سفر آخرت (حصہ پنجم)

میرا سوال ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ میری قبر میں اچانک روشنی آگئی اور ایک ایسی خوشبو پھیل گئی کہ ایسی خوشبو میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں سونگھی تھی۔

اسی روشنی سے آواز آئی: السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ! میں نے کہا: وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ! تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں سورۃ الملک ہوں۔ میں اس لیے آئی ہوں کہ اللہ سے تمھارے لیے مدد طلب کروں کیونکہ تم نے میری حفاظت کی تھی اور تمھارے رسولﷺ نے تمھیں بتا دیا تھا کہ جو کوئی سورۃ الملک پڑھے گا، قبر میں وہ اس کے لیے نجات کا ذریعہ ہوگی۔

میں بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا: میں نے بچپن میں تمھیں حفظ کر لیا تھا اور میں ہمیشہ نماز میں اور گھر میں تمھاری تلاوت کیا کرتا تھا، مجھے اس وقت تمھاری اشد ضرورت ہے۔

اس نے کہا: ہاں اسی لیے تو میں آئی ہوں کہ اللہ سے دعا کروں کہ وہ تمھاری مشکل کو آسانی میں بدل دے لیکن تم سے ایک غلطی ہوئی ہے کہ تم نے لوگوں کے قرضے ادا نہیں کیے ہیں۔

میں نے پوچھا: نجات کا کوئی طریقہ ہے؟

اس نے کہا: تین باتوں میں سے کوئی ایک بات تمھارا مسئلہ حل کر سکتی ہے۔

میں نے جلدی سے کہا: وہ کیا ہیں؟

اس نے کہا: پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے کوئی کاغذ لکھ کر چھوڑا ہے، جسے دیکھ کر تمھارے ورثاء وہ قرضے ادا کر دیں؟

ورثاء کا نام سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ مجھے تمام گھر والے والد،والدہ، بیوی، بچے، بھائی اور بہن یاد آگئے۔ پتا نہیں میرے بعد ان کا کیا حال ہوگا؟ میری چھوٹی بچی جس سے میں نے چاکلیٹ کا وعدہ کیا تھا۔ اب کون اس کو چاکلیٹ لے کر دے گا؟ میری بیوی کو لوگ بیوہ کہیں گے۔ کون ان کا خیال رکھے گا؟

سورۃ الملک نے پوچھا: لگ رہا ہے، تم کوئی چیز یاد کر رہے ہو؟

میں نے کہا: مجھے اپنے اہل و عیال اور بچے یاد آئے کہ نجانے میرے بعد ان کیا کیا حال ہوگا؟

سورۃ الملک نے کہا: جس نے انھیں پیدا کیا ہے، وہی روزی بھی دے گا اور وہی نگہبان بھی ہے۔

سورۃ الملک کی اس بات سے مجھے کافی تسلی ہوئی۔ اس کے بعد میں نے پوچھا: کیا میں جان سکتا ہوں کہ میرے اوپرکل کتنا قرضہ ہے؟

سورۃ الملک نے بتایا: میں نے فرشتے سے پوچھا تھاتو اس نے بتایا کہ تم ایک ہزار سات سو ریال کے مقروض تھے۔ ایک ہزارتمھارے اس دوست کے ہیں، جس کا نام ابو حسن ہے اور باقی مختلف لوگوں کے ہیں۔

میں نے پوچھا: مختلف لوگ کون ہیں؟

اس نے کہا: دراصل بلوغت سے لے کرموت تک تم سے کئی بار اس حوالے سے کوتاہی ہوئی ہےاور اس طرح قرضہ بڑھتا گیا۔مثلاََپانچ ریال اس دکاندار کے ہیں جس سےتم نے کوئی چیز خریدی تھی، اس وقت تمھاری عمر 15 سال تھی۔تم نے اسے کہا: پیسے کل دے دونگا اور پھر تم نے نہیں دیے۔

اسی طرح لانڈری والے سے تم نے کپڑے دھلوائےلیکن اس کو ادائیگی کرنا بھول گئے۔ اسی طرح اس نے ایسے کئی لوگوں کے نام بتا دیے جن کے پیسے مجھ پر قرض تھے اور مجھے بھی وہ اب یاد آ تے جا رہے تھے۔

سورۃ الملک نے کہا: لوگوں کے حقوق کو معمولی سمجھنے اور ان سے تساہل برتنے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ کیا تمھیںتمھارے رسول ﷺنے خبر نہیں دی تھی کہ شہید کے اعمال بھی روک لیے جائیں گے، جب تک کہ اس کا قرضہ ادا نہیں ہوگا!

میں نے کہا: نجات کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟

اس نے کہا: پہلا حل تو یہ ہے کہ جس کا قرضہ ہے، وہ اپنا قرضہ معاف کر دے۔

میں نے کہا: ان میں سے اکثر تو ان قرضوں کو بھول گئے ہیں، جس طرح میں بھول گیا تھا اور ان کو میرے مرنے کی خبر بھی نہیں ہو گی۔

اس نے کہا: پھر دوسرا حل یہ ہے کہ تمھارے ورثاء تمھاری طرف سے ادائیگی کر دیں۔

میں نے کہا: ان کو میرے قرضوں کی اور میری تکلیف کی کہاں خبر ہے؟ جب کہ میں نے کوئی وصیت نامہ بھی نہیں چھوڑا کیونکہ موت نے اچانک مجھےآلیا تھااور مجھے ان ساری مشکلات کا علم بھی نہیں تھاجو مجھے اب درپیش ہیں۔

سورۃ الملک نے کہا: ایک اور حل ہو سکتا ہے، لیکن وہ میں تھوڑی دیر بعد تمھیں بتا ؤں گی اور اب میں جاتی ہوں۔

میں نے کہا: خدارا مت جاؤ کیونکہ تمھارے چلے جانے سے قبر دوبارہ تاریک ہو جائے گی، جو میری موجودہ تکلیف میں اضافے کا باعث بنے گی۔

سورۃ الملک نے کہا : میں زیادہ دیر کے لیے نہیں جا رہی ،بلکہ تمھارے لیے کوئی حل نکالنے کے لیے جا رہی ہوں۔ اس کے بعد سورۃ الملک چلی گئی اور میں گھپ اندھیرے میں اکیلا رہ گیا۔ ہیبت اور تکلیف کے باوجود میں نے کہا: یا ارحم الراحمین! اے اجنبیوں کے مولیٰ اور تنہائی کےساتھی۔ اس قبر کی تاریکی میں میری مدد کر لیکن مجھے خیال آیا کہ میں تو دارالحساب میں ہوں۔ اب دعاؤں کا کیا فائدہ؟

زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ایک مانوس آواز سنی۔ یہ میرے والد بزرگوار کی آواز تھی جو کہہ رہے تھے : السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ لیکن میرا جواب انھیں کون پہنچاتا؟ پھر انھوں نےاللہ سے میرے لیے مغفرت اور عذاب ِ قبر سے نجات کی دعا کی۔ پھر انھوں نے روتے ہوئے کہا: اے اللہ! میں اپنےاس بیٹے سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔

میرے والد صاحب جب دعا مانگ رہے تھے تو دعا کے دوران ایک نہایت تیزروشنی میری قبر میں آئی۔ یہ دراصل رحمت کا فرشتہ تھا جو میرے والد کی دعا کو نوٹ کر رہا تھا اور جب تک میرے والد میری قبر سے نہیں گئے، وہ میرے ساتھ رہا۔

جب میرے والد صاحب چلے گئے تو فرشتے نے کہا: تیرے والد کی دعا آسمانوں تک جائے گی اور انشاءاللہ ،اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا کیونکہ والد کی دعا اپنے بیٹے کے لیےمقبول ہوتی ہے۔

میں نے تمنا کی کہ کاش میرے والد میری قبر پر زیادہ دیر کے لیے ٹھہرتے اور دعا کومزید طول دیتے کیونکہ ان کی دعا کی وجہ سے مجھے کافی آرام ملا۔

میں نے فرشتے سے پوچھا: کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟

فرشتے نے کہا: پوچھو!

میں نے پوچھا: مجھے مرے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے؟

اس نے کہا:: تمھاری وفات کو آج تین دن گزر گئے ہیں اور اس وقت ظہر کا وقت ہے۔

میں نے حیرانگی سے کہا: تین دن اور اتنے سارے معاملات اور واقعات؟ یہاں میری قبر میں تاریکی ہے جبکہ باہر کی دنیا روشن ہے؟

فرشتے نے کہا: تمھارے سامنے بہت لمبا سفر ہے، اللہ اسے تمھارے لیے آسان کر دے۔

میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور زاروقطار رونے لگا اور ایسا رویا کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی زندگی میں اتنا رویا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اتنا خطرناک سفر اور دنیا میں میری اس سفر کے لیے اتنی غفلت!

فرشتے نے جاتے وقت بتا یا کہ قبر میں موجود روشنی تیرے والد کی دعا کی وجہ سے ہے اور یہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ مجھے پتا چلا کہ والد کا میری قبر تک آنا میرے لیے باعث رحمت ہے۔

میں نے تمنا کی کہ کاش میرے والد صاحب میری آواز سن لیں اور میں انھیں بتادوں کہ والد صاحب! میرے قرضوں کی ادائیگی کر دیں اور میری طرف سے صدقہ کر دیں۔ اللہ کے واسطے! میرے لیے دعا کریں۔ لیکن کون تھا جو انھیں میری یہ بات بتا تا؟

میں نے محسوس کیا کہ بعض اوقات میرے جسم کی گرمی کم ہوجاتی تھی اور پھر اچانک سے بڑھ جاتی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس کا تعلق میرے حق میں لوگوں کی دعائیں ہیں۔

اچانک میری قبر میں پھر وہی روشنی آئی جو اس سے پہلے میں دیکھ چکا تھا یعنی سورۃ الملک کی۔سورۃ الملک نے بتایا: تمھارے لیے دو خوشخبریاں ہیں۔

میں نے اشتیاق سے پوچھا: کیا ہیں؟

سورۃ الملک نے بتایا: تمھارے دوست نے اللہ کی خاطر تمھارا قرضہ معاف کر دیا ہے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ میری قبر کی گرمی کم ہوجانے کی وجہ شاید یہی تھی۔

میں نے پوچھا: دوسری بشارت کیا ہے؟

اس نے کہا: میں نے اللہ سے بہت درخواست کی لیکن انسانوں کے حقوق وہ معاف نہیں کرتا۔ البتہ اللہ نے ایک فرشتہ بھیج دیا ہے جو تیرے رشتہ داروں میں سے کسی کو خواب میں آئے گا تاکہ وہ تمھارے قرضوں کے متعلق سمجھ جائیں۔

پھر اس نے پوچھا: تمھارے خیال میں کون بہتر ہے جس کو خواب میں وہ فرشتہ کسی شکل میں آئے اور وہ اس خواب کو سمجھ کر قرضے کی ادائیگی کرے۔
میں نے اپنی والدہ کے بارے میں سوچا لیکن پھر سوچا کہ اگر انھوں نے مجھے خواب میں دیکھا تو رونا شروع کر دے گی اور خواب کی تفسیر نہیں سمجھ سکے گی، پھر میں نے تمام رشتہ داروں کے متعلق سوچا۔ ان سب میں مجھے میری بیوی موزوں ترین لگی کیونکہ وہ خوابوں کو ہمیشہ اہمیت دیا کرتی تھی۔ میں نے کہا: میری بیوی اگر مجھے خواب میں دیکھ لے تو ہوسکتا ہے، وہ اس کی تفسیر سمجھ جائے۔

سورۃ الملک نے کہا: میں متعلقہ فرشتے کو اطلاع دیتی ہوں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ تمھاری مشکل کو آسان کر دے۔

حصہ ششم پڑھیے ۔۔۔۔۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.