دسمبر 2013

کس نے بنایا؟ (بچوں کی نظم)

ہم سب کو کس نے بنایا؟

 بچوں کی معصومانہ اردو نظم جو اردو کے چاہنے والے "بڑے" بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ یہ میٹھی حمد باری تعالیٰ اس اُمید کے ساتھ پیش ِ خدمت ہے کہ آپ کو ضرور پسند آئے گی۔ انشاءاللہ!۔۔۔

اپنی رائے سے آگاہ کرنا ہرگز نہ بھولیے گا!۔۔۔شکریہ






نظم کے بول متن کی صورت میں پیش خدمت ہیں۔۔

کس نے بنایا پھولوں کو؟
اللہ نے بنایا پھولوں کو
ہم سب کے لیے

کس نے بنایا تتلی کو؟
اللہ نے بنایا تتلی کو
ہم سب کے لیے

کس نے بنایا مچھلی کو؟
اللہ نے بنایا مچھلی کو
ہم سب کے لیے

کس نے بنایا سورج کو؟
اللہ نے بنایا سورج کو
ہم سب کے لیے

کس نے بنایا چاند کو
اللہ نے بنایا چاند کو
ہم سب کے لیے

کس نے بنایا ہم سب کو؟
اللہ نے بنایا ہم سب کو
ہم سب کے لیے

اللہ تعالیٰ کا ذکر بڑا اچھا کام ہے

(ترجمہ) "اور اللہ کا ذکر بڑا اچھا کام ہے۔"

اللہ کے ذکر سے بہتر اور کوئی کام نہیں ہے اور ذکر سے مقصد اللہ کی یاد ہے۔ اس کو یاد کرتے رہنا اور ہر وقت اللہ کا خیال رکھنا تاکہ کوئی کام اللہ کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔ جس قدر ہم اللہ تعالیٰ کو یاد رکھیں گے، اسی قدر گناہوں سے بچیں گے اور گمراہ نہیں ہو سکیں گے۔

ہم اپنے گھروں میں مجلسیں آباد کرتے ہیں مگر اپنے دل کی بستی کی کچھ بھی خبر نہیں۔ چراغاں کرتے ہیں مگر دل کی اندھیاری کو دُور کرنے کے لیے کوئی چراغ روشن نہیں کرتے!...... پھولوں کے ہار اور گلدستے سجاتے ہیں لیکن ہمارے اعمالِ حسنہ کے پھول جو مُرجھا رہے ہیں، ان کی فکر نہیں کرتے!.....عرقِ گلاب اور عطر سے دیواروں اور کپڑوں کو معطر کرتے ہیں مگر دینِ اسلام کی عطر بیری سے روح محروم ہے۔

اللہ کا ارشاد ہے:

(ترجمہ) "اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے۔"  (سورہ القصص)

(ترجمہ) "اور اس خدائے زندہ پر بھروسہ رکھو جو کبھی نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔"

(ترجمہ)"اللہ پر بھروسہ رکھو، تم تو حقِ صریح پر ہو۔"

اور حقِ صریح پر رہنے والے محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کے لیے یہ آیت اللہ نے نازل کی۔ اس لیے شمعِ ہدایت کی اتباع ہی "حقِ صریح" اور "صراطِ حق" ہے۔

"صراطِ حق" مصنفہ: عرشیہ علوی

چند مجرب نسخے

قوت ِ دل، دمہ و سانس کے مرض، شوگر، بواسیر، بلڈ پریشر اور ہر قسم کے درد کے لیے چند مُجرب دعائیں ۔۔۔۔ 

 
 *******




اے میرے نکتہ چینو!

(خلیل جبران ۔۔۔۔۔ بیسویں صدی کا عظیم شاعر اور فلسفی۔ روح کی وہ آواز جو لبنان کی سرزمین سے اُبھری اور ہر انسان کی روح تک جا پہنچی۔ ایک فکر جس نے ہر ذی حس انسان کو جھنجھوڑ کے جگا دیا اور جس کا فن روح کے اندر جذب ہو کر امر ہوگیا۔

زیر نظر اقتباسات خلیل جبران کے شہہ پاروں سے ماخوذ ہیں جو ایک طرف تو ہمیں متعدد حقائق سے آگاہی بخشتے ہیں اور دوسری طرف خلیل جبران کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں۔ بلاشبہ "تخلیقاتِ خلیل جبران" دنیائے ادب میں بے مثال ہے ) ۔

٭------٭

اے میرے نکتہ چینو۔۔۔۔مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ تمھیں اس محبت کی قسم جو تمھاری روح کو تمھارے محبوب سے ملا دیتی ہے۔ اس جذبہ کی قسم جو ماں کے دل میں محبت پیدا کرتا ہے اور تمھارے دلوں کو ایک مقدس پیار عطا کرتا ہے۔ مجھے چھوڑ دو میرے حال پر۔ مجھے تنگ نہ کرو۔ مجھے میرے روتے ہوئے دل کے ساتھ چھوڑ دو۔ مجھے میرے خوابوں کے سمندر میں تیرنے دو۔ کل کا انتظار کرو۔ اس لیے کہ کل میرے ساتھ جو وہ چاہے کرنے کے لیے آزاد ہوگا۔ تمھاری عیب جوئی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ یہ تمھارے ذہنی تضاد کا نتیجہ ہے اور اس کا انجام خرابی کے سوا کچھ نہیں۔ 


میں اپنے پہلو کے اندر ایک چھوٹا سا دل رکھتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اسے اس کے قید خانہ سے باہر نکال کر اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھوں تاکہ اس کا گہرا مطالعہ کر سکوں اور اس کے راز معلوم کر سکوں۔ اس پر اپنے اعتراضات کے تیر مت چلاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ڈر کر غائب ہو جائے، قبل اس کے کہ وہ اپنے رازوں کو عیاں کر دے جو اسے حسن اور محبت نے عطا کیے ہیں۔ سورج نکل رہا ہے اور بلبل گا رہا ہے اور فضا میں مستی بکھر گئی ہے۔ میں مصنوعی ضابطوں اور اُصولوں کے جھمیلوں سے بھاگنا چاہتا ہوں۔

اے میرے نکتہ چینو۔۔۔۔مجھے اس کام سے روکنے کی کوشش مت کرو۔ مجھے جنگل کے شیروں اور وادی کے سانپوں کا خوف نہ دلاؤ، کیونکہ میری روح اس زمین پر خوف کے نام سے بھی آشنا نہیں اور کسی برائی کے سلسلہ میں کوئی تنبیہ اس وقت تک نہیں کرتی جب تک کہ واقعی برائی کا خطرہ موجود نہ ہو۔ مجھے کوئی ہدایت مت کرو۔ اس لیے کہ مصائب نے میرے دل کو کھول دیا ہے اور آنسوؤں نے میری آنکھیں صاف کر دی ہیں اور غلطیوں نے مجھے دل کی زبان سکھا دی ہے۔

اے میرے نکتہ چینو۔۔۔۔پابندیوں کا کوئی تذکرہ نہ کرو۔ اس لیے کہ ضمیر میرا منصف ہے۔ اگر میں صحیح راستہ پر ہوں تو وہ میرے فعل کو جائز قرار دے گا اور میری حفاظت کرے گا۔ اور اگر میں مجرم ہوں تو مجھے سزا دے گا۔ 

محبت کا جلوس چل رہا ہے۔ حسن اپنے جھنڈے لہرا رہا ہے۔ جوانی مسرت کے ڈھول پیٹ رہی ہے۔ میرے نکتہ چین!۔۔۔۔میں اس نظارے میں محو ہوں۔ مجھے چھیڑ کر میری یکسوئی کا خاتمہ نہ کرو۔ مجھے چلنے دو کیونکہ یہ راستہ پھولوں سے سجا ہوا ہے اور صاف ہوا سے معطر ہے۔ 

مجھے دولت اور عظمت کی کہانیاں مت سناؤ، کیونکہ میرا دل قناعت اور سکون کی دولت سے مالا مال ہے اور خدا کی عظمت سے میرا دل بھی فیضیاب ہے۔

میرے سامنے قوموں کی داستانیں بیان مت کرو۔ مجھے اُصول اور قانون کی باتیں مت سناؤ۔ میرے سامنے حکومتوں کا تذکرہ نہ کرو کیونکہ سارا جہان میرا وطن ہے اور تمام انسان میرے بھائی ہیں۔

 آؤ اس انسانیت کی بات کریں جو انسان کو جنم دے کر بانجھ ہوگئی ہے۔ جو دور پھٹے چیتھڑوں میں ملبوس اپنے بچوں کو پکار رہی ہے۔ وہ بچے جو انسان سے زیادہ قوم بن گئے ہیں۔

اے میرے نکتہ چینو۔۔۔۔میرے پاس سے چلے جاؤ۔ مجھے تمھاری ضرورت نہیں۔ تم مجھ سے میری حیات کے لوازمات چھین لینا چاہتے ہو اور مجھے  بے فائدہ باتوں میں اُلجھانا چاہتے ہو۔ اس لیے اے میرے نکتہ چین۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو!۔۔۔!۔

تخلیقات خلیل جبران

بے چاری آنکھ

ایک دن آنکھ نے کہا۔
"مجھے ان وادیوں کے پرے نیلگوں دھند سے ڈھکے ہوئے پہاڑ نظر آ رہے ہیں۔ کیا وہ خوب صورت نہیں؟"
کان نے اس بات کو سنا اور تھوڑی دیر تک غور کرنے کے بعد بولا۔
"لیکن پہاڑ کہاں ہے؟۔۔۔۔۔ مجھے تو اس کی آواز سنائی نہیں دیتی؟"
ہاتھ نے کان کی تائید کی۔
"یہاں کوئی پہاڑ نہیں ہے۔ میں اسے چھونے اور محسوس کرنے کی کوشش کر چکا ہوں لیکن یہاں کوئی پہاڑ نہیں۔"
ناک کہنے لگی۔
"یہاں کوئی پہاڑ نہیں۔ میں اس کی بو نہیں سونگھ سکتی۔"
آنکھ یہ سن کر دوسری طرف متوجہ ہوگئی۔ باقی تینوں کان، ناک اور ہاتھ آنکھ کی کم عقلی کا ماتم کرنے لگے۔
انھوں نے کہا.
"بے چاری آنکھ دیوانی ہوگئی ہے۔“

تخلیقات خلیل جبران

جغرافیہ بطور کیریئر

جوں جوں انسان تعلیم کے مدارج طے کرتا جاتا ہے توں توں معلومات کا سیلاب بھی اس کا تعاقب شروع کر دیتا ہے۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اس سیلاب سے اپنے آپ کو کتنا بچاتا ہے اور کس قدر فائد ہ اُٹھاتا ہے ۔ اسے اس بات کا خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اُسے کس چیز کا کتنا مطالعہ کرنا ہے، جو اس کے رجحان کے ساتھ ساتھ اس کے کیریئر میں بھی مدد دے سکے ۔ اسی طرح اسے یہ بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اسے کون سی چیزیں زیرمطالعہ لانی ہی نہیں چاہیئیں جو اس کے رجحان یا کیریئر سے متعلق غیر ضروری ہوں ۔تاکہ اس کا وقت ضائع نہ ہو۔ یہ سب فیصلے انسان کو اپنے حالات، رجحانات، پوزیشن اور ذمہ داریوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کرنے چاہیئیں۔کیریئر گائڈینس کے سلسلے میں ہم اس مضمون میں ایسے شعبے کا تذکرہ کریں گے جو کہ نہایت اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود عام لوگوں کی نالج میں بہت کم ہے اور وہ شعبہ ہے جغرافیہ۔۔۔۔!۔۔  

جغرافیہ کیا ہے؟                                                                                            
جغرافیہ ایک ایسی سائنس ہے جو بعض لوگوں کو تذبذب میں مبتلا کر دیتی ہے، کیونکہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جغرافیہ دان کون سی تعلیم حاصل کرتا ہے اور کیا کام کرتا ہے، جبکہ جغرافیہ دانوں کی معلومات کے شعبے اتنے ہمہ گیر ہیں کہ کوئی بھی ان کے مطالعہ سے بوریت محسوس نہیں کرتا۔ اسی سائنس کے ذریعے کرئہ ارض کی سطح کی بدلتی ہوئی خصوصیات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ 
                                          
قدرتی آثار کا مطالعہ طبعی جغرافیہ کہلاتا ہے۔ جبکہ انسانی تخلیقات کا مطالعہ ہیومن جغرافیہ کہلاتا ہے۔ ان دونوں شعبوں میں اسپیشلائزیشن کی اہمیت اس بات سے ثابت ہوتی ہے کہ بعض مغربی ممالک کی ہونیورسٹیاں طبعی اور ہیومن جغرافیہ میں علیحدہ علیحدہ ڈگریاں جاری کرتی ہیں۔ اس کے باوجود جغرافیہ ایک واحد مضمون ہے جو طبیعی ، بایولوجیکل اور سوشل سائنسز کے درمیان ایک پل کا کام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیز میں اس علم کی اہمیت کے پیش  ِ نظر جغرافیہ کے لیے علیحدہ ڈیپارمنٹس یا شعبے قائم ہیں۔جغرافیہ کی بہت سی شاخیں اور شعبے وجود میں آچکے ہیں جیسے ارتھ سائنس، جیومورفولوجی (کرئہ ارض کی بناوٹ کا علم)، کلائمو ٹولوجی (موسم کی تبدیلیوں کے کرئہ ارض پر اثرات کا علم)، کارٹوگرافی (نقشہ بنانے کی ٹیکنیک )وغیرہ ۔ اس کے علاوہ سوشل سائنسز سے متعلق بھی جغرافیہ کے کئی شعبے موجود ہیں جیسے شہری جغرافیہ (شہری جغرافیہ سے متعلق مسائل کا علم)، آبادی کا جغرافیہ ، زراعتی جغرافیہ ، سیاسی جغرافیہ وغیرہ۔                  
             
اگر آپ جغرافیہ دان بننے کا فیصلہ کریں تو آپ کے انتخاب کے لیے بہت سے شعبے موجود ہیں اور جغرافیہ کی تعلیم کی تکمیل کے بعد مختلف النوع مواقع پرائیویٹ سیکٹر اور گورنمنٹ کے اداروں میں آپ کے منتظر ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سے ادارے ہیں جہاں جغرافیہ دان اپنے آپ کو کامیابی کے ساتھ فٹ کر سکتا ہے۔                  

گورنمنٹ کی ملازمت میں جغرافیہ دان کو پی بی ایس 14 سے اسکیل 22 تک مل سکتا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں تنخواہوں کے اسکیل مختلف ہیں۔ 

تعلیمی ملازمت
اسکول ، کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں میں ،ٹریننگ اکیڈمی کے علاوہ مسلح افواج میں ملازمت مل سکتی 
ہے۔    
                                                                                                                 
ریسرچ اسسٹنٹ /کو آرڈینیٹر 
این جی اوز اور کنسلٹنٹ اداروں میں ملازمت مل سکتی ہے۔ لوکل باڈیز کے پلاننگ اور ڈویلیپمنٹ ڈپارٹمنٹ میں جیسے کے ڈی اے ، سی ڈی اے ، ایچ ڈی اے ، ایل ڈی اے۔ خصوصی طور پر ماسٹر پلان اور انوائرومینٹل کنٹرول ڈپارٹمنٹ میں۔                                                                                                      
لینڈ سرورئیرز
کے ڈی اے ، ایل ڈی اے ، سی ڈی اے کے علاوہ پرائیویٹ سروے آرگنائزیشن میں۔

ٹرانسپورٹ پلانرز
 ٹریفک انجینئرنگ بیورو یا ٹریفک کنٹرول ادارے  میں۔

کارٹو گرافرز
 سروے آف پاکستان، جیوگرافیکل سروے آف پاکستان، سول ایوی ایشن ، میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ ، سپارکو۔

 سرورئیرزاِن آئل  کمپنی
آئل  کمپنیز میں جیولوجیکل سرورئیرز کی اسامی کے لیے۔ 

جغرافیہ کی تعلیم کا حصول

ہمارے ملک میں 100 سے زائد کالجوں میں انٹر اور بیچلر کی سطح پر جغرافیہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی مختلف یونی ورسٹیوں میں بھی جغرافیہ کے شعبے موجود ہیں۔                                                                                              
جغرافیہ میں دی جانے والی ڈگری
 بی اے آنرز،ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل ، پی ایچ ڈی۔

کم سے کم تعلیمی قابلیت
 بی اے آنرز  اور بی ایس سی کے لیے انٹرمیڈیٹ ، ایم اے / ایم ایس سی کے لیے بیچلر کی ڈگری ، ایم فل/ پی ایچ ڈی کے لیے ایم اے، ایم ایس سی ۔     
                                                                                                          
تعلیم کا دورانیہ
بی اے /بی ایس سی آنرز 3 سال…ایم اے /ایم ایس سی 2سال …ایم فل 2 سے  5برس …پی ایچ ڈی 3 سے 7 برس۔    

سر ٹیفکیٹ اور مختلف ٹریننگ کورسز ان مقامات سے کیے جا سکتے ہیں، سپارکو، سروے آف پاکستان وغیرہ۔
یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائے جانے والے مضامین کی تفصیلات کچھ یوں ہیں.....

٭…کارٹوگرافی اور کمپیوٹر کارٹوگرافی
٭…میپ ورک اینڈ سروے
٭…فزیکل جغرافیہ
٭…کلائموٹولوجی ، جیو مورفولوجی

 آخر میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہر انسان کو دن اور رات میں 1440 منٹ ملتے ہیں۔ عزم کی صبح اور احتساب کی رات کے انہی 1440 منٹوں میں ہمیں اپنے اور اپنی زندگی کے  بارے میں سوچنا اور فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ یہی دولت اور وسائل کی وہ مقدار ہے جو ہر زندہ شخص کو بلاتفریق ملتی ہے ۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ اس دولت سے ہم کس قدر فائدہ اُٹھا کر کامیاب ہو پاتے ہیں۔     
                      
٭…٭

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.