جوں جوں انسان تعلیم کے مدارج طے کرتا جاتا ہے توں توں معلومات کا سیلاب بھی اس کا تعاقب شروع کر دیتا ہے۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اس سیلاب سے اپنے آپ کو کتنا بچاتا ہے اور کس قدر فائد ہ اُٹھاتا ہے ۔ اسے اس بات کا خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اُسے کس چیز کا کتنا مطالعہ کرنا ہے، جو اس کے رجحان کے ساتھ ساتھ اس کے کیریئر میں بھی مدد دے سکے ۔ اسی طرح اسے یہ بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اسے کون سی چیزیں زیرمطالعہ لانی ہی نہیں چاہیئیں جو اس کے رجحان یا کیریئر سے متعلق غیر ضروری ہوں ۔تاکہ اس کا وقت ضائع نہ ہو۔ یہ سب فیصلے انسان کو اپنے حالات، رجحانات، پوزیشن اور ذمہ داریوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کرنے چاہیئیں۔کیریئر گائڈینس کے سلسلے میں ہم اس مضمون میں ایسے شعبے کا تذکرہ کریں گے جو کہ نہایت اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود عام لوگوں کی نالج میں بہت کم ہے اور وہ شعبہ ہے جغرافیہ۔۔۔۔!۔۔
جغرافیہ کیا ہے؟
جغرافیہ ایک ایسی سائنس ہے جو بعض لوگوں کو تذبذب میں مبتلا کر دیتی ہے، کیونکہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جغرافیہ دان کون سی تعلیم حاصل کرتا ہے اور کیا کام کرتا ہے، جبکہ جغرافیہ دانوں کی معلومات کے شعبے اتنے ہمہ گیر ہیں کہ کوئی بھی ان کے مطالعہ سے بوریت محسوس نہیں کرتا۔ اسی سائنس کے ذریعے کرئہ ارض کی سطح کی بدلتی ہوئی خصوصیات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
قدرتی آثار کا مطالعہ طبعی جغرافیہ کہلاتا ہے۔ جبکہ انسانی تخلیقات کا مطالعہ ہیومن جغرافیہ کہلاتا ہے۔ ان دونوں شعبوں میں اسپیشلائزیشن کی اہمیت اس بات سے ثابت ہوتی ہے کہ بعض مغربی ممالک کی ہونیورسٹیاں طبعی اور ہیومن جغرافیہ میں علیحدہ علیحدہ ڈگریاں جاری کرتی ہیں۔ اس کے باوجود جغرافیہ ایک واحد مضمون ہے جو طبیعی ، بایولوجیکل اور سوشل سائنسز کے درمیان ایک پل کا کام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیز میں اس علم کی اہمیت کے پیش ِ نظر جغرافیہ کے لیے علیحدہ ڈیپارمنٹس یا شعبے قائم ہیں۔جغرافیہ کی بہت سی شاخیں اور شعبے وجود میں آچکے ہیں جیسے ارتھ سائنس، جیومورفولوجی (کرئہ ارض کی بناوٹ کا علم)، کلائمو ٹولوجی (موسم کی تبدیلیوں کے کرئہ ارض پر اثرات کا علم)، کارٹوگرافی (نقشہ بنانے کی ٹیکنیک )وغیرہ ۔ اس کے علاوہ سوشل سائنسز سے متعلق بھی جغرافیہ کے کئی شعبے موجود ہیں جیسے شہری جغرافیہ (شہری جغرافیہ سے متعلق مسائل کا علم)، آبادی کا جغرافیہ ، زراعتی جغرافیہ ، سیاسی جغرافیہ وغیرہ۔
اگر آپ جغرافیہ دان بننے کا فیصلہ کریں تو آپ کے انتخاب کے لیے بہت سے شعبے موجود ہیں اور جغرافیہ کی تعلیم کی تکمیل کے بعد مختلف النوع مواقع پرائیویٹ سیکٹر اور گورنمنٹ کے اداروں میں آپ کے منتظر ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سے ادارے ہیں جہاں جغرافیہ دان اپنے آپ کو کامیابی کے ساتھ فٹ کر سکتا ہے۔
گورنمنٹ کی ملازمت میں جغرافیہ دان کو پی بی ایس 14 سے اسکیل 22 تک مل سکتا ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں تنخواہوں کے اسکیل مختلف ہیں۔
تعلیمی ملازمت
اسکول ، کالج اور یونی ورسٹی کی سطح پر گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں میں ،ٹریننگ اکیڈمی کے علاوہ مسلح افواج میں ملازمت مل سکتی
ہے۔
ریسرچ اسسٹنٹ /کو آرڈینیٹر
این جی اوز اور کنسلٹنٹ اداروں میں ملازمت مل سکتی ہے۔ لوکل باڈیز کے پلاننگ اور ڈویلیپمنٹ ڈپارٹمنٹ میں جیسے کے ڈی اے ، سی ڈی اے ، ایچ ڈی اے ، ایل ڈی اے۔ خصوصی طور پر ماسٹر پلان اور انوائرومینٹل کنٹرول ڈپارٹمنٹ میں۔
لینڈ سرورئیرز
کے ڈی اے ، ایل ڈی اے ، سی ڈی اے کے علاوہ پرائیویٹ سروے آرگنائزیشن میں۔
ٹرانسپورٹ پلانرز
ٹریفک انجینئرنگ بیورو یا ٹریفک کنٹرول ادارے میں۔
کارٹو گرافرز
سروے آف پاکستان، جیوگرافیکل سروے آف پاکستان، سول ایوی ایشن ، میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ ، سپارکو۔
سرورئیرزاِن آئل کمپنی
آئل کمپنیز میں جیولوجیکل سرورئیرز کی اسامی کے لیے۔
جغرافیہ کی تعلیم کا حصول
ہمارے ملک میں 100 سے زائد کالجوں میں انٹر اور بیچلر کی سطح پر جغرافیہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی مختلف یونی ورسٹیوں میں بھی جغرافیہ کے شعبے موجود ہیں۔
جغرافیہ میں دی جانے والی ڈگری
بی اے آنرز،ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل ، پی ایچ ڈی۔
کم سے کم تعلیمی قابلیت
بی اے آنرز اور بی ایس سی کے لیے انٹرمیڈیٹ ، ایم اے / ایم ایس سی کے لیے بیچلر کی ڈگری ، ایم فل/ پی ایچ ڈی کے لیے ایم اے، ایم ایس سی ۔
تعلیم کا دورانیہ
بی اے /بی ایس سی آنرز 3 سال…ایم اے /ایم ایس سی 2سال …ایم فل 2 سے 5برس …پی ایچ ڈی 3 سے 7 برس۔
سر ٹیفکیٹ اور مختلف ٹریننگ کورسز ان مقامات سے کیے جا سکتے ہیں، سپارکو، سروے آف پاکستان وغیرہ۔
یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائے جانے والے مضامین کی تفصیلات کچھ یوں ہیں.....
٭…کارٹوگرافی اور کمپیوٹر کارٹوگرافی
٭…میپ ورک اینڈ سروے
٭…فزیکل جغرافیہ
٭…کلائموٹولوجی ، جیو مورفولوجی
آخر میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ہر انسان کو دن اور رات میں 1440 منٹ ملتے ہیں۔ عزم کی صبح اور احتساب کی رات کے انہی 1440 منٹوں میں ہمیں اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں سوچنا اور فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ یہی دولت اور وسائل کی وہ مقدار ہے جو ہر زندہ شخص کو بلاتفریق ملتی ہے ۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ اس دولت سے ہم کس قدر فائدہ اُٹھا کر کامیاب ہو پاتے ہیں۔
٭…٭