اے میرے نکتہ چینو!
(خلیل جبران ۔۔۔۔۔ بیسویں صدی کا عظیم شاعر اور فلسفی۔ روح کی وہ آواز جو لبنان کی سرزمین سے اُبھری اور ہر انسان کی روح تک جا پہنچی۔ ایک فکر جس نے ہر ذی حس انسان کو جھنجھوڑ کے جگا دیا اور جس کا فن روح کے اندر جذب ہو کر امر ہوگیا۔
زیر نظر اقتباسات خلیل جبران کے شہہ پاروں سے ماخوذ ہیں جو ایک طرف تو ہمیں متعدد حقائق سے آگاہی بخشتے ہیں اور دوسری طرف خلیل جبران کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں۔ بلاشبہ "تخلیقاتِ خلیل جبران" دنیائے ادب میں بے مثال ہے ) ۔
٭------٭
اے میرے نکتہ چینو۔۔۔۔مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ تمھیں اس محبت کی قسم جو تمھاری روح کو تمھارے محبوب سے ملا دیتی ہے۔ اس جذبہ کی قسم جو ماں کے دل میں محبت پیدا کرتا ہے اور تمھارے دلوں کو ایک مقدس پیار عطا کرتا ہے۔ مجھے چھوڑ دو میرے حال پر۔ مجھے تنگ نہ کرو۔ مجھے میرے روتے ہوئے دل کے ساتھ چھوڑ دو۔ مجھے میرے خوابوں کے سمندر میں تیرنے دو۔ کل کا انتظار کرو۔ اس لیے کہ کل میرے ساتھ جو وہ چاہے کرنے کے لیے آزاد ہوگا۔ تمھاری عیب جوئی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ یہ تمھارے ذہنی تضاد کا نتیجہ ہے اور اس کا انجام خرابی کے سوا کچھ نہیں۔
میں اپنے پہلو کے اندر ایک چھوٹا سا دل رکھتا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ اسے اس کے قید خانہ سے باہر نکال کر اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھوں تاکہ اس کا گہرا مطالعہ کر سکوں اور اس کے راز معلوم کر سکوں۔ اس پر اپنے اعتراضات کے تیر مت چلاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ڈر کر غائب ہو جائے، قبل اس کے کہ وہ اپنے رازوں کو عیاں کر دے جو اسے حسن اور محبت نے عطا کیے ہیں۔ سورج نکل رہا ہے اور بلبل گا رہا ہے اور فضا میں مستی بکھر گئی ہے۔ میں مصنوعی ضابطوں اور اُصولوں کے جھمیلوں سے بھاگنا چاہتا ہوں۔
اے میرے نکتہ چینو۔۔۔۔مجھے اس کام سے روکنے کی کوشش مت کرو۔ مجھے جنگل کے شیروں اور وادی کے سانپوں کا خوف نہ دلاؤ، کیونکہ میری روح اس زمین پر خوف کے نام سے بھی آشنا نہیں اور کسی برائی کے سلسلہ میں کوئی تنبیہ اس وقت تک نہیں کرتی جب تک کہ واقعی برائی کا خطرہ موجود نہ ہو۔ مجھے کوئی ہدایت مت کرو۔ اس لیے کہ مصائب نے میرے دل کو کھول دیا ہے اور آنسوؤں نے میری آنکھیں صاف کر دی ہیں اور غلطیوں نے مجھے دل کی زبان سکھا دی ہے۔
اے میرے نکتہ چینو۔۔۔۔پابندیوں کا کوئی تذکرہ نہ کرو۔ اس لیے کہ ضمیر میرا منصف ہے۔ اگر میں صحیح راستہ پر ہوں تو وہ میرے فعل کو جائز قرار دے گا اور میری حفاظت کرے گا۔ اور اگر میں مجرم ہوں تو مجھے سزا دے گا۔
محبت کا جلوس چل رہا ہے۔ حسن اپنے جھنڈے لہرا رہا ہے۔ جوانی مسرت کے ڈھول پیٹ رہی ہے۔ میرے نکتہ چین!۔۔۔۔میں اس نظارے میں محو ہوں۔ مجھے چھیڑ کر میری یکسوئی کا خاتمہ نہ کرو۔ مجھے چلنے دو کیونکہ یہ راستہ پھولوں سے سجا ہوا ہے اور صاف ہوا سے معطر ہے۔
مجھے دولت اور عظمت کی کہانیاں مت سناؤ، کیونکہ میرا دل قناعت اور سکون کی دولت سے مالا مال ہے اور خدا کی عظمت سے میرا دل بھی فیضیاب ہے۔
میرے سامنے قوموں کی داستانیں بیان مت کرو۔ مجھے اُصول اور قانون کی باتیں مت سناؤ۔ میرے سامنے حکومتوں کا تذکرہ نہ کرو کیونکہ سارا جہان میرا وطن ہے اور تمام انسان میرے بھائی ہیں۔
آؤ اس انسانیت کی بات کریں جو انسان کو جنم دے کر بانجھ ہوگئی ہے۔ جو دور پھٹے چیتھڑوں میں ملبوس اپنے بچوں کو پکار رہی ہے۔ وہ بچے جو انسان سے زیادہ قوم بن گئے ہیں۔
اے میرے نکتہ چینو۔۔۔۔میرے پاس سے چلے جاؤ۔ مجھے تمھاری ضرورت نہیں۔ تم مجھ سے میری حیات کے لوازمات چھین لینا چاہتے ہو اور مجھے بے فائدہ باتوں میں اُلجھانا چاہتے ہو۔ اس لیے اے میرے نکتہ چین۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو!۔۔۔!۔
تخلیقات خلیل جبران