اسٹار پلس کے ڈرامے
خبردار
یہ مضمون پڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ
٭ اس وقت کوئی ڈرامہ مثلاً ’’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ تو نہیں آرہا؟۔ ۔ ۔
٭ کہیں لائٹ تو نہیں چلی گئی؟۔ ۔ ۔
٭ آپ کو پڑھنا تو آتا ہے نا!۔ ۔ ۔
اگر ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو یہ مضمون نہ پڑھیں۔ ۔ ۔ پہلے ڈرامے اور دوسرے کاموں سے فارغ ہو
لیں پھر اس مضمون کا مطالعہ کریں!۔ ۔ ۔ شکریا
آج کے دور میں ٹی وی نہ صرف گھریلو تفریح کا اچھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کی حیثیت گھر کے ایک فرد جیسی ہو چکی ہے۔جس کے بغیر گھر نامکمل سا لگتا ہے۔ایک طرف اگر دنیا جہاں کی معلومات گھر بیٹھے ملتی ہیں تو دوسری طرف اس کے تفریحی پروگرام کسی طرح بھی طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔آج ملک کے شہری علاقوں کی متوسّط درجے کی ہر فیملی کے گھر میں شام سات بجے سے گیارہ بجے تک خواتین اور اکثر مرد حضرات بھی ٹی وی کے سامنے بغیر پلکیں جھپکائے بیٹھے رہتے ہیں، وہیں کھاتے ہیں، وہیں پیتے ہیں،غرض یہ کہ لیٹرین جانے کی ضرورت بھی پیش آئے تو وقفہ آنے کا انتظار کرتے ہیں۔کبھی کبھی تو ٹیلی فون یا دروازے کی گھنٹی گھنٹوں بجتی ہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
ایک خاتون تو ڈراموں کے دوران بچے ّکو سیریلیکس کھلاتے کھلاتے کئی بار چمچہ اس کی ناک اور کان میں ڈال چکی ہیں۔معصوم بچہ ّ بھی اب اِن حادثات کا اتنا عادی ہوگیا ہے کہ چمچے کا رُخ غلط سمت دیکھ کر خود ہی ہاتھ سے پکڑ کر سیدھا کر لیتا ہے۔
ان ڈراموں کا رنگ ہماری زندگی پر اتنا چھونے لگا ہے کہ ہر لڑکی اپنے آپ کو ’’کشش‘‘، ہر بہو اپنے آپ کو ’’پاروتی‘‘ اور ہر ساس اپنے آ پ کو ’’تُلسی‘‘ سمجھنے لگی ہے۔شادی کے لیے اب لڑکی والوں کو لڑکا ’’سوجل‘‘(اب تُشال) جیسا چاہئے ہوتا ہے اور لڑکے والوں کو لڑکی ’’کُم کُم‘‘جیسی۔آج بچے ّ کسی شادی میں جاتے ہیں تو پوچھتے ہیں ’’یہ کیسی شادی ہے؟ ۔ ۔ ۔ نہ ’’ڈانڈیاں‘‘کھیلی گئیں، نہ ’’پھیرے‘‘ لگے؟‘‘۔ ۔ ۔ کچھ بچے ّ تو ایک دوسرے کو’’دل‘‘ دیتے بھی پائے گئے۔اب کسی بچے ّ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ ویلن ٹائن ڈے کیا ہوتا ہے؟اُسے خود پتا ہوتا ہے۔
پہلے فیشن برسوں میں بدلتا تھا۔ اب اسٹار پلس کے ہر ڈرامے کے ساتھ روز بدلتا ہے۔ پہلے مرد ٹخنوں سے اوپر شلوار پہنتے تھے،اب خواتین پہنتی ہیں۔بازاروں میں ’’کُم کُم ‘‘ کی چوڑیاں، ’’کشش‘‘ کی سینڈیلیں اور ’’تُلسی‘‘ کی ساڑھیاں تک ملنے لگی ہیں۔بائی دا وے۔۔۔۔ میں نے تو ’’کُم کُم‘‘ چھالیہ بھی کھائی ہوئی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اسٹار پلس کے ڈرامے جہاں ’’رنگین ‘‘ اور ’’گلیمر‘‘ سے بھرپور ہوتے ہیں وہیں ہندوانہ مذہبی شعائر کے اعلیٰ تربیتی مراکز بھی ہیں۔ان میں نہ صرف ہندومت کے نظریات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ گھر بیٹھے لوگوں کو مفت ہندوانہ مذہبی رسومات کی تربیت دی جارہی ہے۔ ان کے شاندار نتائج سے روگردانی بھی نہیں کی جاسکتی ۔ ان ڈراموں کا ہی اثر ہے جو اب آہستہ آہستہ ہم لوگ اپنے اسلامی دنوں کو تو بھولتے جارہے ہیں مگر ہمیں ہند ؤوں کے خاص دن یاد رہتے ہیں۔
شاید ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا ۔ہم نے اگر اب بھی نہ سوچا، اب بھی نہ سمجھا اور اب بھی نہ جانا تو شاید میڈیا کے ذریعے پھیلتا ہوا یہ ثقافتی زہر ہمارے معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔آج اگر ایک ناپختہ ذہن بچہ ہندوانہ مذہبی رسومات کومعمولاتِ زندگی سمجھ کرسیکھ رہا ہے تو کل وہ کس کے گریبان میں ہاتھ ڈال کراپنا ’’اسلامی تشخّص ‘‘ تلاش کرے گا؟
میرا خیال ہے کافی لمبا ’’جلسہ‘‘ ہوگیا۔ اب مجھے اجازت دیں۔میں نے ابھی ’’کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی ‘‘ بھی دیکھنا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون اسٹار پلس کریز (پاگل پن) زمانے کی یادگار ہے اور پرانے بلاگ کی بیک اپ سے حاصل ہوا ہے۔ اب تو اسٹار پلس کا زمانہ لد چکا۔۔!۔