عقیدہ
مسجد کے قریب چھوٹی نہر بہتی تھی ، اور اسی نہر پر بنے پُل نے گاؤں اور مسجد کو آپس میں ملا رکھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اسی پل پر سرمد نے دو آدمیوں کو اپنی پستول سے گھائل کر کے نہر میں بہا دیا تھا ۔
تو فکر نہ کر ماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ان دونوں کا عقیدہ خراب تھا ۔ میں نے انہیں ٹھکانے لگا دیا ہے ۔۔۔ ۔ ۔
عبدالکریم چارپائی سے لڑکھڑا کر اٹھا ۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ سرمد کو زناٹے کا تھپڑ مارے کہ اسے تسّلی دے۔
تو نے ان کے عقیدے کے متعلق تحقیق کی تھی سرمد؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پوچھ گچھ کر لی تھی ! ؟
تحقیق کی کیا ضرورت ہے ؟ لوگ کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔لوگ کچھ غلط تو نہیں کہتے اماں !۔
لوگ تو اور بھی بہت کچھ کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کی بات کبھی معتبر نہیں ہوتی بیٹا ! اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے غور و خوض کرنا پڑتا ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔اور پھر تجھے کسی کے عقیدے سے کیا ؟
یہ اللہ جانے اور اس کے بندے ۔ ۔ ۔ ۔ کون جانے اللہ اور سچے نبی کو روزِ قیامت کس کا عقیدہ پسند آئے ۔ ۔ ۔ ۔بتول گڑگڑائی ۔
بتول کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے اور وہ دیوار سے لگ کر کھڑی ہو گئی ۔
اور جو پولیس کو علم ہو گیا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تو ؟ بتول بولی ۔
میں پولیس سے نہیں ڈرتا ماں ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے یہ کام اللہ کی راہ میں کیا ہے ۔ وہ مجھے اجر دے گا ۔ مجھے معلوم ہے کہ ان کا عقیدہ درست نہ تھا ۔
کیا تو نے ان کا عقیدہ درست کرنے کی کوئی تدبیر کی انہیں سمجھایا مالی مدد کی ؟ ان سے میل جول بڑھا کر انہیں راہِ راست پر لانے کی کوشش کی ۔ عبدالکریم نے ڈانٹ کر پوچھا ۔
نہیں ابا میں نے ان کا ٹنٹا ہی ختم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔سرمد آہستہ سے بولا ۔
بس تو نے اللہ کے فیصلے کا انتظار نہیں کیا بیٹے ۔ ۔ ۔ ۔ روزِ قیامت وہ ایسے لوگوں سے خود نپٹ لیتا ۔ یا پھر نکل کر ان کی مدد کرتا پورے انہماک سے ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں راہ پر لانے کے لیے کچھ کرتا تو بیٹے ۔
کیا اس کا حکم نہیں کہ بد اعتقاد لوگوں کو ختم کر دو ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
اور اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ بد اعتقاد کون ہے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔بھائی جس نے ایک انسان کو مارا تو سمجھو ساری انسانیت کو ختم کر دیا ۔
بانو قدسیہ دست بستہ صفحہ 42
از احمر
جواب دیںحذف کریںبہت خوب اور بروقت
بہت شکریہ جناب۔
جواب دیںحذف کریںبے شک اس کہانی کے پیغام کی زیادہ سے زیادہ ترویج کی ضرورت ہے۔۔۔