اکتوبر 2013

ہوٹل مینجمنٹ

کھانا اور کھلانا، مہمانوں کی تواضع کرنا اور مسافروں کے آرام کا بندوبست کرنا ، دنیا کی قدیم ترین روایات میں شامل ہیں۔ جب یہ تمام کام تجارتی بنیاد پر کیے جائیں تو ایک فن اور پیشہ بن جاتے ہیں اور اسی فن اور پیشے کو آج کے جدید دور نے ہوٹل مینجمنٹ کا نام دیا ہے۔ دنیا بھر میں ہوٹلز کی صنعت کے فروغ سے ہر کوئی واقف ہے ۔ اس شعبے میں بہترین اور پرکشش ملازمتوں کے مواقع بھی بے حد وسیع ہیں۔ جن شعبوں میں انسانی وسائل کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، ان میں ہوٹل مینجمنٹ کا شعبہ بھی ایک اہم ترین شعبہ ہے۔

کھانا پکانے میں شیف (خانساماں) کی مدد کرنے والے معاون سے لے کر کسی اعلیٰ درجے کے فائیو اسٹارہوٹل کے منتظم اعلیٰ تک کے عہدے تک سینکڑوں افراد پر مشتمل ایک پوری ٹیم جو ہوٹل کے انتظامات اور مہمانوں کی دیکھ بھال کے لیے مستعد رہتی ہے ، کے لیے ملازمتوں کے مواقع موجود ہیں…اگر آپ اس جانب ذرا بھی دلچسپی رکھتے ہیں تو یقینا اپنی صلاحیتوں اور قابلیت سے مطابقت رکھنے والا کوئی نہ کوئی شعبہ آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کر ا لے گا۔ اس مضمون سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ ہوٹل مینجمنٹ کے شعبے میں کس نوعیت کی ذمہ داریاں لوگوں پر ہوتی ہیں اور اس قسم کے کام کے لیے کس قسم کے افراد کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔
                             
ہوٹل مینیجر: گیسٹ ہائوس، ریسٹورنٹ ، کلب یا ہوٹل وغیرہ میں اس ادارے کی پوری دیکھ بھال کرنے والا شخص مینیجر کہلاتا ہے۔ 

کیٹرنگ مینیجر: کیٹرنگ مینیجر کو مشروبات اور کھانے کی اشیاء سے متعلق اُمور کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ اس کے فرائض میں خوردنی اشیاء کی خریداری ، کھانوں کی تیاری اور تیار اشیاء کی فروخت یا انھیں مہمانوں کے سامنے پیش کرنے تک کے کاموں کی دیکھ بھال شامل ہے۔   

                                                                                                                    
ہاؤس کیپر:ہاؤس کیپر کے فرائض میں ہوٹل ، اسپتال ، کلب ، تعلیمی اداروں کے ہوسٹلز یا رہائشی اُمور کی دیکھ بھال ، انتظام و نگرانی شامل ہے۔               
                                                                                                                  
شیف: شیف ، کُک یا باورچی کا کام تو ایک ہی ہے لیکن کام کرنے کے اداروں کی نوعیت کے اعتبار سے انھیں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ہوٹل اور ریسٹورنٹ کے باورچی خانوں میں کھانا پکانے کے عمل کی نگرانی کرنے والے کو شیف اور ہاسٹلز، اسپتال میں یہی ذمہ داری انجام دینے والے کو کُک کہتے ہیں۔     
                                                                                    
کچن اسسٹنٹ: کچن کا معاون ، کھانا پکانے میں کُک کی مدد کرتا ہے۔ اسے مختلف نوعیت کے بے شمار غیر ہنرمندانہ کام کرنے ہوتے ہیں۔ جن میں کچن کی صفائی، برتنوں کی دُھلائی اور سامان کی دُھلائی سے کُک کی ہدایت کے مطابق کھانا تیار کرنے تک کے کام شامل ہیں۔ یہ معاون پکنے سے پہلے سبزی ترکاری ، گوشت ، اجناس کی صفائی کرتا ہے۔ انھیں کاٹتا ہے اور دھوتا ہے۔   
                           
کاؤنٹر سروس اسسٹنٹ: اسنیک بار، کافی شاپ، سیلف سروس، ریسٹورنٹ اور کینٹین وغیرہ میں کھانا خود کائونٹر سے لینا ہوتا ہے…اس جگہ میں کام کرنے والے کو کاؤنٹر سروس اسسٹنٹ کہتے ہیں۔                

ریسیپشنسٹ: ہوٹل میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے استقبالیہ سے واستہ پڑتا ہے۔ یہ جگہیں عام طور پر ہوٹل کے صدر دروازے کے نزدیک ترین ہوتی ہیں اور ہوٹل میں آنے اور رخصت ہونے والے مہمان سب سے پہلے اور سب سے آخر میں استقبالیہ کے کارکنوں سے ملاقات کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ذمہ داری نہایت اہم ہے۔ اس کے لیے خوش شکل، خوش لباس، خوش گفتار اور بااخلاق و متواضع ہونا ضروری ہے۔             
                                                                                 
روم اٹینڈینٹ: یہ کمروں کو صاف کرتے ہیں اور مہمانوں کے بلانے پر انھیں ضرورت کی خدمات مہیا کرتے ہیں۔ 

پورٹر: ہوٹل پورٹر مہمانوں کے لیے دروازہ کھولنے ، ان کا سامان اُٹھانے ، سامان کمروں تک یا کمروں سے گاڑی تک پہچانے ، ہوٹل کے رجسٹر میں اندراج میں اسقبالیہ کی مدد کرنے ، مہمانوں کے لیے ٹیکسی یا کرائے کی گاڑی فراہم کرنے کے کام سر انجام دیتے ہیں۔   
   
درکار صلاحیتیں:                   
ہوٹل اور ریسٹورینٹ کی صنعت بنیادی طور پر مہمان نوازی اور خدمت کی صنعت ہے۔ اس میں کام کرنے والے افراد کو دوسرے افراد کے آرام اور سہولت کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور انھیں مختلف اشیاء اور خدمات فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ ہوٹل مینیجر سے ایک معمولی پورٹر تک ، بیشتر کارکنوں کا مہمانوں سے براہ راست یا بلا واسطہ تعلق رہتا ہے۔ خوش گفتاری، خوش مزاجی ، لوگوں سے میل جول میں دلچسپی ، شائستہ ، مہذب اور با اخلاق ہونا وہ بنیادی خصوصیات ہیں جو اس پیشے میں آنے والے کی اوّلین ضرورت ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف کاموں کی نوعیت کے اعتبار سے انتظامی صلاحیت کے حامل، کام منظم طور پر کرنے والے بہتر منصوبہ ساز اور اپنے کام سے دلچسپی رکھنے والے افراد  اس پیشے میں کامیاب رہتے ہیں۔ پورٹر اور ویٹر کی ذمہ داریاں انجام دینے والے کو جسمانی طور پر بھی مضبوط ہونا چاہیئے۔ 

تربیتی ادار ے:
ہوٹل مینیجمنٹ اور اس کے متعلقہ شعبوں کی باقاعدہ تربیت فراہم کرنے والا ایک ادارہ جو کہ ’’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ٹورزم اینڈ ہوٹل مینیجمنٹ ‘‘ کے نام سے معروف ہے، یہ ادارہ وزارت سیاحت حکومت پاکستان کے زیرِ اہتمام کام کرتا ہے۔اس وقت اس ادارے میں ہوٹل مینیجمنٹ اور ٹورزم کے 17 مختلف شعبوں کے تربیت یافتہ افراد کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ ہوٹل کی صنعت کے حوالے سے پی آئی ٹی ایچ ایم کا اندازہ ہے کہ آئندہ دس سالوں میں اس صنعت میں ہر سال پندرہ سو افراد کی ضرورت ہو گی۔   
                                   
اندرون  ِ ملک ملازمت کے مواقع کے علاوہ اس شعبے میں بیرون ملک ملازمت کے بھی مواقع موجود ہیں۔ خاص طور پر مڈل ایسٹ کے ممالک اس صنعت کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں۔ اس شعبے میں ذاتی کاروبار کے مواقع بھی خاصے ہیں۔ اسنیک بار، فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ اور کیٹرنگ سروس ایسے شعبے ہیں جہاں مناسب سرمائے کے ساتھ اپنا کام کیا جا سکتا ہے۔   
                                        
ہوٹل اور ریسٹورنٹ کی صنعت میں ہمارے ہاں تنخواہوں کا کوئی بنیادی اسکیل موجود نہیں ۔ عام طور پر تنخواہیں گفتگو کے ذریعے طے کی جاتی ہیں۔                     
                                                                                                         
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ٹورزم اینڈ ہوٹل مینیجمنٹ کے تربیتی پروگرام کے علاوہ مختلف ہوٹل انٹرن شپ کے تحت ہوٹلنگ کے مختلف شعبوں میں اُمیدواروں کو 3 سال کی تربیت دیتے ہیں۔ اس تربیتی پروگرام کے داخلوں کے اشتہار اخبارات میں شائع کیے جاتے ہیں۔ 
رو

پیشے (Professions)

ہم اپنے آس پاس بے شمار لوگ دیکھتے ہیں، جو شکل و صورت، عادت و اطوار اور رہن سہن کے علاوہ اپنے اپنے ذریعہ روزگار میں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔لوگوں کے اسی ذریعہ روزگار کو ’’پیشہ‘‘کہا جاتا ہے۔ ’’پیسہ ‘‘ میں ’’سین‘‘ پر تین نقطے لگا دینے سے ’’پیشہ‘‘بن جاتا ہے۔ گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’’پیشہ‘‘ سے ’’پیسہ‘‘ ملتا ہے۔ چنانچہ ہم پیشہ کی اس طرح تعریف کر سکتےہیں:-۔۔
"وہ ذریعہ، جس کی مدد سے انسان پیسہ کماتا ہے، پیشہ کہلاتا ہے۔"

"نوٹ کریں کہ" پیشہ پیسہ کے راست متناسب ہوتا ہے۔

 حسابی شکل میں

پیشہ            پیسہ

یا انگریزی میں
Profession is directly proportional to  money


OR
Profession    Money

پیشوں کی اقسام 
(Types of Professions)
 پیشے دو طرح کے ہوتے ہیں، یا ان کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔
الف) منفی پیشے                        (ب)مثبت پیشے)

الف) منفی پیشے) 

اس قسم کے پیشے تعداد میں تو بہت کم ہیں ، مگر انھیں اپنانے سے فائدہ زیادہ اور نقصان کم ہوتا ہے… پاکستان جیسے ملک میں تو فائدہ ہی فائدہ ہے… پیسہ ہی پیسہ ہے۔انھیں ’’ناجائز پیشے‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے…بلکہ سب کچھ کہا جاسکتا ہے۔یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اسے کون سا نام دیتا ہے۔یہ پیشے کئی ایک ہیں۔ہم یہاں چیدہ چیدہ بیان کرتے ہیں۔

الف) اسمگلنگ)
یہ ایک بہت مشہور اور منظّم پیشہ ہے۔ اسمگلنگ کہیں چھُپ چھُپ کر اور کہیں کھلے عام ہوتی ہے۔ اگر کامیابی سے ہوجائے تو اتنا پیسہ ملتا ہے کہ سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس پیشے سے وابستہ شخص کو ’’اسمگلر‘‘ کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ لطیفہ ملاحظہ کریں۔

جج(ملزم سے): تم پر اسمگلنگ کا الزام ہے؟
ملزم : جی حضور!
جج: مگر تفتیش اور چھاپے کے دوران تو تمہارے ٹرک سے کچھ برآمد نہ ہوا۔
ملزم: وہ جی میں ٹرک ہی اسمگل کرتا ہوں۔

ب) رہزنی)

رہزنی، چوری،ڈاکہ ، یہ سب ایک ہی نوع کے پیشے ہیں۔اس میں اگر کامیابی سے ’’بڑا ہاتھ‘‘ مارا جائے تو پھر وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔رہزنی کے بعد رقم گننے کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اگلے دن کے اخبار ات میں پڑھی جاسکتی ہے۔رہزنی کا پیشہ اپنانے والے کو ’’رہزن‘‘ یا ’’ڈاکو‘‘ کہا جاتا ہے۔ ڈاکوئوں کو بلا وجہ برا بھلا کہا جاتا ہے، جبکہ ایک مصنف نے ڈاکوئوں کے مندرجہ ذیل فائدے گنوائے ہیں۔

گھروں میں عریانی کا خاتمہ، کیونکہ ڈاکو اپنی کا روائی کے ذریعے بطور خاص ٹی وی اور وی سی آر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

روزگار وغیرہ کے حصول کے لیے حکومت پر بوجھ نہیں بنتے بلکہ اپنے لیے خود روزگار حاصل کرتے ہیں۔

کئی سرکاری اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے گھروں کے چولہے انھی ڈاکوئوں کے وجود سے جل رہے ہیں، جو ان کے خلاف’’تحقیقات‘‘ کرتے ہیں۔

ج) گداگری)

اس پیشے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ مکروفریب سے کام لیا جائے ۔ مثال کے طور پر جعلی لنگڑا لولا بنا جائے یا پھر اندھا بنا جائے۔مشہور ہے کہ ایک آدمی کا ایک ہاتھ نہیں تھا اور وہ بھیک مانگ رہا تھا۔ ایک شخص نے اُسے چند سکے دیے اور آگے چلا گیا۔ کچھ آگے جاکر اس نے پلٹ کر دیکھا تو بھکاری اپنے دونوں ہاتھوں سے سکے گن رہا تھا۔ بھکاریوں کو آواز لگانا یا صدا دینا بھی آنا چاہئے۔ جیسے ایک بھکاری آواز لگاتا تھا۔
"اللہ روٹی کھائے گا …دال روٹی کھائے گا"
اس طرح وہ مانگتا اللہ کے لیے تھا، مگر بعد میں دیکھو تو خود کھا رہا ہوتا تھا۔

ب) مثبت پیشے)

اس قسم کے پیشے ہیں تو بے شمار مگر انھیں اپنانے کے بعد محنت بہت کرنی پڑتی ہے اور پیسے بھی بہت کم ملتے ہیں۔ انھیں ’’جائز پیشے‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ مگر بعض لوگ اپنی ’’عقلمندی‘‘ اور ’’قابلیت‘‘ سے انھیں بھی ’’ناجائز ‘‘پیشے بنا لیتے ہیں۔ اس کے لیے وہ رشوت، دھاندلی، سود، ذخیرہ اندوزی، کرپشن ،جھوٹ، منافقت وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں۔ اس سے ان کی دنیا تو ضرور سنور جاتی ہے۔ البتہ آخرت کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے۔ ان پیشوں میں ڈاکٹری، وکالت، مہندس(انجینئر)،  دمنشی(بینکر)، دکانداری، ٹیچنگ (معلّمی) وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ ان سے سب اچھی طرح واقف ہیں اس لیے ان پر روشنی ہم نہیں ڈالیں گے۔ آپ چاہیں تو آپ ان پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ موم بتی سے ڈالنی ہے یا ٹیوب لائٹ سے ، اس کا فیصلہ بھی آپ نے کرنا ہے۔

مندرجہ بالا موازنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر محتاط رہا جائے تو منفی پیشے زیادہ بہتر اور مفید ہیں۔ آپ بھی اپنی ذمہ داری پر انھیں اپنا سکتے ہیں۔

تحریر: شعیب سعید شوبی

پورا دُکھ او ر آدھا چاند


پورا دُکھ او ر آدھا چاند
ہجر کی شب اور ایسا چاند

دن میں وحشت بہل گئی تھی
رات ہوئی اور نکلا چاند

کس مقتل سے گزرا ہوگا
اِتنا سہما سہما چاند

یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند

میری کروٹ پر جاگ اُٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند

میرے منہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند

اِتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند

آنسو روکے نور نہائے
دل دریا ، تن صحرا چاند

اِتنے روشن چہرے پر بھی
سورج کا ہے سایا چاند

جب پانی میں چہرا دیکھا
تو نے کس کو سوچا چاند

برگد کی ایک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند

بادل کے ریشم جھولے میں
بھور سمے تک سویا چاند

رات کے شانوں پر سر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند

سوکھے پتّوں کے جھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننّھا چاند

ہاتھ ہلا کر رخصت ہوگا
اُس کی صورت ہجر کا چاند

صحرا صحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق میں سچّا چاند

رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہوگا میرا چاند

(خوشبو۔۔۔ ۔پروین شاکر)​

عیدالاضحیٰ مبارک

بلاگ پر تشریف لانے والے تمام دوستوں کو عیدالاضحیٰ مبارک ہو۔ اللہ کرے یہ عید آپ کے لیے خوشیوں سے بھرپور ہو۔ آمین۔۔۔!۔





کزن

دنیا میں عجب ڈھنگ کا کردار کزن ہے
ہر گام پر ہر سمت پر نمودار کزن ہے

حالانکہ جن بھوت نہ اوتار کزن ہے
اس دور میں ہر موڑ پر درکار کزن ہے

کہتے ہیں سب رشتوں کا سردار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

مانا کہ وہ جن بھوت نہیں بلکہ بشر ہے
پر یہ کیسے معلوم وہ مادہ ہے کہ نر ہے

حوا کی دختر ہے کہ گلنار کا سر ہے
گلفام کی وہ بیوی ہے کہ گلنار کا سر ہے

وہ جنس کہ ہے جنس پر اسرار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

اس جنس کے پردے میں سجن ہے کہ سجنا
پگڑی کہیں چمکے ہے نہ کھنکے ہے کنگنا

بس لفظ کزن بول کہ خود گول ہے دنیا
لیکن کسے معلوم وہ کزن ہے کہ کزنیا

اس راز کے اظہار کا انکار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

ماموں ، چچا، خالہ کا وہ بیٹی ہو کہ بیٹا
سب دور نزدیک کے رشتوں کو لپیٹے

سوتیلے سگے دور کے منہ بول گھسیٹے
رشتوں کے سمندر کو یہ کوزے میں سمیٹے

زنبیل جناب عمرو عیار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

اس رشتے کے پھیلاؤکے پلٹن کا یہ عالم
سالے کا کزن سالے کے سالے کا باہم

ڈھونڈو جو ایک تو سو خود ہوں فراہم
لگتا ہے کہ کزن عرش سے گرتے ہیں دھمادھم

اس رشتے کا ہر تال لگاتار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

رشتہ کسی اپنے کا اگر یاد نہ آئے
یا رشتے کی تفصیل چھپانا کوئی چاہے

بغلیں نہیں جھانکے نہ پسینہ وہ بہائے
اک لفظ کے ہتھیار کو کام میں لائے

ہر موقع پر وہ مارے کہ ہتھیار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

لڑکی جو کوئی بوائے فرینڈ اپنالے
جل جل کر کریں طعنہ زنی دیکھنے والے

وہ شوخ پھر اک نسخہ اکسیر نکالے
یہ کہہ کر وہ طنز کے طوفان کو ٹالے

وہ دوست نہیں میرا خبردار! کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

اس رشتے میں حائل نہیں بچپن یا بڑھاپا
دو سال کا پپو ہو یا دس بچوں کا پاپا

رنڈوا ہو یا بیاہتا کنوارا ہو سراپا
دوشیزہ کنواری ہو یا بیوہ بڑی آپا

شادی کا نہ کچھ عمر کا غم خوار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

اعلی کسی عہدے پر کزن ہو تو بہر حال
گھر بیٹھےعزیزوں کے بنیں کام بچے مال

جھنجٹ نہ شفارش نہ رشوت کا ہی جنجال
اب ڈر ہو بھلا کاہے کا سیاں بنے کوتوال

دن رات مراعات کی پھر برمار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

کہہ کہہ کے کزن دیتے ہو کیوں لوگوں کو چکر
کیا شرم ہے کہنے میں بہن بھائی برادر

انگریزی کے اس لفظ میں دھوکا ہے سراسر
احمق ہی بنانے کے سب انداز ہیں اظہر

اپریل کا فول میرے یار کزن ہے
واللہ عجب رشتہ شاہکار کزن ہے

مجھے سونے دو!


میں: مجھے سونے دو!۔۔۔۔۔

دماغ: نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاگتا رہ! ۔۔۔۔۔۔ یاد کر اگر تو ماضی میں فلاں قدم نہیں اٹھاتا تو آج کہاں سے کہاں ہوتا۔ اب ذرا سوچ تیرا مستقبل میں کیا بنے گا؟

میں: اچھا ٹھیک ہے۔ جیسی تمھاری مرضی!۔۔۔

ابھی تو جوانی ہے اور کیریئر ہے

اکبر الہ آبادی کی شاعری سے متاثر ہو کر لکھے گئے اشعار۔۔۔۔۔!!!۔

ابھی تو جوانی ہے اور کیریئر ہے
 بھلا اِن مساجد میں ہم کیا کریں گے؟

جونہی کچھ ذرا بوڑھے ہونے لگے ہم
تو شوبی بس اللہ ہی اللہ کریں گے!۔

ان حالات میں کیا کریں؟

حیات انسانی کے سفر میں کچھ امتحان معمولی ہوتے ہیں جن سے انسان بخیروعافیت گزر جاتا ہے لیکن کچھ آزمائشیں شدید ہوتی ہیں جو فرد، معاشرہ اور اقوام کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ آج، جب ہر طرف انفرادی اور اجتماعی فتنوں کی کثرت ہے، کہیں مال و اولاد کے فتنے،کہیں سیاسی، لسانی اور مذہبی گروہ بندیوں کے فتنے، اندرونی و بیرونی، ملکی و بین الاقوامی فتنے
آندھی اور طوفان کی طرح بڑھ رہے ہیں۔

 
 

نہ کوئی بندہ رہا ، نہ کوئی بندہ نواز


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک  ہی  صف  میں  کھڑے  ہو  گئے محمود  و  ایاز
 دوسری  صف  میں  کھڑا   ہو گیا   خودکش   بمبار
ہوا   کیا   پھر   نہ   پوچھ   میرے    بھیا   اقبا ل؟
نہ    کوئی    بندہ    رہا   ،   نہ  کوئی    بندہ   نواز
(ممتاز علی زیدی)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

طالبان اور جمائما خان

"بیویاں بھی طالبان کی طرح ہوتی ہیں کیونکہ نہ اُن کے خلاف آپریشن ہو سکتا ہےاور نہ ہی مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں!"


عمران خان کی کتاب "طالبان اور جمائما خان" سے اقتباس

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.