بے چاری آنکھ
"مجھے ان وادیوں کے پرے نیلگوں دھند سے ڈھکے ہوئے پہاڑ نظر آ رہے ہیں۔ کیا وہ خوب صورت نہیں؟"
کان نے اس بات کو سنا اور تھوڑی دیر تک غور کرنے کے بعد بولا۔
"لیکن پہاڑ کہاں ہے؟۔۔۔۔۔ مجھے تو اس کی آواز سنائی نہیں دیتی؟"
ہاتھ نے کان کی تائید کی۔
"یہاں کوئی پہاڑ نہیں ہے۔ میں اسے چھونے اور محسوس کرنے کی کوشش کر چکا ہوں لیکن یہاں کوئی پہاڑ نہیں۔"
ناک کہنے لگی۔
"یہاں کوئی پہاڑ نہیں۔ میں اس کی بو نہیں سونگھ سکتی۔"
آنکھ یہ سن کر دوسری طرف متوجہ ہوگئی۔ باقی تینوں کان، ناک اور ہاتھ آنکھ کی کم عقلی کا ماتم کرنے لگے۔
انھوں نے کہا.
"بے چاری آنکھ دیوانی ہوگئی ہے۔“
تخلیقات خلیل جبران
بہت زبردست بات کہی ہے خلیل جبران نے ۔ خلیل جبران کی سادہ سی باتیں بہت گہری سوچ کیا غماز ہوتی ہیں ۔ فرض کیجئے ایک ادارہ یا کارخانہ ہے تو اس میں کام کرنے والے لوگوں کے مختلف گروہوں کو علیحدہ علیحدہ یہ نام دے دیجئے ” کان ۔ ناک ۔ ہاتھ اور آنکھ“۔ آنکھ وہ گروہ ہے جس کے ارکان ہر معاملہ کی گہرائی میں جاتے ہیں ۔ اس کی خوبیوں اور خامیوں کی کھوج لگاتے ہیں اور اس کے قبلِ عمل ہونے یا نہ ہونے کی تشخیص کرتے ہیں ۔ کان اُن لوگوں کا گروہ ہے (اسے منیجمنٹ کہہ لیجئے) جو سُن کر یا دستاویز میں لکھا پڑھ کر فیصلہ کرتے ہیں ۔ ناک اُس گروہ سے تعلق رکھنے والے ہیں جو زیادہ کام قیافہ آرائیوں سے چلاتے ہیں ۔ ہاتھ وہ لوگ ہیں جو ہر کام میں ٹھوس ثبوت مانگتے ہیں اور عام طور پر اپنا فائدہ دیکھ کر آگے بڑھتے ہیں
جواب دیںحذف کریںمیری کی ہوئی تشریح کو مدِ نظر رکھ کر اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیجئے تو آپ کہہ اُٹھیں گے ”زبردست بات کہہ گئے خلیل جبران“
بہت خوب استاد محترم!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی تشریح سے اس تمثیل کی بخوبی وضاحت ہو جاتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںجس کا جتنا ظرف ہوتا ہے اسی قدر وہ کسی چیز کا عرفان حاصل کرتا ہے۔