دسمبر 2012

طالبہ کے پرس سے کیا نکلا؟

کالج کی طالبہ کے پرس سے کیا نکلا؟ ایک دردناک واقعہ جو آپ کو رلا دے گا۔

ایک گرلز کالج میں سرکاری تفتیش آئی اور کالج کے سارے کلاسیز میں گھوم گھوم کر لڑکیوںکے بیگ کی تلاشی کرنے لگی ،ایک ایک لڑکی کے بیگ کی تفتیش کی گئی ،کسی بھی پرس میں کتابیں ،کاپیاں اورلازمی اوراق کے علاوہ کوئی ممنوع شے پائی نہیں گئی ، البتہ ایک آخری کلاس باقی رہ گیاتھا، اوریہی جائے حادثہ تھا ،حادثہ کیاتھا، اورکیا پیش آیا؟ تفتیشی کمیٹی ہال میں داخل ہوئی اور ساری لڑکیوں سے گذارش کی کہ تفتیش کے لیے اپنا اپنا پرس کھول کر سامنے رکھیں۔

ہال کے ایک کنارے ایک طالبہ بیٹھی تھی ،اس کی پریشانی بڑھ گئی تھی ،وہ تفتیشی کمیٹی پردزدیدہ نگاہ ڈال رہی تھی اور شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ۔اس نے اپنے پرس پرہاتھ رکھاہوا تھا !!تفتیش شروع ہوچکی ہے ،اس کی باری آنے ہی والی ہے ،لڑکی کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے …. چندمنٹوں میں لڑکی کے پرس کے پاس تفتیشی کمیٹی پہنچ چکی ہے ،لڑکی نے پرس کو زورسے پکڑ لیاگویا وہ خاموش زبان سے کہنا چاہتی ہوکہ آپ لوگ اسے ہرگزنہیں کھول سکتے ، اسے کہاجارہا ہے ،پرس کھولو! تفتیش کی طرف دیکھ رہی ہے اور زبان بند ہے ،پرس کو سینے سے چپکا لی ہوئی ہے ، تفتیش نے پھرکہا : پرس ہمارے حوالے کرو،لڑکی زور سے چلاکر بولتی ہے : نہیں میں نہیں دے سکتی ۔ پوری تفتیشی کمیٹی اس لڑکی کے پاس جمع ہوگئی ،سخت بحث ومباحثہ شروع ہوگیا ۔ ہال کی ساری طالبات پریشان ہیں ،آخر رازکیا ہے ؟حقیقت کیا ہے ؟ بالآخر لڑکی سے اس کا پرس چھین لیا گیا،ساری لڑکیاں خاموش ….لکچر بند …. ہر طرف سناٹا چھا چکا ہے۔پتہ نہیں کیا ہوگا …. پرس میں کیاچیز ہے ؟

تفتیشی کمیٹی طالبہ کا پرس لیے کالج کے آفس میں گئی ،طالبہ آفس میںآئی ،ادھراس کی آنکھوں سے آنسوو ں کی بارش ہورہی تھی ،سب کی طرف غصہ سے دیکھ رہی تھی کہ بھرے مجمع کے سامنے اسے رسوا کیا گیا تھا ، اسے بٹھایا گیا، کالج کی ڈائرکٹر نے اپنے سامنے پرس کھلوایا، طالبہ نے پرس کھولا ،یااللہ ! کیاتھا پرس میں ….؟ آپ کیا گمان کرسکتے ہیں ….؟پرس میں کوئی ممنوع شے نہ تھی ،نہ فحش تصویریںتھیں ، واللہ ایسی کوئی چیز نہ تھی …. اس میں روٹی کے چند ٹکڑ ے تھے ، اور استعمال شدہ سنڈویچ کے باقی حصے تھے ، بس یہی تھے اورکچھ نہیں ۔ جب اس سلسلے میں اس سے بات کی گئی تو اس نے کہا : ساری طالبات جب ناشتہ کرلیتی ہیں تو ٹوٹے پھوٹے روٹی کے ٹکڑے جمع کرلیتی ہوں جس میں سے کچھ کھاتی ہوں اور کچھ اپنے اہل خانہ کے لیے لے کر جاتی ہوں۔ جی ہاں! اپنی ماں اور بہنوں کے لیے ….تاکہ انہیں دوپہر اور رات کا کھانا میسر ہو سکے ۔ ہم تنگ دست ہیں ،ہماری کوئی کفالت کرنے والا نہیں، ہماری کوئی خبر بھی نہیں لیتا ۔ اور پرس کھولنے سے انکار کرنے کی وجہ صرف یہی تھی کہ مبادا میری کلاس کی سہیلیاں میری حالت کو جان جائیں اور مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے مگر آپ لوگوں نے میرے ساتھ یہ کر کے ہی چھوڑا۔ میں آج سے بعد اب کالج نہیں آسکوں گی ۔ میری طرف سے بے ادبی ہوئی ہے تواس کے لیے میں آپ سب سے معافی کی خواستگار ہوں۔

یہ دلدوز منظر کیاتھا کہ سب کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور سب نے اس طالبہ کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر اس دن کے بعد سے وہ طالبہ کبھی کالج میں نظر نہیں آئی۔

عقل بڑی یا بھینس

پٹھانوں کے گاؤں میں ندی پر پل بنایا گیا۔ انجینیئر نے پل کا افتتاح کیا اور واپس چلا گیا۔

ایک سال بعد وہ واپس گاؤں گیا تو ہر شخص پل اور انجینیئر کی تعریف کر رہا تھا۔ وہ پل کے اوپر گیا تو دیکھا کہ پل تو بالکل نیا کا نیا ہے جیسے کہ کبھی استعمال ہی نہ کیا گیا ہو۔


اس نے حیرانی سے گاؤں والوں سے پوچھا کہ آپ لوگ پل استعمال تو کرتے نہیں پھر میری تعریف کیوں کر رہے ہیں؟

گاؤں والوں نے جواب دیا کہ نہیں جناب! پہلے ہم دھوپ میں ندی پار کرتے تھے۔ اب پل کی پل کی چھاؤں میں پار کرتے ہیں۔

یہ سن کر انجینیئر نے ندی میں کود کر جان دے دی۔

مکافاتِ عمل کی کہانی (ملالہ کے ٹیڈی بیئرکی زبانی)

سنتے ہیں کہ امریکہ میں بیس سال سے کم عمر کی اسی فیصد لڑکیاں کنواری ہی نہیں رہتیں جبکہ ہر سال ایک ملین سے زائد بچیاں ناجائز طور پرحاملہ ہوجاتی ہیں۔ مانع حمل ادویات کا استعمال معمول ہے۔ پیٹ میں پلنے والی گناہ کی نشانیوں پر مانع حمل ادویات کے ڈرون حملوں کی مد میں سالانہ سات بلین ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں۔ ناجائز بچے پیدا کرنے والی چھپن فیصد کنواری مائیں زیادہ شراب نوشی، سگریٹ نوشی اور دیگر نشہ آور اشیا کے استعمال کی وجہ سے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی لاغر ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے بچے جو پہلے ہی نامعلوم باپ کی وجہ سے محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ ماں کی طرف سے بھی توجہ نہ حاصل کرنے کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوکر معاشرے میں بگاڑ اور خرابیوں کا سبب بن جاتے ہیں، تعلیمی ناکامی کا سامنا کرنے پر ذہنی اورغیر ہموار اقتصادی صورتحال انہیں مزید ذہنی مفلوج بنا دیتی ہے۔ اور پھر وہی ہوتا ہے جوامریکی ریاست کنیٹی کٹ میں ایک ذہنی مریض نے پہلے اپنی ماں اور پھر سکول کے معصوم بچوں کیساتھ کیا۔ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے سے پہلےاس نوجوان نے بیس بچوں سمیت چھبیس افراد کی زندگیوں کے چراغ گل کردئے۔ ہیروشیما اور ناگی ساکی سے لیکر ویتنام اور پھرعراق و لیبیا سے لیکرافغانستان تک امن گردی کے نام نہاد علمبردار بھیڑیوں کے صاف ستھرے اور تعلیم یافتہ معاشرے کے گورے لوگ اب کالی کرتوتوں اور بربریت کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں جس کے بعد خدا کی بے آواز لاٹھی بھی برسنے سے نہیں رکتی۔ جنگوں میں درندگی و سفاکی اور جارحیت کی توجیع تو پیش کی جاسکتی ہے کہ مقتول ہمارے جانی دشمن تھے۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والےاسلامی دہشت گردوںکو امریکہ کی سلامتی کیلیے خطرہ یا معصوم بچوں کو مستقبل کے ممکنہ دہشت گرد قرار دیکر جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ لیکن کنیٹی کٹ کےاس پرائمری سکول کے ہموطن بچے نہ تو جاپانی تھے نہ عراقی اور افغانی۔ وہ نہ تو اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ سمجھے جانے والے فلسطینی تھےاور نہ ہی پشتو، عربی، ازبک یا تاجک زبان بولنے والےاسلامی شدت پسند تھے تو پھران معصوموں کو کس جرم میں قتل کردیا گیا۔ فائرنگ کرنے والے امریکی شخص ایڈم لینزا نے حیران کن طور پر کسی تربیت یافتہ کمانڈو جنگجو کی طرح سیاہ کپڑوں کے ساتھ بلٹ پروف جیکٹ بھی پہن رکھی تھی اور وہ بہت سارے ہتھیاروں سے لیس تھا مگر یہ واضح نہیں ہےکہ اس ” امریکی طالبان” نے ایک گن کے علاوہ باقی ہتھیار استعمال بھی کیے یا نہیں۔ پنٹاگون کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ سکول کے بچوں کا قاتل نہ تو پاکستانی ہے نہ مسلمان اور نہ ہی اس نے دہشت گردی کی تربیت سوات یا وزیرستان سے حاصل کی ہے۔ باخدا قاتل کے پاس نہ تو حسن نصراللہ کا مہیا کردہ کوئی راکٹ لانچر تھا اور نہ ہی اس سے کشمیر لبریشن فرنٹ سے ملی ہوئی کوئی خودکار بندوق برامد ہوئی۔ یہ بھی طے ہے کہ نہ تو وہ اجمل قصاب کا رشتے دار تھا اور نہ ہی اسامہ بن لادن کے خاندان کا چشم و چراغ لیکن پھر بھی اس نے کسی ماہر ترین دہشت گرد کی طرح صرف دس پندرہ منٹ میں ستائیس افرادکوانتہائی سفاکی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔



اب ذرا سوچیے کہ جیو کی محبوب تعلیم یافتہ قوم کے اس گورے سپوت کو کس عالیشان امریکی یونیورسٹی سے انسانیت اور انسانی حقوق کی ایسی اعلی تعلیم ملی اور کون سے روشن خیال اساتذہ نے اسے اس اخلاقیات کا اعلی درس دیا تھا؟ احباب یاد کیجیے کہ امریکی اور ان کے سب اسلام دشمن حواریوں، پاکستان مخالف چیلوں نے ملالہ ڈرامہ رچائے جانے کے بعد کیا کیا کھیل تماشے دکھائے۔ میڈونا سے لے کر انجلینا جولی اور الطاف حسین سے لیکرعاصمہ جہانگیرتک انسانیت کے سب دوستوں نے کتنے ہوش ربا رقص پروگرام کیے کتنے چراغ جلائے، کتنے اشک بہائےاور مسلمان دہشت گردوں کو کتنے کوسنے سنائے لیکن ذرا سوچیے کہ ان امن گرد تعلیم یافتہ”نیک پاک” لوگوں میں ایسا قاتل طالبان کہاں سے گھس آیا؟ شاید وہیں سے جہاں سے قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسی اور فرعون کی غرقابی کیلئے نیل کی خونی لہریں نازل ہوئیں تھیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے دو ہزار سات میں بھی ایسا ہی ایک طالبان کوہ قاف سے اتر کر امریکہ میں داخل ہوا تھا جس کے ہاتھوں ورجینیا ٹیک میں ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں بتیس افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس ہولناک المیہ پر امریکہ کے امن پسند صدر اوباما نے اپنی مظلوم قوم کی ڈھارس بندھانے اور تسلی دینے کیلئے لڑکھڑاتی آواز اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اس سانحے پر ہر ہر درد مند انسان افسردہ ہے سو ہم بھی مغموم ہیں ہیں کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔ اسی حوالے سے آج ایک کالم میں پڑھا تو چند ماہ قبل افغانستان میں ایک جنونی امریکی فوجی کے ہاتھوں بربریت کا نشانہ بننے والے سترہ بچوں اورعورتوں کی موت کا غم پھر سے تازہ ہو گیا۔ رابرٹ بیلز نامی اس امریکی فوجی کی اس ہولناک امن گردی پر امریکہ نے اسے ریمنڈ ڈیوس جیسا انعام دیا یا کچھ اور یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ لیکن ہاں ریمنڈ ڈیوس، رابرٹ بیلز کے ہاتھوں یا ڈرون حملوں سے مرنے والے معصوم اور بیگناہوں کے پیارےابھی تک آسمانوں کی طرف مونہہ اٹھائے نوحہ خوانی ضرور کرتے ہیں۔ آج بھی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں مرنے والے معصوم دہشت گردوں بچوں کے جلے ہوئے افسردہ کھلونے تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے رو رہے ہوں گے لیکن ملالہ جی کی کتاب پر سج سجا کر بٹھایا ہوا کیوٹ ٹیڈی بیئر ہمیشہ مسکراتا رہتا ہے۔ گویا خاموشی کی زبان میں کہہ رہا ہو کہ زمانہء جدید کے سفاک امریکی فرعونوں کے مکافات عمل کا شکار ہونے کا آغاز ہو چکا ہے

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ فاروق درویش

بچپن کے گیت

بچپن کی باتیں چل رہی ہیں تو آج میں آپ کو بچپن کے دو مشہور گیت یا نظمیں سناتا ہوں۔ ۔ ۔

پہلا گیت
لکڑی کی کاٹھی
کاٹھی کا گھوڑا
گھوڑے کے سرپہ جو مارا ہتھوڑا
دوڑا دوڑا دوڑا گھوڑا دم دبا کر دوڑا
گھوڑا پہنچا چوک پہ
چوک پہ تھا نائی
نائی نے پھر گھوڑے کی حجا مت جو بنائی
ٹگ بگ ۔ ۔ ۔ ٹگ بگ!
ٹک ٹک ٹک!
ٹگ بگ ۔ ۔ ۔ ٹگ بگ!
ٹک ٹک ٹک!
(اگر کچھ بھول گیا ہوں تو پلیز آپ بتا دیں۔شکریا!)
٭۔ ۔ ۔ ٭


دوسرا گیت
دس پتے توڑیں گے
ایک پتہ کچا
ہرن کا بچہ
ہرن گئی پانی میں
پکڑو اس کی نانی کو
نانی گئی جیل میں
ہم گئے ریل میں
ریل میں کھائے بسکٹ
بسکٹ بڑے خراب
ہم نے پی شراب
شراب بڑی اچھی
ہم نے کھائی مچھی(مچھلی)
مچھی میں کانٹا
امّی نے مارا چانٹا
چانٹا بڑے زور کا
ہم نے کھائی پولکا
پولکا بڑی ٹھنڈی
ہم گئے منڈی
منڈی سے لائے آلو
پیچھے پڑ گئے بھالو
بھالو کو بھگائیں گے
بھائی کی دلہن لائیں گے
بھائی کی دلہن کالی
سو نخرے والی
ایک نخرہ ٹوٹ گیا
بھائی کا منہ سوج گیا
اگر کچھ بھول گیا ہوں تو پلیز آپ بتا دیں۔شکریہ
٭۔۔۔۔۔٭

مطالعہ کرنے کے لئے بہترین وقت

امریکہ کے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ علی الصباح بیدار ہو کر مطالعہ کرنے والے کالج یا یونیورسٹی کے طلبا رات گئے پڑھنے والے طلبا کی نسبت امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ حال ہی میں کولوریڈو یونیورسٹی میں ماہرین کی ٹیم نے طلبا کی سونے کی عادات، دن کے دوران کام کاج اور دیگر عوامل کے حوالہ سے سروے کیا اور طلبا کے سونے، جاگنے، مطالعہ کرنے کے اوقات کے بارے میں سوالنامے فراہم کیے جن کے جوابات اور طلبا کی امتحانات میں کارکردگی کی روشنی میں ماہرین نے اخذ کیا کہ علی الصباح بیدار ہر کر مطالعہ کرنے والے کالج یا یونیورسٹی کے طلبا رات دیر تک پڑھنے والوں کی نسبت امتحانات میں زیادہ اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں۔
(روحانی ڈائجسٹ مارچ ٢٠٠٩)

جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں تو رات دیر تک پڑھنے والوں میں شامل ہوں اور حقیقت ہے کہ صبح صبح مجھ سے کبھی اچھی طرح نہیں پڑھا گیا۔ اس کے باجود ابھی تک تو الحمد اللہ کبھی بہت “ برے “ نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

افتخار اجمل بھوپال نے اس سلسلے میں اپنے موقر بلاگ میں جو کچھ ارشاد فرمایا تھا، وہ یہ ہے


شعیب سعید شوبی صاحب نے لکھا تھا “امریکہ کے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ علی الصباح بیدار ہو کر مطالعہ کرنے والے کالج یا یونیورسٹی کے طلبا رات گئے پڑھنے والے طلبا کی نسبت امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں”

امریکی ماہرین نفسیات نے درست کہا ہے لیکن شاید ایک صدی یا زیادہ تاخیر سے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے کئی اساتذہ نے یہ ہدائت ہمیں سکول کے زمانہ میں کی تھی کہ رات کو عشاء کے بعد سو جایا کریں اور صبح سویرے اُٹھ کر تھوڑی سی سیر کریں اور پھر نہا کر پڑھا کریں ۔ دوپہر کے بعد آدھ گھنٹہ آرام کریں پھر بیٹھ کر پڑھیں ۔ میرے اساتذہ کے مطابق رات آرام کرنے کے بعد صبح آدمی تازہ دم ہوتا ہے ۔ دوسرے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے دن رات کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ صبح سویرے تازہ ہوا ہوتی ہے جو دماغ کو تازگی بخشتی ہے ۔ اسلئے جو سبق یاد کرنے میں رات کو تین گھنٹے لگتے ہیں وہ صبح ایک گھنٹہ میں یاد ہو جاتا ہے ۔ میں نے مَیٹرک 1953ء میں پاس کیا تھا

ہماری پہلی یا دوسری جماعت کی کتاب میں ایک نظم ہوا کرتی تھی جس میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے سادہ اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھا تھا “دن بنایا محنت کرنے کو اور رات بنائی آرام کرنے کو ۔

میرے والد صاحب[اللہ بخشے] کہا کرتے تھے

Early to bed, early to rise
healthy wealthy and wise

سردیاں ہوں یا گرمیاں میرے والد صاحب سورج طلوع ہونے سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے اُٹھ جاتے اور نہا کر اپنا کاروباری لکھنے پڑھنے کا کام کر کے پھر ناشتہ کرتے ۔ میں اور میرے چند ہم جماعت اندھیرے منہ اُٹھ کر اکٹھے دو کلو میٹر دور شہر سے باہر کی طرف جاتے وہاں سے پھلائی کی ٹہنی کاٹ کر واپسی پر داتن کرتے آتے ۔ گھروں میں پہنچ کر نہا کر پڑھنے بیٹھ جاتے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس کی مرضی ہے لیکن میں ایف ایس سی پاس کرنے تک کبھی عشاء کی نماز کے بعد جاگتا نہیں رہا ۔ اس کے باوجود اللہ کی مہربانی سے میرا شمار اچھے طلباء میں رہا ۔ آٹھویں جماعت کے دوران صرف ایک دن صبح نہیں اُٹھ سکا تھا تو میری والدہ [اللہ جنت نصیب کرے] نے کہا “مسلمان کا بچہ سورج نکلنے کے بعد نہیں اُٹھتا”۔ یہ جُملہ میں کبھی نہیں بھُلا سکتا

رات کو پڑھنے والے صبح سویرے پڑھنے کی افادیت کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اُنہیں مختلف وجوہ نے رات دیر تک جاگنے کا عادی بنا دیا ہوتا ہے ۔ اس میں موجودہ جوان نسل کی نسبت اُن کے والدین کا زیادہ قصور ہے جو فطری نظام کے خلاف رات گئے تک فلمیں یا ڈرامے دیکھنے اور محفلیں سجانے کے عادی ہو گئے ہیں ۔ گوروں کی نقالی جو ہماری قوم نے لباس اور زبان میں کرنے کی پوری کوشش کی رات کو دیر تک جاگنا بھی اسی طرح کی کوشش تھی

صرف چار دہائیاں پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں تمام سکول اور دکانیں گرمیوں میں صبح 7 بجے اور سردیوں میں صبح 8 بجے کھُلتے تھے ۔ دکانیں شام 7 بجے بند ہونا شروع ہو جاتیں اور سب دکانیں 8 بجے تک بند ہو جاتیں ۔ رات کا کھانا سب لوگ سورج چھُپنے کے بعد جلد کھا لیتے ۔ گرمیوں میں صبح ناشتہ دوپہر اور رات کو کھانا کھاتے جبکہ سردیوں میں لوگ صبح اور رات کو کھانا اوربعد دوپر کچھ ہلکا پھُلکا کھا لیتے جسے ناشتہ یا چائے کا نام دیا جاتا ۔ اب کیا ہے ۔ کوّا گیا تھا مور بننے ۔ نہ مور بنا اور نہ کوّا ہی رہا

جن لوگوں کو رات کو جاگنے کی عادت پڑ چکی ہے اگر وہ مسلمان ہیں تو انہیں چاہیئے کہ پہلے صبح سویرے اُٹھ کر نہانے اور فجر کی نماز اوّل وقت میں پڑھنے کی عادت ڈالیں ۔ نماز کے بعد صبح ناشتہ کرنے تک جو سب سے مشکل سبق سمجھیں اسے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں ۔ جب عادت ہو جائے پھر مزید جلدی اُٹھنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا ۔ صبح سویرے نہانے سے آدمی سارا دن تازہ دم رہتا ہے اور صحت بھی اچھی رہتی ہے ۔

آپ کی کیا رائے ہے؟ مطالعہ کے لیے بہترین وقت کون سا ہے؟

چھپن چھپائی


آج میرا بچپن کے کھیلوں کے بارے میں لکھنے کا دل چاہ رہا ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ آج میں آپ کو بچپن کے ایک کھیل کے بارے میں بتاتا ہوں۔ ۔ ۔

چھپن چھپائی
’’چھپن چھپائی‘‘کا کھیل تو آپ نے بھی اپنے بچپن میں ضرور کھیلا ہوگا۔جس میں ایک بچہ چور بنتا ہے،اس کی آنکھیں بند ہونے پر باقی سب بچے چھپ جاتے ہیں۔اب چور بچے کے ذمہ انھیں ڈھونڈ نکالنا ہوتا ہے،جو بچہ سب سے پہلے پکڑا جاتا ہے اگلی مرتبہ اسے چور بنایا جاتا ہے۔پہلی بار چور بننے کے لیے سب بچے تین تین کے گروپ میں مل کر ’’پگنے‘‘ کا ایک کھیل کھیلتے ہیں۔آپس میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر وہ فوراً اپنے اپنے ہاتھ سیدھے یا الٹے جوڑ لیتے ہیں۔جن دو بچوں کے ہاتھ ایک انداز میں سیدھے یا الٹے جڑتے ہیں،وہ پھر سے کسی تیسرے فرد کو شامل کر کے یہی عمل دہراتے ہیں۔ہاتھ مختلف طریقے سے جوڑنے والا بچہ پگ کر کھیلنے والی ٹیم میں شامل ہو جاتا ہے۔اس طرح ہوتے ہوتے آخر میں ایک بچہ ایسا رہ جاتا ہے جو پگنے سے رہ جاتا ہے،اسی کو چور بننا پڑتا ہے۔

اس کھیل میں اکثر بڑی دھاندلیاں یا ’’بے ایمانیاں ‘‘ہوتی ہیں۔اوّل تو چور بنانے کے لیے شروع ہی میں بڑی ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ چالاک بچے آپس میں آنکھوں ہی آنکھوں میں گٹھ جوڑ کر کے ہاتھوں کو سیدھا اور الٹا رکھنے کا طے کر کے کسی ایک بچے کو چور بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔پھر کھیل کے دوران بھی جس کسی کو اگلا چور بنانے کا فیصلہ ہو جائے ، اس کے پکڑے جانے تک باقی بچوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جاتاہے۔

اسٹار پلس کے ڈرامے

خبردار

یہ مضمون پڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ
٭ اس وقت کوئی ڈرامہ مثلاً ’’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ تو نہیں آرہا؟۔ ۔ ۔
٭ کہیں لائٹ تو نہیں چلی گئی؟۔ ۔ ۔
٭ آپ کو پڑھنا تو آتا ہے نا!۔ ۔ ۔

اگر ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہو تو یہ مضمون نہ پڑھیں۔ ۔ ۔ پہلے ڈرامے اور دوسرے کاموں سے فارغ ہو 
لیں پھر اس مضمون کا مطالعہ کریں!۔ ۔ ۔ شکریا

آج کے دور میں ٹی وی نہ صرف گھریلو تفریح کا اچھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کی حیثیت گھر کے ایک فرد جیسی ہو چکی ہے۔جس کے بغیر گھر نامکمل سا لگتا ہے۔ایک طرف اگر دنیا جہاں کی معلومات گھر بیٹھے ملتی ہیں تو دوسری طرف اس کے تفریحی پروگرام کسی طرح بھی طلسم ہوشربا سے کم نہیں۔آج ملک کے شہری علاقوں کی متوسّط درجے کی ہر فیملی کے گھر میں شام سات بجے سے گیارہ بجے تک خواتین اور اکثر مرد حضرات بھی ٹی وی کے سامنے بغیر پلکیں جھپکائے بیٹھے رہتے ہیں، وہیں کھاتے ہیں، وہیں پیتے ہیں،غرض یہ کہ لیٹرین جانے کی ضرورت بھی پیش آئے تو وقفہ آنے کا انتظار کرتے ہیں۔کبھی کبھی تو ٹیلی فون یا دروازے کی گھنٹی گھنٹوں بجتی ہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

ایک خاتون تو ڈراموں کے دوران بچے ّکو سیریلیکس کھلاتے کھلاتے کئی بار چمچہ اس کی ناک اور کان میں ڈال چکی ہیں۔معصوم بچہ ّ بھی اب اِن حادثات کا اتنا عادی ہوگیا ہے کہ چمچے کا رُخ غلط سمت دیکھ کر خود ہی ہاتھ سے پکڑ کر سیدھا کر لیتا ہے۔

ان ڈراموں کا رنگ ہماری زندگی پر اتنا چھونے لگا ہے کہ ہر لڑکی اپنے آپ کو ’’کشش‘‘، ہر بہو اپنے آپ کو ’’پاروتی‘‘ اور ہر ساس اپنے آ پ کو ’’تُلسی‘‘ سمجھنے لگی ہے۔شادی کے لیے اب لڑکی والوں کو لڑکا ’’سوجل‘‘(اب تُشال) جیسا چاہئے ہوتا ہے اور لڑکے والوں کو لڑکی ’’کُم کُم‘‘جیسی۔آج بچے ّ کسی شادی میں جاتے ہیں تو پوچھتے ہیں ’’یہ کیسی شادی ہے؟ ۔ ۔ ۔ نہ ’’ڈانڈیاں‘‘کھیلی گئیں، نہ ’’پھیرے‘‘ لگے؟‘‘۔ ۔ ۔ کچھ بچے ّ تو ایک دوسرے کو’’دل‘‘ دیتے بھی پائے گئے۔اب کسی بچے ّ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ ویلن ٹائن ڈے کیا ہوتا ہے؟اُسے خود پتا ہوتا ہے۔

پہلے فیشن برسوں میں بدلتا تھا۔ اب اسٹار پلس کے ہر ڈرامے کے ساتھ روز بدلتا ہے۔ پہلے مرد ٹخنوں سے اوپر شلوار پہنتے تھے،اب خواتین پہنتی ہیں۔بازاروں میں ’’کُم کُم ‘‘ کی چوڑیاں، ’’کشش‘‘ کی سینڈیلیں اور ’’تُلسی‘‘ کی ساڑھیاں تک ملنے لگی ہیں۔بائی دا وے۔۔۔۔ میں نے تو ’’کُم کُم‘‘ چھالیہ بھی کھائی ہوئی ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اسٹار پلس کے ڈرامے جہاں ’’رنگین ‘‘ اور ’’گلیمر‘‘ سے بھرپور ہوتے ہیں وہیں ہندوانہ مذہبی شعائر کے اعلیٰ تربیتی مراکز بھی ہیں۔ان میں نہ صرف ہندومت کے نظریات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا جاتا ہے بلکہ گھر بیٹھے لوگوں کو مفت ہندوانہ مذہبی رسومات کی تربیت دی جارہی ہے۔ ان کے شاندار نتائج سے روگردانی بھی نہیں کی جاسکتی ۔ ان ڈراموں کا ہی اثر ہے جو اب آہستہ آہستہ ہم لوگ اپنے اسلامی دنوں کو تو بھولتے جارہے ہیں مگر ہمیں ہند ؤوں کے خاص دن یاد رہتے ہیں۔

شاید ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا ۔ہم نے اگر اب بھی نہ سوچا، اب بھی نہ سمجھا اور اب بھی نہ جانا تو شاید میڈیا کے ذریعے پھیلتا ہوا یہ ثقافتی زہر ہمارے معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔آج اگر ایک ناپختہ ذہن بچہ ہندوانہ مذہبی رسومات کومعمولاتِ زندگی سمجھ کرسیکھ رہا ہے تو کل وہ کس کے گریبان میں ہاتھ ڈال کراپنا ’’اسلامی تشخّص ‘‘ تلاش کرے گا؟

میرا خیال ہے کافی لمبا ’’جلسہ‘‘ ہوگیا۔ اب مجھے اجازت دیں۔میں نے ابھی ’’کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی ‘‘ بھی دیکھنا ہے۔


نوٹ: یہ مضمون اسٹار پلس کریز (پاگل پن) زمانے کی یادگار ہے اور پرانے بلاگ کی بیک اپ سے حاصل ہوا ہے۔ اب تو اسٹار پلس کا زمانہ لد چکا۔۔!۔

ایک کرکٹر کی آپ بیتی


میں ایک عظیم کرکٹر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ اور آج اپنے شاندار ماضی کے ایام یاد کر کے اور ٹھنڈی آہیں بھر کے وقت گزارتا ہوں۔

مجھے بچپن ہی سے کر کٹ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ۔ ۔ خوابوں میں ، میں خود کو جاوید میانداد ، عمران خان اور وسیم اکرم تصور کرتا تھا۔ ۔ ۔ ہم لوگ ویسے تو متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر ہمارے والد صاحب کے کئی زمینداروں،وڈیروں اور اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ گہرے روابط تھے۔ چنانچہ کہاں میں گلیوں میں ٹیپ بال سے کھیلا کرتا تھا مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں انڈر 16 ٹیم میں شامل ہوگیاکرکٹ سے والہانہ لگاؤ اور والد صاحب کے تعلقات کی بدولت میں انڈر 19 میں جا پہنچا۔یہ دور بڑا ہی سخت دور تھا اورمجھے نہایت سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔دن کا زیادہ تر وقت پریکٹس میںگزارنا پڑتا تھا۔

ایک دفعہ ہمارا انگلینڈ کا دورہ ہوا۔اس دورے میں ، میں نے نہایت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سلیکٹرز میری پر فارمنس سے نہایت متاثر ہوئے اور انھوں نے مجھے قومی کرکٹ ٹیم کی طرف سے ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع دے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ والد صاحب کی کوششیں بھی اس میں شامل تھیں۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ٹیسٹ میچ میں ، میں نے ایک نصف سینچری اسکور کر ڈالی۔تین وکٹیں بھی خوش قسمتی سے حاصل کیں ۔ 

اس طرح میں قومی ٹیم میں شامل ہوگیا۔ اپنی آل راؤنڈ کارکردگی کی وجہ سے ٹیم کو فتوحات سے ہمکنار کراتا رہا۔ میری پرفارمنس خراب بھی رہتی تو پھر بھی سلیکٹرز مجھے ڈراپ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ والد صاحب کی کافی ’’اُوپر‘‘ تک پہنچ تھی۔

میں نے تین ورلڈ کپ بھی کھیلے ، جس میں سے ایک میں ، میں نے کپتانی بھی کی۔ جس میں ہماری ٹیم کو بری طرح شکست ہوگئی۔ ۔ ۔ بس یہ میرے کیرےئر کا گویا اختتا م تھا کیونکہ اس کے بعد مجھ پر سٹے بازی اور میچ فکسنگ کے الزامات لگنا شروع ہوگئے۔ میری کرکٹ جاری تو رہی مگر اب میں پہلے جیسا بہترین کھلاڑی نہ رہا تھا۔ کچھ عرصہ بعد وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ مجھ پر الزامات ثابت ہوگئے ۔ مجھے ناصرف ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا بلکہ ۵۰ لاکھ روپے کرکٹ بورڈ کو جرمانہ کے طور پر بھی ادا کرنے پڑے۔(اُن پیسوں سے میرا ایک فیکٹری کھولنے کا ارادہ تھا)۔ میں نے اپنے ساتھی کرکٹرز کے ساتھ مل کر اور انھیں بھرپور اعتماد میں لے کر سٹے باز سے بات کی تھی، مگر وہ مشہور مقولہ ہے نا ۔ ۔ ۔ ’’گھر کا بھیدی ، لنکا ڈھائے‘‘ ۔ ۔ ۔ بس یہی کچھ ہوا اور میرے ساتھیوں نے (خدا اُنھیں غارت کرے)عدالت کو سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔

۔ ۔ ۔ چنانچہ میں بدنام ہو کر رہ گیا۔ آج بھی میں اس وقت کو کوستا ہوں، جب میں نے چند روپوں کی خاطر اپنا ضمیر بیچ دیا اور عزت ، دولت اور شہرت ہر چیز سے محروم ہوگیا۔ ۔ ۔ میرے دل سے تو بس یہی دعا نکلتی ہے۔


کسی کو خدا نہ برے دن دکھائے
برے وقت میں ہوتے ہیں اپنے، پرائے


٭۔ ۔ ۔ ٭

ماما دے (رحیم شاہ)

رحیم شاہ کا یہ گانا سمجھ میں نہ آنے کے باوجود بھی بہترین لگ رہا ہے۔ مجھے تو یہ رحیم شاہ کے اردو گانوں سے بھی لاکھ درجہ بہتر لگا ہے۔ ویڈیو بھی بہت اچھی ہے اس گانے کی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟


اس گانے کے پشتو بول (لیرکس) اور اس کا ترجمہ جناب تلخابہ (ابوسعد) صاحب نے مجھے لکھ کر دے دیے ہیں۔(ابوسعد !۔۔۔۔آپ کا بے انتہا شکریہ!)۔۔۔۔۔۔۔نیلے رنگ میں گانے کا ترجمہ ہے۔ اب گانا سننے میں یقینا لطف آئے گا


اسلام علیکم ! رحیم شاہ دہ کراچی نہ ، یوسف دہ لندن نا، جواد اور شاہ جہان دا جرمن نہ زکہ راغلی وہ چہ دہ ماما دہ زوی وادہ وہ۔
ماما دے
چہ خاندی خوشالیگی پہ جامو کے نہ زائیگی
دہ خپلو خورایانوں سرہ ہر زائے تہ رسیگی
چہ خاندی خوشالیگی پہ جامو کے نہ زائیگی
دہ خپلو خورایانوں سرہ ہر زائے تہ رسیگی
ماما دے
اوکنا ،
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما

نظر ساتی پہ ہر سڑی بیدارہ وی ہر وختے
خوری و سرہ ولاڑ وی لکہ خستہ دہ چنار لختے
کہ ضد دی ورسرہ وکڑو نو بیا بہ ترنا تختے
اللہ دی ورتہ خیر کڑی دا زل نمبر دہ چا دے
ماما دے ۔۔۔۔
اوکنا ،
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما

پہ اسٹائل او انداز کے پہ مزہ مزہ روان وی
سلور واڑہ چی یو زی شی بیا گورہ شاہ زادگان وی
بیا داسے معلومیگی چی ہوم دوی زمونگ پیران وی
خو خیال کوہ پہ ٹولو کے انداز دہ دہ جدا دے
ماما دے
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما

یو خبرہ واورہ چی ہوم دے دہ کار سڑے دے
پہ عمر کے بہ زیات وی خو پہ زڑہ باندے زلمے دے
چہ گوتے ورتہ نہ کڑی بیا لمبہ اخلی لیتکے دے
زمونگ دہ ٹولو یار دے او دہ ہر سڑی آشنا دے
ماما دے
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
ماما دے ماما دے ماما دے ماما دے ماما
زندہ باد خوریانو زندہ باد

اسلام علیکم ! رحیم شاہ کراچی سے ، یوسف لندن سے ، جواد اور شاہ جہان جرمنی سے اس لیے آئے تھے کیوں کہ ان کے ماموں کے بیٹے کی شادی تھی۔

ماموں ۔
جب ہنستے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے
اپنے بھانجوں کے ساتھ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں
جب ہنستے ہیں تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے
اپنے بھانجوں کے ساتھ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں
ماموں ۔
بالکل جی
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں

ہر کسی پر نظر رکھتے ہیں ، ہر وقت چوکس رہتے ہیں
بھانجے اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں چنار کی لکڑیوں کی طرح
اگر ان کے ساتھ آڑ گئے تو پھر بھاگنا پڑے گا
اللہ اس پر رحم کرے جس کی اس بار باری ہے
ماموں
بالکل جی
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں

خاص اسٹائل اور انداز میں دھیرے دھیرے چلتے ہیں
جب چاروں ملتے ہیں تو شہزادے لگتے ہیں
پھر ایسے لگتا ہے جیسے یہی ہمارے پیر ہوں
لیکن انداز میں یہ سب سے جدا ہے
ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں

یہ ماننا پڑے گا کہ یہ کام کا آدمی ہے
عمر میں زیادہ لیکن دل سے جوان ہے
چھیڑنا نہیں ورنہ آگ کی طرح بھڑک اٹھے گا
یہ ہم سب کے یار اورہر کسی کا دوست ہے
ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
ماموں ، ماموں ماموں ، ماموں ماموں
زندہ باد میرے بھانجوں زندہ باد

اے جذبہ دل گر میں چا ہوں ہر چیز مقا بل آ جائے


اے جذبہ دل گر میں چا ہوں ہر چیز مقا بل آ جائے
منزل کے لئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

اے دل کی خلش چل یونہی سہی چلتا توہوں اُنکی محفل میں
اُس وقت مجھے چو نکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے

ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے

اے ر ہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں ، پر یاد رہے
اُس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے

اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم ِ کرم، ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبہ غم ، مشکل پس ِ مشکل آجائے

بہزاد لکھنوی


قاری عبد الباسط

تاریخ میں اتنی شہرت شاید ہی کسی قاری کو ملی ہو، جتنی کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے قاری عبد الباسط کے نصیب میں لکھی۔ مصر سے تعلق رکھنے والے یہ عظیم قاری 1988ء میں آج ہی کے دن، یعنی 30 نومبر کو، ہم سے بچھڑ گئے۔ آپ کی آواز میں اللہ کی آخری کتاب "قرآن مجید" کی خوبصورت تلاوت آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔دلنشیں آواز اور منفرد اندازکے حامل قاری عبد الباسط کا پورا نام عبد الباسط بن محمد بن عبد الصمد بن سلیم تھا اور دنیائے عرب میں آپ عبد الباسط عبد الصمد کے نام سے جانے جاتے تھے۔ آپ 1951ء میں ریڈیو قاہرہ پر تلاوت پیش ہوتے ہی ملک بھر میں مشہور ہو گئے اور پھر آہستہ آہستہ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں آپ کی تلاوت نے لوگوں کے دل موہ لیے اور حکومت مصر نے آپ کو "کتاب اللہ کا سفیر" کا خطاب دیا۔

قاری عبد الباسط ہی کی وجہ سے عرب و عجم کے نوجوانوں میں قرآن مجید کی قرات کا شوق پیدا ہوا اور مقابلہ حسن قرات کی روایت زور پکڑتی چلی گئی۔ آپ واحد قاری تھے جنہوں نے 1970ء کی دہائی میں تین مرتبہ عالمی مقابلہ حسن قرات جیتا اور آپ اُن اولین حفاظ کرام میں سے تھے جنہوں نے اپنی قرات کی کمرشل ریکارڈنگ کروائی۔

آپ کو حرمین شریفین یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی کے علاوہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ، دمشق میں اموی مسجد اور پاکستان میں بادشاہی مسجد سمیت دنیا بھر کے ممالک میں تلاوت قرآن مجید کا شف ملا اور جہاں بھی گئے فرزندانِ توحید کے دلوں کو اپنی آواز سے گداز کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے امریکہ، یورپ، افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک کے دورے بھی کیے۔

آپ کو حکومت مصر کے علاوہ شام، ملائیشیا، پاکستان اور سینی گال کی جانب سے اعلیٰ قومی اعزازات سے نوازا گیا۔

قاری عبد الباسط کی زندگی کے آخری ایام ذیابیطس اور جگر کے عارضے میں گزرے، یہاں تک کہ آپ 30 نومبر 1988ء کو مصر میں انتقال کر گئے۔

آپ کی نماز جنازہ سرکاری سطح پر ادا کی گئی اور کئی مسلم ممالک کے سفیروں حتیٰ کے سربراہان مملکت نے بھی آپ کی آخری رسومات میں شرکت کی۔

دین اسلام کے مطالعہ کی اہمیت



یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے۔ دین ہمیں ورثے میں ملا۔ لیکن یہی امر اس وقت ہماری بد قسمتی بن جاتا ہے جب ہم صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں۔ جنت میں جانا ہمارا حق ہے۔ حالانکہ اپنی زندگی ایک نظم و ضبط سے گزارنے کے لیے، اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے ہمیں اس دین ِ بر حق کوخود سمجھنا چاہئے،قر آن پاک کا خود مطالعہ کرنا چاہئے، اس کے مفاہیم تک ہماری اپنی رسائی ہونی چاہئے۔ احادیث نبوی  ﷺ  ہمیں خود پڑھنا چاہئیں، ان کے معانی اور تشریح تک ہمیں خود پہنچنا چاہئے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے، پاپائیت نہیں ہے۔ مذہبی امور جیسے دوسرے مذاہب میں پادریوں اور پنڈتوں پر چھوڑ دیے جاتے ہیں، ہمارے دین میں ایسا نہیں ہے۔ ہر مسلمان کو اپنے اعمال کا
جواب خود دینا ہے۔ اپنا حساب خود چکانا ہے۔           

٭تاثرات از محمود شام٭
مطالعہ قرآن (حصہ اول)مفتی حافظ قاری محمد حسام اللہ شریفی صفحہ ۷

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.