شش۔ ۔ ۔ ش۔ ۔ ۔ کوئی ہے!!!
بَلا کی سرداور گھُپ اندھیری رات تھی۔بارش کی بوندیں رہ رہ کر گِر رہی تھیں۔ شہر کے ایک مکان میں احتشام صاحب کتاب پڑھنے میں مصروف تھے۔ ان کی بیگم کڑھائی بھی کرتی جاتی تھیں اور ان سے باتیں بھی کر رہی تھیں۔ وہ صرف ’’ہاں‘‘ ، ’’ہوں‘‘ سے بیگم کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
عین اُسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی۔ ۔ ۔ رات کا وقت اور دروازے پر دستک؟۔ ۔ ۔ بیگم احتشام کو ایک دَم یاد آیا۔ ۔ ۔ ’’ہاں! بالکل ایسی ہی کالی اور بھیانک رات تھی اور دروازے پر ایسی ہی دستک ہوئی تھی۔ ان کا اکلوتا بیٹا فخر دروازہ کھولنے گیا تھا۔ دروازہ کھولتے ہی اس نے نجانے کیا دیکھا تھا کہ چیخ مار کر وہیں گِر پڑا تھا۔ میاں بیوی دونوں دوڑے دوڑے دروازے کی جانب لپکے تھے۔ لیکن انھوں نے جو منظر دیکھا‘‘۔ ۔ ۔ یہ سوچتے ہی بیگم احتشام کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ’’ہائے!کس قدر خوفناک منظر تھا!۔ ۔ ۔ فخر ،ان کا اکلوتا اور عزیز بیٹا۔ ۔ ۔ غائب تھا۔ ۔ ۔ خون کے جابجا نشانات فرش کو سرخ کر رہے تھے۔‘‘
’’نہیں!!!۔ ۔ ۔ ‘‘بیگم احتشام چلائیں۔
احتشام صاحب چونک کر اُٹھے اور بیگم کو دِلاسا دینے لگے۔عین اُسی لمحے دروازے پر ایک اور دستک ہوئی۔دونوں میاں بیوی سہم کر رہ گئے۔
’’دیکھیں کوئی دروازے پر ہے!‘‘بیگم احتشام بولیں۔
’’ارے نہیں!کوئی چوہا ہے!‘‘احتشام صاحب ڈرتے ہوئے بولے۔
’’فخر ۔ ۔ ۔ مم۔ ۔ ۔ میرا بیٹا!‘‘بیگم احتشام بڑبڑائیں۔پھر اپنے شوہر سے مخاطب ہوکر بولیں:’’یہ فخر ہے!میرا دل کہتا ہے یہ فخر ہے!‘‘
’’خدا کے واسطے اسے اندر نہ آنے دینا۔‘‘احتشام صاحب خوف سے چلائے۔
’’اب آپ اپنے بچّے سے ڈرتے ہیں؟‘‘بیگم بولیں۔
پھر وہ اُٹھیں اور دروازے کی جانب بڑھیں۔دروازے پر ایک اور زوردار دستک ہوئی۔بیگم احتشام پہلے پہل تو گھبرائیں مگر پھرہمّت کرتے ہوئے بولیں۔
’’میں آرہی ہوں فخر بیٹا۔ ۔ ۔ میں آرہی ہوں!‘‘
احتشام صاحب نے روکنے کی کوشش کی اور بولے:’’دیکھو!پچھلی بارجب ایسی دستک ہوئی تھی تو ہمارا فخر ہم سے جُدا ہو گیا تھا۔اس بار بھی کوئی خطرناک بات ہوگی۔‘‘
مگر وہ نہ مانیں اور تیزی سے دروازے کی جانب لپکیں۔دروازے کے پاس چونکہ بلب خراب تھا، اس لیے وہاں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔دروازے کی کنڈی لگی ہوئی تھی۔انھوں نے ٹٹول ٹٹول کر تلاش کی۔کنڈی کچھ سخت تھی،ان سے کھل نہ سکی۔
اتنے میں احتشام صاحب دوڑ کر دروازے کی طرف بھاگے اور بیگم کا ہاتھ کنڈی سے کھینچ کر ہٹا دیا۔بیگم نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی،مگر کامیاب نہ ہوسکیں۔
احتشام صاحب بولے:’’آخر تم دوسری بار کیوں اپنا نقصان کروانا چاہتی ہو؟‘‘
بیگم نے احتشام صاحب کو دھکا دے کر ہاتھ چھڑا لیا اور کنڈی کو بجلی کی سی تیزی سے زور دے کر کھول دیا۔احتشام صاحب دھکا کھا کر دیوار سے ٹکرائے۔ان کا سر چکرانے لگا۔مگر وہ ہمّت کر کے اُٹھے اور دروازے کی جانب چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ بڑھنے لگے۔مگر ان کی بیگم دروازہ کھول چکی تھیں۔
باہر دو آدمی کھڑے تھے۔اندھیرے کی وجہ سے ان کی شکلیں واضح نظر نہ آتی تھیں۔ایک کے ہاتھ میں شاید بریف کیس تھا۔بیگم احتشام بولیں:’’کون؟!!!‘‘
بریف کیس والے نے جواب دیا۔’’جی ہم نیب کی طرف سے آئے ہیں،احتشام صاحب کو بلادیجئے!‘‘
بیگم احتشام کے لیے بس اتنا سننا ہی کافی تھا۔انھوں نے پلٹ کر شوہر کی طرف دیکھا۔احتشام صاحب اپنے سر کی چوٹ تو برداشت کر گئے تھے،مگر اس بات کا صدمہ برداشت نہ کر سکے تھے اور زمین پر بے ہوش گرے ہوئے تھے۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
عین اُسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی۔ ۔ ۔ رات کا وقت اور دروازے پر دستک؟۔ ۔ ۔ بیگم احتشام کو ایک دَم یاد آیا۔ ۔ ۔ ’’ہاں! بالکل ایسی ہی کالی اور بھیانک رات تھی اور دروازے پر ایسی ہی دستک ہوئی تھی۔ ان کا اکلوتا بیٹا فخر دروازہ کھولنے گیا تھا۔ دروازہ کھولتے ہی اس نے نجانے کیا دیکھا تھا کہ چیخ مار کر وہیں گِر پڑا تھا۔ میاں بیوی دونوں دوڑے دوڑے دروازے کی جانب لپکے تھے۔ لیکن انھوں نے جو منظر دیکھا‘‘۔ ۔ ۔ یہ سوچتے ہی بیگم احتشام کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ’’ہائے!کس قدر خوفناک منظر تھا!۔ ۔ ۔ فخر ،ان کا اکلوتا اور عزیز بیٹا۔ ۔ ۔ غائب تھا۔ ۔ ۔ خون کے جابجا نشانات فرش کو سرخ کر رہے تھے۔‘‘
’’نہیں!!!۔ ۔ ۔ ‘‘بیگم احتشام چلائیں۔
احتشام صاحب چونک کر اُٹھے اور بیگم کو دِلاسا دینے لگے۔عین اُسی لمحے دروازے پر ایک اور دستک ہوئی۔دونوں میاں بیوی سہم کر رہ گئے۔
’’دیکھیں کوئی دروازے پر ہے!‘‘بیگم احتشام بولیں۔
’’ارے نہیں!کوئی چوہا ہے!‘‘احتشام صاحب ڈرتے ہوئے بولے۔
’’فخر ۔ ۔ ۔ مم۔ ۔ ۔ میرا بیٹا!‘‘بیگم احتشام بڑبڑائیں۔پھر اپنے شوہر سے مخاطب ہوکر بولیں:’’یہ فخر ہے!میرا دل کہتا ہے یہ فخر ہے!‘‘
’’خدا کے واسطے اسے اندر نہ آنے دینا۔‘‘احتشام صاحب خوف سے چلائے۔
’’اب آپ اپنے بچّے سے ڈرتے ہیں؟‘‘بیگم بولیں۔
پھر وہ اُٹھیں اور دروازے کی جانب بڑھیں۔دروازے پر ایک اور زوردار دستک ہوئی۔بیگم احتشام پہلے پہل تو گھبرائیں مگر پھرہمّت کرتے ہوئے بولیں۔
’’میں آرہی ہوں فخر بیٹا۔ ۔ ۔ میں آرہی ہوں!‘‘
احتشام صاحب نے روکنے کی کوشش کی اور بولے:’’دیکھو!پچھلی بارجب ایسی دستک ہوئی تھی تو ہمارا فخر ہم سے جُدا ہو گیا تھا۔اس بار بھی کوئی خطرناک بات ہوگی۔‘‘
مگر وہ نہ مانیں اور تیزی سے دروازے کی جانب لپکیں۔دروازے کے پاس چونکہ بلب خراب تھا، اس لیے وہاں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔دروازے کی کنڈی لگی ہوئی تھی۔انھوں نے ٹٹول ٹٹول کر تلاش کی۔کنڈی کچھ سخت تھی،ان سے کھل نہ سکی۔
اتنے میں احتشام صاحب دوڑ کر دروازے کی طرف بھاگے اور بیگم کا ہاتھ کنڈی سے کھینچ کر ہٹا دیا۔بیگم نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی،مگر کامیاب نہ ہوسکیں۔
احتشام صاحب بولے:’’آخر تم دوسری بار کیوں اپنا نقصان کروانا چاہتی ہو؟‘‘
بیگم نے احتشام صاحب کو دھکا دے کر ہاتھ چھڑا لیا اور کنڈی کو بجلی کی سی تیزی سے زور دے کر کھول دیا۔احتشام صاحب دھکا کھا کر دیوار سے ٹکرائے۔ان کا سر چکرانے لگا۔مگر وہ ہمّت کر کے اُٹھے اور دروازے کی جانب چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ بڑھنے لگے۔مگر ان کی بیگم دروازہ کھول چکی تھیں۔
باہر دو آدمی کھڑے تھے۔اندھیرے کی وجہ سے ان کی شکلیں واضح نظر نہ آتی تھیں۔ایک کے ہاتھ میں شاید بریف کیس تھا۔بیگم احتشام بولیں:’’کون؟!!!‘‘
بریف کیس والے نے جواب دیا۔’’جی ہم نیب کی طرف سے آئے ہیں،احتشام صاحب کو بلادیجئے!‘‘
بیگم احتشام کے لیے بس اتنا سننا ہی کافی تھا۔انھوں نے پلٹ کر شوہر کی طرف دیکھا۔احتشام صاحب اپنے سر کی چوٹ تو برداشت کر گئے تھے،مگر اس بات کا صدمہ برداشت نہ کر سکے تھے اور زمین پر بے ہوش گرے ہوئے تھے۔
٭۔ ۔ ۔ ٭
ہاہاہاہا۔۔۔۔ کیا خوب نقشہ کھینچا ہے
جواب دیںحذف کریںشکریہ۔۔۔۔۔!!! :(
جواب دیںحذف کریں