہت برہم ہوئے اور کہنے لگے۔’’کیا تم لوگ مجھے منافق سمجھتے ہو کہ ایک طرف تو صلح کی اپیل پر دستخط کروں اور دوسری طرف تمہارے لیے ہتھیاروں کا بندوبست کروں۔میں ہرگز کسی ایسی تحریک کی حمایت نہیں کر سکتا، خواہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو، خواہ غیر مسلموں کی طرف سے۔‘‘
٭۔ ۔ ۔ ٭
حرفِ آخر
مندرجہ بالا واقعات جو کہ میں نے ’’روزنامہ جنگ‘‘ اور ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ سے منتخب کیے ہیں، قائد اعظم کی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔اُمید ہے آپ بھی ان کے مطالعے سے اتنا ہی متاثر ہونگے جتنا کہ میں ہوا ہوں۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہمارے قائد اعظم لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ایک تھے؟۔ ۔ ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو قائد اعظم جیسا رہنما نصیب نہ ہوتا تو شاید آج ہم پاکستان کی آزاد فضاؤں میں سانس نہ لے رہے ہوتے!
٭۔ ۔ ۔ ٭
مگر پھر محمد علی جناح ہی کو سالارِ قوم کیوں چنا گیا؟۔ ۔ ۔ دراصل یہ سب لوگ موجود تھے مگر مسلمانوں کو ایک مخلص اور بے غرض رہنما کی تلاش تھی۔ان کی آنکھیں کسی ایسے شخص کو ڈھونڈ رہی تھیں جو ان کے قومی مفاد کواپنے ذاتی مقاصد پر قربان نہ کرے اور جو کسی صورت ، کسی قیمت پر خریدا نہ جاسکے۔ انھوں نے اوروں کو بھی دیکھا اور جناح کو بھی اور پھر انہی کو اپنا رہنما چن لیا۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
ہندوستان کے لیڈروں سے بات کرنے اور سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے سر اسٹیفورڈ کرپس ہندوستان آیا۔ الہ آباد میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا۔کوئی ایک لاکھ افراد کے مجمع میں چوہدری خلیق الزماں قرادداد پیش کرتے ہیں کہ کرپس سے مذاکرات کے لیے صدر مسلم لیگ یعنی قائد اعظم کو پورے اختیارات دیے جائیں۔اتنے میں ایک باریک سی آواز آتی ہے۔
’’یہ نہیں ہوسکتا!‘‘
یہ حسرت موہانی ہیں جو اپنی مہین آواز میں مزید کہتے ہیں۔
’’قائد اعظم بادشاہ نہیں ہیں۔ڈکٹیٹر نہیں ہیں کہ انہیں سارے اختیارات دے دیے جائیں۔ یہ قرارداد پاس نہیں ہوسکتی۔ ۔ ۔ ‘‘
مولانا حسرت کا یہ کہنا تھا کہ مجمع نے ہلڑ مچانا شروع کردیا۔
’’مولانا بیٹھ جاؤ! ہم نہیں سنتے۔قائداعظم کو پورے اختیارات دیے جائیں! قائد اعظم زندہ باد!‘‘
ادھر مولانا حسرت اور ادھر ایک لاکھ کا مجمع۔ ۔ ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ جمے ہوئے ہیں ۔شور ہے کہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
قائد اعظم سلک کی نہایت عمدہ سلی ہوئی شیروانی پہنے، مونیکل گلاس لگائے ،کرسی صدارت میں بیٹھے، کچھ پڑھنے میں مصروف ہیں۔ شور بڑھتا ہے تو وہ گردن کو خفیف سا جھٹکا دیتے ہیں ،مونیکل نیچے آکر لٹک جاتا ہے۔وقار سے چلتے ہوئے وہ مائیک تک آتے ہیں اور کہتے ہیں۔
’’Order! Order!‘‘
بس ۔ ۔ ۔ اتنا سنتے ہی خاموشی چھا جاتی ہے۔مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ اس کے بعد قائد اعظم فرماتے ہیں۔
’’مسلم لیگ ایک جمہوری ادارہ ہے۔آپ کو مولانا کا کہا سننا پڑے گا۔ہر شخص کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے۔‘‘
لیجئے صاحب ۔ ۔ ۔ تقریر ہوتی ہے۔مولانا اپنی بات کہتے ہیں۔پھر ووٹ لیے جاتے ہیں۔سارے ووٹ قرارداد کے حق میں آتے ہیں۔صرف مولانا کا واحد ووٹ مخالفت میں آتا ہے۔جلسے کے بعد مولانا باہر آتے ہیں۔چند لوگ ان کے پاس کھڑے ہیں،کوئی کہتا ہے۔
’’مولانا ! آپ نے خوامخواہ مخالفت کی۔ کیا فائدہ ہوا؟۔ ۔ ۔ ‘‘
اور لوگ بھی نقطہ چینی کرتے ہیں۔مولانا برہم ہو جاتے ہیں اور غصے میں کہتے ہیں۔
’’آپ بچے ہیں ، آپ سیاست کیا جانیں؟ میں نے آج ثابت کر دیا کہ جناح ڈکٹیٹر نہیں ہے۔ خود اپنی مخالفت میں تقریر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ پوری پبلک اس کے ساتھ ہے۔اب کرپس کو پتا چل جائے گا کہ مسلم لیگ ایک جمہوری ادارہ ہے اور جناح مسلمانوں کا متفقہ ترجمان ہے۔‘‘
کیسے عظیم لوگ تھے ، کیسی دور کی کوڑی لاتے تھے۔ان کی اپنی ذات غیر اہم اور قوم اہم تھی۔یہ تھے تدبّر کے اصول اور جمہوریت کی پاسداری۔ ۔ ۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
گاندھی جی سورت (علاقے کا نام ہے)گئے تو ٹرین کے تھرڈ کلاس میں بیٹھے مگر پورا ڈبّہ خالی ہے ، کوئی دوسرا گھس نہیں سکتا ۔گدّے لگا کر اسے فرسٹ کلاس کردیا گیا۔ واہ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
۔ ۔ ۔ اس کے بعد مسٹر جناح سورت گئے۔ایک مسلم لیگی نے چپکے سے ان سے کہا۔’’سر اگر آپ بھی تھرڈ کلاس میں سفر کریں تو بہت Popularہونگے۔گاندھی جی بھی تھرڈ میں گئے ہیں۔‘‘
مسٹر جناح مسکراتے ہوئے جواب دیتے ہیں۔’’مگر مسٹر گاندھی کے لیے تھرڈ کلاس کے سب مسافروں کے ٹکٹ خریدے جاتے ہیں اور روپیہ کسی اور کی جیب سے آتا ہے۔تھرڈ بھی فرسٹ بن جاتا ہے۔مگر میں اپنا ٹکٹ خود اپنی کمائی سے خریدتا ہوں!‘‘
٭۔ ۔ ۔ ٭
یہ میرٹھ ہے۔قائد اعظم کا جلوس جارہا ہے۔وہ دیکھئے!ایک غریب آدمی تہمد باندھے آگے آکر چلّاتا ہے۔
’’روکو!۔ ۔ ۔ روکو!۔ ۔ ۔ ذرا گاڑی روکو، ڈلیور بھیا !‘‘
گاڑی رکتی ہے تو قائد اعظم سے کہتا ہے۔’ ’ حجور ، میری چھوٹی سی چائے کی دکان ہے۔حجور ایک پیالی چائے پی لیں۔فس کلاس بنائی ہے۔بڑی مہربانی ہوگی!‘‘
قائد اعظم مسکراتے ہیں۔دو گھونٹ چائے پیتے ہیں، تب آگے بڑھتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ تھے عوامی لیڈر۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
جن دنوں قائد اعظم وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے، لوگ انھیں دیکھنے اور ان کی چاندی کی طرح کھنکتی ہوئی آواز سننے کی تمنا کرتے تھے۔چونکہ نوجوان اور ہینڈسَم تھے،اسلئے حسین لڑکیاں بھی ان کی ایک جھلک دیکھنے ہائی کورٹ پہنچ جاتی تھیں۔ایک دفعہ لڑکیوں کا ایک گروہ ان کے دلائل سننے اور آواز سے محظوظ ہونے ہائی کورٹ پہنچ گیا۔ ایک لڑکی جو اپنے آپ کو بڑا تیز طرّار سمجھتی تھی۔خوش ہو کر بولی۔
’’آپ واقعی خوب بولتے ہیں مگر آپ کی مونچھیں بڑی نمایاں ہیں۔ انھیں منڈا لیجئے!‘‘
مسٹر جناح نے فوراً جواب دیا۔’’میڈم شکریا! مگر آپ کا ان مونچھوں سے کبھی رابطہ نہیں ہوگا!‘‘
یہ سن کر وہ لڑکی جھینپ کر رہ گئی اور بڑے قہقہے لگے۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
’’قائد اعظم ‘‘ہر وقت ہمہ تن مسلمانوں کے سیاسی مسائل کے حل اور قومی مستقبل کی تعمیر میں مصروف رہتے تھے۔ البتہ ’’مسٹر جناح‘‘کی دلچسپیاں اس سے زیادہ وسیع تھیں ۔حتیٰ کہ ان کی طبیعت ظرافت سے بھی خالی نہ تھی۔ ایک دفعہ ممتاز حسن کو ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔
’’ایک دفعہ میں ایک فرانسیسی کسٹم افسر کے سامنے اپنے اسباب کی تفصیل پیش کر رہا تھا۔اس میں کچھ سگریٹوں کے ڈبے تھے۔افسر نے کہا کہ ان سگریٹوں پر آپ کو ٹیکس دینا ہوگا ۔ساتھ ہی اس نے ایک معقول رقم بھی بتا دی، جو سگریٹ کی قیمت سے کچھ کم نہ تھی۔ میں نے بہت کہا کہ یہ سگریٹ خود میرے پینے کے ہیں، مگر وہ نہ مانا۔اس پر میں نے دیکھتے ہی دیکھتے سگریٹ کے ڈبے اس کے ہاتھ سے لے کر جنگلے کے باہر پھینک دیے اور کہا کہ اب میرے پاس نہ تو سگریٹ ہیں اور نہ ہی مجھ سے کوئی ڈیوٹی وصول کی جاسکتی ہے۔اگر آپ کو شوق ہے تو یہ ڈبے خود اُٹھا لائیے اور سگریٹ پی جائیے۔‘‘
ظاہر ہے کسٹم افسر حیران رہ گیا ہوگا۔پھر جتنی بحث اس نے کی ہوگی وہ بھی بے سود نکلی۔خدا جانے اس نے وہ سگریٹ اُٹھائے یا نہیں۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
ان کے خلوص اور اُصول پرستی کی مثال مشکل سے ہی ملے گی۔جو دیانت اور روحانی بلندی وہ اپنے ساتھ لائے تھے، وہ صدیوں میں بھی پیدا نہیں ہوتی۔تقسیم سے پہلے جب مختلف فرقوں اور گروہوں کی شر پسند اور فسادانہ سرگرمیوں کی خبریں آنے لگیں، تو کچھ لوگوں نے جاکر قائد اعظم کی خدمت میں عرض کی کہ مسلمانوں کو بھی ان کے مخالفین کی طرح ہتھیاروں اور گولہ بارود سے مسلح رہنا چاہئے۔اس سلسلے میں آپ کچھ اقدام کریں۔
قائد اعظم یہ سن کر بہت برہم ہوئے اور کہنے لگے۔’’کیا تم لوگ مجھے منافق سمجھتے ہو کہ ایک طرف تو صلح کی اپیل پر دستخط کروں اور دوسری طرف تمہارے لیے ہتھیاروں کا بندوبست کروں۔میں ہرگز کسی ایسی تحریک کی حمایت نہیں کر سکتا، خواہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو، خواہ غیر مسلموں کی طرف سے۔‘‘
٭۔ ۔ ۔ ٭
حرفِ آخر
مندرجہ بالا واقعات جو کہ میں نے ’’روزنامہ جنگ‘‘ اور ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ سے منتخب کیے ہیں، قائد اعظم کی سیرت پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔اُمید ہے آپ بھی ان کے مطالعے سے اتنا ہی متاثر ہونگے جتنا کہ میں ہوا ہوں۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہمارے قائد اعظم لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ایک تھے؟۔ ۔ ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو قائد اعظم جیسا رہنما نصیب نہ ہوتا تو شاید آج ہم پاکستان کی آزاد فضاؤں میں سانس نہ لے رہے ہوتے!
٭۔ ۔ ۔ ٭