مارچ 2015

امتحان کی تیاری کے لیے مطالعہ کرنے کے مفید اُصول

تعارف
مطالعہ کرنے کے لیے اور امتحان کی تیاری کرنے کے لیے کئی طرح کی حکمت عملی یا تدابیر ہوتی ہیں جو کہ کسی بھی طالب علم کی ذاتی پسند یا طبیعت پر منحصر ہوتی ہیں۔ تاہم مطالعہ کے چند بنیادی اُصول آزما کر، مشقیں کر کے اور ضروری حکمت عملی اپنا کر امتحان میں بہتر کارکردگی حا صل کی جا سکتی ہے۔اس مضمون میں انھی مفید اور آزمودہ اُصولوں ، ٹوٹکوں اور مشوروں کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کا مطالعہ یقیناََ طالب علموں کے لیے مفید اور فائدہ مند ہوگا۔

مطالعہ کے حوالے سے طالب علموں کے ذہنوں میں بے شمار غلط فہمیاں موجود ہیں۔ بیشتر طلباء مطالعے کے ان بنیادی اُصولوں سے نا آشنا ہوتے ہیں جن پر عمل کر کے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

سب سے پہلا اُصول یہ ہے کہ اگر ہم واقعی امتحان میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں امتحان سے دو مہینے قبل تیاری شروع کرنےکی "اسٹریٹجی" کو ترک کرنا ہوگا ۔ یاد رکھیے! سال بھر باقاعدگی سے مطالعہ کرنا اور ہر مضمون کو مناسب وقت دینا امتحان میں کامیابی کے لیے بے حد ضروری ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب اسکول اورکالج کے ساتھ ساتھ گھر میں بھی پڑھا جائے۔ ہوم ورک باقاعدگی کے ساتھ کیا جائے ۔ جو کام سونپا گیا ہو اسے لازماَََ مکمل کیا جائے۔ انفرادی طور پر پڑھنا سب سے ضروری ہے۔کلاس روم میں لیے گئے نوٹس پر گھر پر بھی اسی دن ضرور نگاہ ڈالی جائے ورنہ ذہن سے حذف ہو جاتے ہیں۔ غیر ضروری یا غیر نصابی مواد پر بہت زیادہ وقت ہرگز ضائع نہ کریں۔ کسی ایک ٹاپک کو مکمل کر لینے کے بعد ہی دوسرا ٹاپک شروع کریں۔ساتھ ساتھ اپنا امتحان بھی لیتے رہیے یا کسی سینئر سے سوالنامہ بنوائیے اور اسے ایمانداری اور دل جمعی کے ساتھ پابندی وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کریں۔اس سے آپ کو اپنی خامیوں کا اندازہ ہوگا۔ ہر ٹاپک کے اہم نکات بار بار لکھ کر ذہن نشین کرنے کی کوشش کریں۔ مثال کے طور پر آپ نے ایک صفحہ پڑھا ۔ اب کتاب بند کرکے جو کچھ آپ نے پڑھا تھا، اس کے اہم نکات لکھنے کی کوشش کریں۔ پھر کتاب کھول کر اس صفحے کا اپنے لکھے ہوئے نکات کے ساتھ موازنہ کریں۔ یہی طریقہ پھر دہرائیے تاکہ تما م نکات درست اور مکمل ہوجائیں۔

مطالعہ کے چار بنیادی اصول

1۔ نصاب کے متن کے چند صفحات سے زیادہ نہ پڑھیے اور اس کا لب لباب یا خلاصہ اسی وقت لکھ ڈالیے۔ مطالعہ کے لیے یہ ایک ہمہ گیر اور مؤثر اصول ہے۔ اگر ضروری ہو تو ایک بار پھر اس مواد کو پڑھ لیا جائے۔ ایک ٹاپک مکمل کرنے کے بعد اہم نکات کا جدول (ٹیبل)بنائیے یا انھیں ترتیب وار لکھ لیجئے۔ان نکات کو بار بار لکھ کر ذہن نشین کرنے کی کوشش کریں۔ کوئی بھی ٹاپک یاد رکھنے کے لیے یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔صرف رٹا لگانا وقت کا ضیاع ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ رٹا ہوا مواد اکثر بھول جاتا ہے۔ آپ کے نوٹس صاف ستھرے لکھے ہوئے ہونے چاہیئیں اور اس جگہ پڑے ہوں جہاں سے آسانی کے ساتھ مل جائیں۔

2۔ اضافی مطالعہ اسی وقت کیا جانا چاہیئے جب پچھلا مطالعہ خوب ذہن نشین ہو گیا ہو۔ یہ اضافی مطالعہ انفراد ی طور پر بھی کیا جا سکتا ہے اور اجتماعی طور پر یعنی کمبائن یا گروپ اسٹڈی بھی کی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ مختلف کتب، رسائل ، اخبارات ، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے بھی اضافی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ اس اصول پر عمل کرنے سے آپ کے اندر مطالعہ کا شوق بھی بڑھ جائے گا۔

3۔ "رٹنے" کو بُرا اور حقیر نہ جانیے لیکن اس پر مکمل بھروسہ ہرگز نہ کریں۔ تھوڑا لیکن اچھا مطالعہ، روز کا روز پڑھنا اور ٹاپک کو سمجھ کر ذہن نشین کرنا رَٹنے سے بہتر ہے۔ کسی بات کو سوچے سمجھے بغیر اندھا دھند رَٹ لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے اُسے اچھی طرح سمجھیں ۔ جب آپ اسے اچھی طرح سمجھ لیں گے تو آپ کو وہ بات یاد رکھنے میں آسانی ہوگی۔ اسی طرح فارمولوں ، تاریخوں، تعریفوں وغیرہ کو تکرار کر کے اور بار بار لکھ لکھ کر یاد رکھنے کی کوشش کریں۔
4۔ اسکول یا کالج میں باقاعدگی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ  اساتذہ کے لیکچرز اٹینڈ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ لیکچرا ر یا استاد امتحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے لیکچرز تیار کرتے ہیں۔ان لیکچرز کے نوٹس لینے کے بعد انفرادی مطالعہ کرتے ہوئے کافی سہولت حاصل ہو جاتی ہے۔

 ایک دن میں کتنے گھنٹے پڑھنا چاہیئے؟

یہ سوال یقیناََ ہر طالب علم کے ذہن میں ہوگا۔ مطالعہ کے دوران تھکاوٹ ایک یقینی اور فطری چیز ہے اور اسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم دن کے چوبیس گھنٹے مطالعہ کرتے رہیں۔ عموماََ امتحان کے نزدیک طالب علم رات رات بھر پڑھائی کرنا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امتحان کے دوران تھکن محسوس کرتے ہیں اور اچھی کاکردگی نہیں دکھا پاتے۔ اچھا طالب علم وہ ہوتا ہے جو روزانہ مطالعہ کرتا ہے اور صرف اتنا پڑھتا ہے جتنا وہ جذب کر سکے۔ آپ جب بھی مطالعہ کریں صرف اس وقت تک پڑھیں جب تک آپ اکتاہٹ یا تھکاوٹ محسوس نہ کرنے لگیں۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ آپ کوئی پیرگراف پڑھ رہے ہیں اور بار بار پڑھنے کے باوجود آپ کو وہ پیراگراف نہ سمجھ آرہا ہو اور نہ ذہن نشین ہورہا ہو۔ جب بھی ایسا محسوس ہو، مطالعہ فوراََ ترک کر دیں کیونکہ مزید مطالعہ محض وقت کا ضیاع ہوگا جس سے آپ کچھ سیکھ نہیں پائیں گے۔زیادہ تر طلباء کے لیےایک دن میں زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹہ مطالعہ کافی ہوتا ہے لیکن یہ ضروری بھی نہیں ہے۔اگر اس میں موڈ یا تھکاوٹ کی وجہ سے کمی بیشی ہوتی ہے تو پریشان ہونے کی قطعاََ ضرورت نہیں ہے۔

فارغ وقت میں کیا کریں؟

مطالعہ کے بعد فارغ وقت میں ہم کیا کریں؟ یہ دوسرا سوال ہے جو ہر طالب علم کے ذہن میں ہوتا ہے۔ امتحان سے قبل کچھ طلباء سوائے مطالعہ کی میز پر بیٹھ کر پریشانی اور ٹینشن میں مبتلا ہونے کے کچھ نہیں کرتے۔ اصل میں وہ اپنے دماغ کو باقی جسم کی طرح نہیں سمجھتے۔ جس طرح کرکٹ کھیلنے یا پھر کوئی اور جسمانی ورزش کے بعد ہم تھک جاتے ہیں تو آرام کر کے یا سو کر اپنی جسمانی تھکن کو دور کرتے ہیں اسی طرح دماغی مشقت کے بعد دماغ کو بھی آرام کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔جب ہم سوتے ہیں تو دماغ اس وقت بھی جاگ رہا ہوتا ہے۔ مختلف خیالات اور سوچیں دماغ کو مصروف رکھتی ہیں اور خواب کی صورت میں دماغ اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ چنانچہ سونے سے باقی جسم کو تو آرام مل جاتا ہے مگر دماغ کو نہیں۔ دماغ کو صرف اسی وقت آرام ملتا ہے جب ہم اسے تنوع یا ورائٹی مہیا کرتے ہیں۔ دماغ کو آرام پہنانے کا طریقہ یہ ہے کہ جب بھی مطالعہ کے بعد آپ دماغی تھکن یا اکتاہٹ کا شکار ہوں تو فی الفور مطالعہ بند کر دیں۔ اس کے بعد یہ نہیں کریں کہ کر سی میں بیٹھے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اب کیسے پڑھیں؟ اتنے ٹاپکس مکمل کرنا باقی ہیں اور وقت کم ہے تو اب کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ اس طرح سوچنے سے سوائے پریشانی اور ٹینشن کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ آپ کو اسی وقت اپنی کرسی سے اُٹھ جانا چاہیئے اور کچھ اور کام کرنا چاہیئے۔ جیسے کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیل لیا، ٹی وی پر اپنا کوئی پسندیدہ پروگرام دیکھ لیا، کچھ دیر آرام کر لیا، کسی دوست سے باتیں کر لیں، اخبار یا کسی غیر نصابی کتاب کا مطالعہ کر لیا یا باہر سیر کے لیے نکل گئے۔ وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ اپنے دماغ کو کسی اور کام میں مصروف کر لیا تاکہ دماغ تازہ دم ہوجائے اور آپ ازسر نو مطالعہ جاری رکھ سکیں۔

نوٹس کیسے بنائیں؟

ہمیں اکثر وہ بیشتر مختلف موضوعات پر مضمون، تقریر یا نوٹس بنانے کے لیے مواد اکٹھا کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ کسی موضوع پر مواد جمع کرنے کے لیے آپ ڈی۔ایل۔موڈی کا طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔ ان صاحب نے بڑے بڑے لفافوں پر مختلف عنوان لکھ رکھے تھے(جیسے سائنس، ادب ، آرٹس ، مذہب) جب بھی انھیں کوئی مواد ملتا یا وہ کسی کتاب کا مطالعہ کرتے جس میں کوئی بات نوٹ کرنے کے قابل ہوتی تو وہ اس مواد کو نقل کر کے متعلقہ عنوان والے لفافے میں ڈال دیتے۔ چنانچہ جب انھیں کوئی تقریر کرنی ہوتی ، کوئی مضمون لکھنا ہوتا یا نوٹس بنانے ہوتے تو یہ لفافے ان کے بہت کام آتے۔آپ بھی ایسے ہی مختلف عنوانات پر مبنی لفافے یا فولڈرز بنا لیں اور مواد جمع کرتے رہا کریں۔

کوئی چیز یاد کیسے رکھی جائے؟

ابراہم لنکن کا طریقہ

ابراہم لنکن کسی چیز کو یاد رکھنا چاہتا تھا تو اسے بلند آواز میں پڑھا کرتا تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ جب میں کوئی چیز  بلند آواز سے پڑھتا ہوں تو مجھے دو فائدے ہوتے ہیں۔

(ا) مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔

(2) میں جو کچھ پڑھتا ہوں اسے سُن بھی لیتا ہوں۔

جو خیال بھی آپ کے ذہن میں آئے اسے لکھ لیں اور اپنے ذہن کو دوسرے خیالات کی تلاش میں مصرو ف رکھیں۔کسی چیز کو یاد کرنے کے بعد اسے لکھنے کی عادت بھی مفید ہے۔اس کے کئی فائدے ہیں۔اس سے سوچنے کی صلاحیت تیز تر ہوتی ہے،وہ چیز واضح طور پر ہمارے دماغ میں محفوظ ہو جاتی ہے، غلطیوں کی نشاندہی ہوتی ہے، لکھنے کی مشق ہوتی ہے، املاء یا اسپیلنگ کی غلطیوں کی درستگی ہوجاتی ہے اور لکھنے کی رفتار یعنی رائٹنگ پاور میں اضافہ ہوتا ہے۔

آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیزیں دیر تک یاد رہتی ہیں۔ چینی کہاوت ہے: "کسی چیز کو ایک بار دیکھنا ہزار بار سننے سے بہتر ہے۔"

کوئی فارمولا ہو، شعر ہو ، خاکہ ہو، ٹیبل (جدول) ہو یا کوئی اور چیز۔ اسے غور سے دیکھیں، زور سے پڑھیں ۔ پھر آنکھیں بند کرلیں اور آگ کی طرح روشن حروف میں اس چیز کو آنکھوں کے سامنے لانے کی کوشش کریں اور آخر میں لکھ لیں۔ وہ چیز آپ کو ہمیشہ یاد رہے گی۔

تاریخیں کیسے یاد رکھی جائیں؟

 مطالعہ پاکستان یا تاریخ کے کسی مضمون میں ہمیں بے شمار تاریخیں یاد کرنا پڑتی ہیں۔ انھیں یاد رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انھیں ذہن میں پہلے سے ہی موجود تاریخوں کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر ایک پاکستانی کے لیے یہ یاد رکھنا مشکل ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 11 اگست کو 1947 ء کو منعقد ہوا تھا۔ تاہم ہر پاکستانی یہ ضرور جانتا ہوگا کہ پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرضِ وجود میں آیا تھا۔اگر اسے بتایا جائے کہ قیام پاکستان سے صرف تین دن قبل دستور ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا تھا تو اس کے لیے یہ تاریخ یاد رکھنا مشکل نہیں رہے گا۔ اسی اصول کی مدد سے تمام اہم تاریخی واقعات کی تاریخیں یاد رکھی جا سکتی ہیں۔

ذخیرہ الفاظ کیسے بڑھا یا جائے؟

کتابیں ہی ایک ایسا ذریعہ ہیں جن کی مدد سے آپ اپنا ذخیری الفاظ وسیع کر سکتے ہیں اور شگفتہ زبان پر عبور حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلوبِ بیان کو بہتر بنانا ہے تو نامور ادیبوں اور شعراء کی تخلیقات کا مسلسل مطالعہ کریں ۔ کتابوں کے مطالعہ سے آہستہ آہستہ غیر شعوری طور پرآپ کی زبان اور خیالات کے اظہار کا طریقہ بہتر ہوتا جائے گا۔ آپ کی گفتگو اور تحریر دونوں میں حسن اور لطافت پیدا ہو جائیگی۔ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنے کے لغت یعنی ڈکشنری بھی آپ کی بے حد مدد کر سکتی ہے۔ ڈکشنری سے ہرروز صرف ایک نئے لفظ کو پڑھنے اور اسے تین چار دفعہ لکھنے اور جملوں میں استعمال کرنے سے وہ لفظ دماغ میں محفوظ ہوجائے گا۔ اس طرح ایک سال میں آپ کے ذخیرہ الفاظ میں 365الفاظ کا اضافہ ہوجائے گا۔

ہوربس کا مشورہ

الفاظ کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ حقائق اور خیالات تلاش کریں۔ جب حقائق اور خیالات کاہجوم ہوگا تو الفاظ خودبخود مل جائیں گے۔


اعادہ کرنا  Revision

ہمارا دماغ ایک اسٹور روم کی طرح ہے۔ اس کی قابلیت صرف اسی پر منحصر نہیں کہ اس میں کیامواد  موجود ہے؟ بلکہ اس پر بھی منحصر ہے کہ اس مواد کو کس طرح یا کس طریقے سے محفوظ رکھا گیا ہے اور اس مواد تک رسائی کس طرح ممکن ہے؟

امتحان کے نزدیک اعادہ کرتے ہوئےآپ کو نئی چیزیں یاد کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ آپ اسے ہضم نہیں کر سکیں گےاور اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ پہلے سے یاد کی گئیں چیزیں بھی کہیں ذہن سے حذف نہ ہوجائیں۔

اسٹور روم میں پہلے سے جو چیزیں پڑ  ی ہوتی ہیں وہ ترتیب اور سلیقے سے رکھی ہوتی ہیں لیکن جب آپ کوئی نئی چیز لاتے ہیں تو اس کے لیے کوئی جگہ مقرر نہیں ہوتی چنانچہ آپ اسے بیچ راستے میں کسی سلیقے کے بغیر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے بعد فرض کریں کہ آپ کو پہلے سے پڑی کسی چیز کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو اس کے لیے آپ کو پہلے بیچ راستے میں پڑی نئی چیز کو راستے سے ہٹانا پڑے گا تب کہیں جا کر آپ اپنی مطلوبہ چیز تک پہنچ سکیں گے۔ اس دوران کوئی چیز گِر بھی سکتی ہے اور  چیزوں کی ترتیب بھی گڈ مڈ ہوکر خراب ہو سکتی ہے۔بالکل یہی حال دماغ کا بھی ہے۔

لہٰذا امتحان کے نزدیک اعادہ کرتے وقت صرف اُسی مواد کا مطالعہ کریں جو آپ پہلے پڑھ چکے ہوں ۔ نیا مواد زبردستی دماغ میں ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں۔ ممکن ہے کہ آپ کا نصاب یا سلیبس تھوڑا سا رہ گیا ہومگر اسے اب یاد کرنا فضول ہے ۔ وقت گزر گیا ہے۔ اسے آپ کو پہلے یاد کرنا چاہیئے تھا۔ چنانچہ اب آپ کو جتنا کچھ یاد ہے ، اُسی پر قناعت کریں اور اسی کو اعادہ کر کے پکا کرنے کی کوشش کریں۔ نئے مواد کو یاد کرنے کے چکر میں پرا نا یاد کیا ہوا مواد بھی آپ کے ذہن سے نکل سکتا ہے جو ہرگز آپ کے مفاد میں نہیں ہوگا!

امتحان کے دوران کارگر اُصول

1۔ امتحان میں کسی سوال کا جواب لکھنے سے پہلے سوالنامہ کو اچھی طرح پڑھیے اور سمجھئے۔ اگر پرچہ کئی حصوں پر مشتمل ہو تو ہر حصے کو اس کے نمبر اور ضخامت کے لحاظ سے مناسب وقت دیجئے ۔ ہر حصے میں پہلے وہ سوال حل کریں جو آپ کو سب سے آسان لگتا ہو یا جو آپ کو سب سے اچھی  طرح یاد ہو اور حل کرنے کے بعد اس پر نشان لگادیں۔ اس کے بعد دوسرا آسان سوال حل کریں۔ امتحان میں "وقت" کی بڑی اہمیت ہے۔ لہٰذا گھڑی ہمیشہ ساتھ رکھیے بلکہ اس کا وقت پانچ دس منٹ آگے کر لیجئے تاکہ اعادہ کے لیے بھی وقت مل سکے۔ امتحان میں لکھنے کی رفتار کو مقررہ وقت کے متوازی رکھنے کی مشق گھر میں پرانے پرچہ جات کو ایمانداری کے ساتھ حل کر کے بھی کی جا سکتی ہے۔

2۔ معروضی سوالات یا ملٹی پل چوائس سوالات کے جوابات لکھنے کے دوران اگر آ پ کسی سوال میں "گمان" یا گیس کر رہے ہیں تو ہمیشہ اپنے پہلے گمان پر بھروسہ کریں اور اسے اس وقت تک تبدیل نہ کریں جب تک آپ کے پاس کوئی معقول وجہ نہ ہو۔ اگر منفی مارکنگ یا نمبر ز کٹنے کا خدشہ نہ ہو تو ہرگز کوئی سوال نہ چھوڑیں۔ چاہے گمان لگانا پڑے مگر سارا پرچہ ضرور حل کریں۔

3۔ ہر سوا ل یکساں نہیں ہوتا۔ کوئی مشکل لگتا ہے اور کوئی آسان۔ زیادہ مشکل یا طویل سوالات میں بہت زیادہ وقت صرف نہ کیجئے۔ ہر سوال کو اس کے دیے گئے نمبرز کے مطابق ہی اہمیت دیجئے۔ پہلے آسان اور چھوٹے سوالات حل کر لیجئے ، اس کے بعد مشکل اور طویل سوالات کی طرف جائیے۔

4۔ پرچہ حل کرنے کے بعد اعادہ کرنے کے لیے ضرور وقت نکالیے تاکہ املاء یا دوسری نادانستہ غلطیوں کو درست کیا جا سکے۔

آخر میں چند چھوٹے چھوٹے ٹوٹکے

1۔ اگر آپ وقت کی پابندی کا خیال رکھتے ہیں تو یہ  یہ ٹوٹکا بہت کارآمد ہے۔ ہر گھنٹے میں مختلف کاموں یا مضامین کو بانٹ لیں اور اس کا ایک جدول یا ٹائم ٹیبل بنا لیں اور اپنے مطالعہ کے کمرے میں اسے دیوار میں چسپاں کر لیں۔ اس کے بعد جب بھی مطالعہ کریں، اس جدول پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کریں۔

2۔ اپنے کمرے کی میں کسی عظیم شخصیت کی تصویر لگالیں۔ اگر کسی دن آپ سے پڑھا نہیں جا رہا ہو یا آپ اپنی پڑھائی سے مایوس ہونے لگیں تو اس عظیم شخصیت کی تصویر دیکھیں اور سوچیں کہ انھوں نے محنت کرکے کتنا نام کمایا۔ اس سے آپ کے اندر بھی جذبہ پیدا ہوگا۔ اس کے علاوہ کسی نامور شخصیت کےترغیبی اقوال یا اشعار بھی آپ لکھ کر دیوار پر لگا سکتے ہیں جن پر کبھی کبھار نگاہ ڈال لیا کریں۔ کسی سائنسی فارمولہ ، شعر یا کوئی اہم چیز کو یاد کرنے کے لیے اس طریقہ پرعمل کیا جا سکتا ہے۔

3۔ آخری بات یہ کہ مطالعہ کے دوران صفائی ستھرائی اور ترتیب و تنظیم کا خاص خیال رکھیں۔ کتابیں اور نوٹس بکھیر کر اور چیزیں اِدھر اُدھر پھیلا کر ہرگز مطالعہ نہ کریں۔ اس طرح ذہن اُلجھتا ہے ۔ ہر چیز کو اس کی مقررکردہ جگہ پر رکھیں۔ نماز پڑھیں اور امتحان میں کامیابی کے لیے اللہ کے حضور دعا کریں۔

ختم شد

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.