ایک مسافر شاعر
کراچی شہر میں بس کا سفر یقینا ایک الگ ہی تجربہ ہوتا ہے۔جس میں انسان کے کئی رُوپ سامنے آتے ہیں ۔بس کے سفر میں بعض اوقات ایسے انوکھے اور دلچسپ واقعات پیش آتے ہیں جو مسافروں کے لئے خوشگوار یاد اور ناقابل فراموش بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ڈان اخبار میں شائع ہوا جیسے ’’اے۔ قاضی شکور‘‘ نے انگریزی میں تحریر کیاہے۔ اس واقعے کا خلاصہ ترجمہ کی صورت میں یہاں پیش کرہا ہوں۔
بس میں سفر کے دوران کسی اسٹاپ سے ایک شخص سوار ہوا۔ بس چونکہ بھری ہوئی تھی۔ لہٰذا وہ بڑی مشکل سے آگے بڑھتا ہوا بالآخر جالی یا (گِرل) تک پہنچ گیا، جو لیڈیز پورشن کے پارٹیشن کے لئے لگی ہوتی ہے۔ وہ شخص کچھ دیر اپنی چڑھی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا۔پہلی نظر میں وہ کوئی بھکاری ہی محسوس ہوا۔ مگر جب اس نے نہایت خوش الحانی سے اپنی ’’مدّعا ‘‘ سنائی تو مسافروں پر اس کا کیا ’’اثر ‘‘ ہوا؟۔ ۔ ۔ یہ آپ کو بعد میں پتا چلے گا!۔ ۔ ۔ پہلے آپ اس اجنبی شخص کی ’’منظوم مدّعا ‘‘ ملاحظہ فرمائیں!۔ ۔ ۔
بس میں سفر کے دوران کسی اسٹاپ سے ایک شخص سوار ہوا۔ بس چونکہ بھری ہوئی تھی۔ لہٰذا وہ بڑی مشکل سے آگے بڑھتا ہوا بالآخر جالی یا (گِرل) تک پہنچ گیا، جو لیڈیز پورشن کے پارٹیشن کے لئے لگی ہوتی ہے۔ وہ شخص کچھ دیر اپنی چڑھی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا۔پہلی نظر میں وہ کوئی بھکاری ہی محسوس ہوا۔ مگر جب اس نے نہایت خوش الحانی سے اپنی ’’مدّعا ‘‘ سنائی تو مسافروں پر اس کا کیا ’’اثر ‘‘ ہوا؟۔ ۔ ۔ یہ آپ کو بعد میں پتا چلے گا!۔ ۔ ۔ پہلے آپ اس اجنبی شخص کی ’’منظوم مدّعا ‘‘ ملاحظہ فرمائیں!۔ ۔ ۔
اچھا تو بھائی جان، قدردان، مہربان!
اب دل پر ہاتھ رکھ کے سنیں میری داستان!
کرتے ہیں آپ بس میں سفر روز، صبح و شام
بس یونہی چل رہا ہے اس شہر کا نظام
ملتے ہیں بس میں آپ کو ہاکر نئے نئے
سنتے ہیں آپ روز ہی لیکچر نئے نئے
کپڑوں پر کوئی آپ کے خوشبو لگائے گا
بسکٹ دکھائے گا، کوئی ٹافی کھلائے گا
یا کچھ ملیں گے آپ کو محتاج اور فقیر
جو خود بھی تھے کبھی بڑے خوش حال اور امیر
ایک حادثہ ہوا تو وہ معذور ہوگئے
خیرات مانگنے پہ وہ مجبور ہوگئے
لیکن نہیں ہوں میں کوئی محتاج یا فقیر
ہوں خود کفیل خیر سے، ایک مردِ باضمیر
جیبوں سے پیسے کھینچنے آیا نہیں ہوں میں
کچھ مانگنے یا بیچنے آیا نہیں ہوں میں
دراَصل بات یہ ہے کہ شاعر ہے خاکسار
لیکن ہوں بدنصیب، نہیں کوئی میرا یار
ٹی وی سے، ریڈیو سے، محافل سے دُور دُور
راہی کی طرح جوکہ ہو منزل سے دُور دُور
دیوار ودَر کو گھر میں سناتا ہوں میں کلام
بس آپ سے ہے عرض میری کیجئے یہ کام
سو کے قریب آدمی موجود ہیں یہاں
بس میں مشاعرے کا بندھے اگر سماں
اب دل پر ہاتھ رکھ کے سنیں میری داستان!
کرتے ہیں آپ بس میں سفر روز، صبح و شام
بس یونہی چل رہا ہے اس شہر کا نظام
ملتے ہیں بس میں آپ کو ہاکر نئے نئے
سنتے ہیں آپ روز ہی لیکچر نئے نئے
کپڑوں پر کوئی آپ کے خوشبو لگائے گا
بسکٹ دکھائے گا، کوئی ٹافی کھلائے گا
یا کچھ ملیں گے آپ کو محتاج اور فقیر
جو خود بھی تھے کبھی بڑے خوش حال اور امیر
ایک حادثہ ہوا تو وہ معذور ہوگئے
خیرات مانگنے پہ وہ مجبور ہوگئے
لیکن نہیں ہوں میں کوئی محتاج یا فقیر
ہوں خود کفیل خیر سے، ایک مردِ باضمیر
جیبوں سے پیسے کھینچنے آیا نہیں ہوں میں
کچھ مانگنے یا بیچنے آیا نہیں ہوں میں
دراَصل بات یہ ہے کہ شاعر ہے خاکسار
لیکن ہوں بدنصیب، نہیں کوئی میرا یار
ٹی وی سے، ریڈیو سے، محافل سے دُور دُور
راہی کی طرح جوکہ ہو منزل سے دُور دُور
دیوار ودَر کو گھر میں سناتا ہوں میں کلام
بس آپ سے ہے عرض میری کیجئے یہ کام
سو کے قریب آدمی موجود ہیں یہاں
بس میں مشاعرے کا بندھے اگر سماں
سن لیجئے غزل میری، احسان کیجئے!
اور بھیک میں غریب کو کچھ داد دیجئے!
’’ مسافر شاعر‘‘ کی مدّعا سن کرسوائے ان مسافروں کے جو بیچارے بس کی چھت میں سوار تھے ، بس کے تمام مسافراس کے ’’فن‘‘ کے قائل ہوگئے اورانھوں نے ’’مسافر شاعر‘‘ کو بھرپور داد دیتے ہوئے اس کی ’’تازہ غزل ‘‘ سننے پر آمادگی ظاہر کردی۔ ۔ ۔ !