گلوبلائزیشن کیا ہے؟

گلوبلائزیشن سے مراد مختلف ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کا وہ پھیلاﺅ ہے جس کے نتیجے میں ایک عالمی معیشت تخلیق ہوئی ہے۔ جس نے ہر قومی معیشت کو دیگر معیشتوں کا محتاج بنا دیا ہے۔ کوئی بھی ملک خود کفیل نہیں ہے۔سب کو دوسرے ممالک کے ساتھ پیداواری اشیاءکے تبادلے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک مربوط عالمی معیشت بذات خود کوئی منفی چیز نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر ایک ہم آہنگ عالمی منصوبہ بندی پر مبنی معیشت پروان چڑھ سکتی ہے۔ایک ایسے معاشی نظام کے تحت جس کی بنیاد سماجی انصاف اور ذرائع پیداوار(فیکٹریوں‘ ٹیکنالوجی‘ سرمایہ) کی اجتماعی ملکیت پر ہو۔ یہ عالمی انسانیت کےلئے ایک زبردست پیش رفت کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام ذرائع پیداور کی نجی ملکیت اور ہر انفرادی سرمایہ دار کی زیادہ سے زیادہ منافع کی ہوس کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ چیز ترقی کو ناممکن بنا کر ایک ایسی صورتحال پیدا کر دیتی ہے جس میں مٹھی بھر لوگ بے حد وحساب دولت جمع کر لیتے ہیں جبکہ کرہ ارض پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کا معیار زندگی کم سے کم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔


اس وقت کرہ ارض پر چھ ارب انسان موجودہیں جبکہ دس ارب انسانوں کےلئے خوراک پیدا کی جا سکتی ہے۔تاہم بھوک‘فاقہ کشی اور غربت وافلاس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔80 کروڑ افراد غذائی کمی کا شکار ہیں جبکہ دو ارب چالیس کروڑ افراد اغربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔مائیکرو سافٹ کمپنی کے تین اعلیٰ ترین عہد یداروں کے پاس اس قدردولت موجود ہے جو امریکی حکومت کی طرف سے غربت کے خلاف جاری پروگراموں کےلئے مختص کردہ رقم سے زیادہ ہے۔ مختلف معیشتوں کے درمیان اشیاءکا تبادلہ منصفانہ بنیادوں پر نہیں ہوتا۔ مٹھی بھر ملٹی نیشنل کمپنیاں جوبے پناہ طاقت کی مالک ہیں زیادہ تر دولت پر قابض ہیں(کرہ ارض کی مجموعی داخلی پیداوار کا چالیس فیصد اور تجارت کا ستر فیصد ) اور باقی دنیا پر اپنے مفادات کی تکمیل کےلئے من مانیشرائط مسلط کرتی ہیں۔ عالمی معیشت کی تقسیم سے سبھی ممالک کو برابر کا فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ہوتا یہ ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک کو ترقی یافتہ ممالک اور عالمی اجارہ داریوں کے ہاتھ اپنا خام مال(تیل‘معدنیات‘ زرعی اجناس)اور محنت انتہائی سستے داموں فراہم کرنا پڑتی ہیں۔ اس عمل سے عدم مساوات کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی ہے۔ غریب ممالک ایسی پیداوری اشیاءکے تبادلے پر مجبور ہوتے ہیں جن کی تیاری میں زیادہ محنت صرف ہوئی ہوتی ہے(تکنیکی پسماندگی کی وجہ سے) جبکہ ان کے عوض وہ ترقی یافتہ ممالک اور سامراجی اجارہ داریوںسے ایسی اشیاءلیتے ہیں جو مہنگی ہوتی ہیںجبکہ ان کی تیاری بہت آسان ہوتی ہے(ذرائع پیداوار کی معیاری اور مقداری حوالے سے اعلیٰ سطحی کے باعث)۔ اس عمل میں کون کھوتا ہے اور کون پاتا ہے یہ بات بالکل واضح ہے۔علاوہ ازیں عالمی معیشت مغربی طاقتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیرنگیں ہے اور وہ اپنی مرضی کی قیمتیں‘تجارتی قوانین اور معاشی پالیسیاں باقی دنیا پر مسلط کر سکتی ہیں۔ مثال کے طورپر 1960 ءمیں ایک امریکی ٹریکٹر خریدنے کےلئے تنزانیہ کو کافی کے دو سو تھیلے دینا پڑتے تھے۔ تیس سال بعد ایک امریکی ٹریکٹر کی خریداری کےلئے تنزانیہ کو چھ سو سے زائد کافی کے تھیلے دینا پڑتے ہیں۔

دنیا میں مٹھی بھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا غلبہ سرمایہ داری کے ارتقاءکا فطری نیتجہ ہے جوکہ زیادہ انفرادی منافع کی لالچ کی بنیاد پر قائم ہے۔اسے حاصل کرنے کےلئے سرمایہ دار مجبور ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کریں‘اپنی پیداوار میں اضافہ کریں‘فروخت بڑھائیں‘نئی منڈیاں تلاش کریںاور موجودہ منڈیوں کے استحصال میں اضافہ کریں اور سستی محنت اور سستے خام مال کے حصول کےلئے نئے ممالک میں سرمایہ کاری کریں وغیرہ وغیرہ۔ نتیجے کے طورپر دولت چند ہاتھوں میں جمع ہو گئی ہے یعنی ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کی مٹھی بھر بڑی بڑی کارپوریشنوں کے پاس جنہوں نے دنیا پرغلبہ حاصل کر لیا ہے۔جب ان کےلئے محض معاشی ذرائع سے اپنی شرائط منوانا ممکن نہیں رہتا تو ملٹی نیشنل کمپنیاں سامراجی ممالک کے سیاسی اور فوجی اداروں(امریکہ ‘یورپ اور جاپان جیسی بڑی طاقتوں کی حکومتوں‘پارلیمانی‘قوانین اور افواج ) کو اپنے مقاصد کے حصول کےلئے استعمال کرتی ہیں۔ اکثر اوقات مفادات کو چھپانے کےلئے”انسانیت کے مفادات“کے دفاع کی آڑ میں مداخلت کرتی ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں ہم یوگو سلاویہ‘ افغانستان اور عراق وغیرہ میں اسی قسم کی’انسانی بہبود کےلئے کی جانے والی بمباریوں‘ کے نمونے دیکھ چکے ہیں۔ جنہیں بذات خود بڑی طاقتوں نے تخلیق کیا تھا اور وہی ان پر غالب ہیں۔ (عالمی مالیاتی فنڈ‘عالمی بینک‘ نیٹو‘اقوام متحدہ وغیرہ)گلوبلائزیشن اس نظام کی حقیقی نوعیت کو چھپانے کےلئے نقاب کاکام کرتی ہے۔موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی تعریف کےلئے جس کا خاصہ بین الاقوامی سطح پر محنت کش طبقے اور دنیا بھر کی اقوام کاچند طاقتوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں استحصال ہے‘سامراج سے بہتر کوئی اصطلاح نہیں۔

غیر مساویانہ تبادلہ جس نے غریب ممالک کو غربت اور افلاس کی دلدل میں دھکیل دیا ہے انہیں بڑی طاقتوں یا ان کے تخلیق کردہ مالیاتی اداروں (عالمی مالیاتی فنڈ‘عالمی بینک وغیرہ) سے قرضے لینے پر مجبور بھی کرتا ہے جس سے وہ مکمل طورپر غلام ہو کر رہ جاتے ہیں۔اپنے قرضوں کی وجہ سے وہ قرضے دینے والے اداروں کی جانب سے ان پر مسلط کئے جانے والے معاشی منصوبوں اور بین الاقوامی تعلقات کو قبول کرلینے پر مجبور ہوتے ہیں۔عالمی مالیاتی فنڈ‘ عالمی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے تمام ادارے سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ بڑی طاقتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ان اداروں کو محض اسی وجہ سے رقوم فراہم کرتی ہیں کیونکہ ان اداروں پر انہی کا غلبہ ہے اور وہ ہی ان کی پالیسیوں کا تعین کرتی ہےں۔ان اداروں کی اصلاح کرنا یا ان کو جمہوری بنانا قطعاً ناممکن ہے کیونکہ اگر یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کےلئے سود مند نہ رہے تووہ انہیں رقوم کی فراہمی بند کرکے نئے ادارے تخلیق کر لیں گے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طاقت کی بنیاد ذرائع پیداوار پر ان کا قبضہ اورملکیت ہے یعنی مشینری ‘ فیکٹریوں‘زمینوںاور سرمائے کی ملکیت۔جب تک ان طفیل خوروں کو بے دخل کر کے ان کی دولت کو عوام کے جمہوری کنٹرول میں نہیں دیا جاتا موجودہ صورتحال کی اصلاح کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔

عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کی جانب سے نام نہاد ”امداد“حاصل کرنے والے ممالک پر جو پالیسیاں مسلط کی جاتی ہیںوہ وہی ہیں جو دنیا بھر کے سرمایہ دار اپنے منافعوں میں اضافے کےلئے کرتے ہیں یعنی ریاست کی جانب سے فراہم کی جانے والی تعلیم اور صحت عامہ کی سہولتوں پر حملہ ‘ اجرتوں میں کمی‘ چھانٹیاں ‘پینشنوں اور دیگر مراعات میں کمی‘ لیبر قوانین میں اصلاحات‘پبلک سیکٹر میں چلنے والی کمپنیوں کی نجکاری وغیرہ۔ غریب ترین ممالک میں ان پالیسیوں پر اور بھی زیادہ تیز رفتاری سے عمل درآمد ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں ان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجہ میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہو تی ہے۔ غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں ماحول کی تباہی کا سلسلہ اور آگے بڑھتا ہے۔
روزنامہ چنگاری سے لیا گیا۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

ابھی تک ایک تبصرہ ہوا ہے گلوبلائزیشن کیا ہے؟”

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.