ہم جا رہے ہیں بھائی!
باندھی ہوئی ہے کس کے ٹانگے سے چارپائی
ہے ساتھ ساتھ اپنے
اجداد کی نشانی، اِک مضمحل رضائی
اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی
پہنے ہوئے ہیں تن پر پیراہنِ ہوائی
کالر نہیں ہے پھر بھی
گردن میں اِک پرانی، لہرا رہی ہے ٹائی
اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی
مکتب میں مدتوں سے موقوف ہے پڑھائی
کیا گل کھلا رہی ہے
واعظ کی خوش بیانی، مسجد میں ہے لڑائی
اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی
رختِ سفر ہے اپنا، اپنی برہنہ پائی
آنکھوں میں صرف سپنے
ہاتھوں میں ناتوانی اور کاسئہ گدائی
اکیسویں صدی میں ہم جا رہے ہیں بھائی
(انور مسعود)