فروری 2015

کرکٹ ورلڈکپ اور ہماری سازشی تھیوری

ہمارا بحیثیت قوم المیہ ھے کہ ہم اپنی غلطیاں اور ناکامیاں تسلیم نہیں کرتے اور دوسروں کی کامیابیوں پر انھیں کھلے دل کے ساتھ مبارکباد دینے کے بجائے جلنے اور حسد کرنے لگ جاتے ہیں اور ان کی کامیابی کے پیچھے ہمیں سازش نظر آنے لگتی ھے.

ورلڈکپ کو ہی لیجئے!  ہماری ٹیم خراب کھیل کر ہار رہی ھے اور دوسری ٹیمیں محنت کر کے اور اچھا کھیل پیش کر کے جیت رہی ہیں تو ہم اسے بگ تھری اور آئی سی سی کی ملی بھگت قرار دے کر ورلڈکپ کے میچز کو فکسڈ قرار دے رہے ہیں.

اپنی کمیاں اور کوتاہیاں تسلیم کریں اور مان لیجئے کہ فی زمانہ ہماری ٹیم اسکل وائز کھیل کے تینوں شعبوں میں انتہائی کمزور ھے اور دوسری ٹیمیں ہم سے بہت بہتر ہیں.

اس لیے  ورلڈکپ کے میچز کو انجوائے کیجئے. اس ورلڈکپ میں پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ کسی ٹیم کو فیوریٹ قرار نہیں دیا جا سکتا. آئی ریکن یہ اب تک کا سب سے دلچسپ ورلڈکپ ہوگا!

#CWC2015

برداشت مزاج سے ، صبر و تحمل ہاتھ سے گیا

جب زندگی مصیبتوں اور پریشانیوں کی مستقل آماجگاہ بن جائے ، اپنا آپ غیر محفوظ محسوس ہو، مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو اور انسان ہر لمحہ عدم تحفظ کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو مزاج میں برداشت اور اعمال میں صبر  و تحمل کہاں سے پیدا ہوگا؟ ہمارے ملک میں بد امنی ، ابتر معاشی صورتحال اور صحت مند تفریح کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے عمومی رویوں میں عدم برداشت ، چڑچڑاپن اور کرختگی آجانا کوئی انہونی بات نہیں۔

 "پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے۔" ہمارے حکمران ٹیپ کا یہ مصرعہ دہراتے دہراتے نہیں تھکتے ۔ ایسے حالات میں  پاکستان کا ہر شہری خود کو غیر محفوظ اور اپنے مستقبل سے مایوس نظر آتا ہے۔ مایوسی کے اس عالم میں چھوٹی اور معمولی باتیں بھی ہمارے مزاج پر گراں گزرتی ہیں اور لڑائی جھگڑے اور بے جا بحث و مباحثے روزمرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ برداشت ، صبر و تحمل جیسے اعلیٰ اخلاق ہمارے رویوں اور افعال سے مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر انسان جلدی میں ہے۔ جیسے اگر اس نے کسی معاملہ میں صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا تو اس کی سبکی ہو جائے گی اور لوگ اسے بزدل یا شکست خوردہ سمجھیں گے۔ 

ایک دوسرے کے مسالک اور اختلافِ رائے کو برداشت کرنا اور آپس میں بھائی چارے اور اُخوت کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارے علماء، بزرگوں ، اساتذہ اور والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کی اس نہج پر رہنمائی کریں کہ اُن کے اندر ایک دوسرے کی آراء کو برداشت کرنے اور باہمی ہمدردی اور بھائی چارے کے جذبات فروغ پائیں۔ حکومتِ وقت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردی اور بدامنی پر قابو پائے اور ملک کو غیر یقینی صورتحال سے نکالے تاکہ لوگوں کے اندر تحفظ کا احساس پیدا ہو اور وہ ذہنی طور پر یکسو اور مضبوط ہو کر معاشرے میں مثبت جذبات کے ساتھ اپنی زندگیاں گزار سکیں۔

نوٹ: یہ مضمون روزنامہ جنگ کے صفحہ "نوجوان" میں 7 فروری 2015ء کو شائع ہوا۔ اخبار کا اسکین شدہ صفحہ نیچے دیا گیا ہے۔

تصویر پر کلک کر کے اصل سائز میں دیکھیں

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.