چند بےترتیب خیالات (2)
زندگی بھی عجیب ہے۔ کبھی خوشی تو کبھی غم۔ آدمی جب تک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوجاتا یعنی عملی زندگی میں قدم نہیں رکھ لیتا، اسے زندگی کی حقیقتوں کا درست اندازہ نہیں ہوتا۔طالب علمی کے دور میں آدمی بے فکر زندگی گزارنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے۔ والدین کس طرح اور کن حالات میں اس کی تعلیم اور طعام کا انتظام کرتے ہیں، اسے ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ ہر طرف اُسے دودھ کی نہریں بہتی دکھائی دیتی ہیں۔ نادان سمجھتا ہے کہ یہ سلسلہ تادیر قائم رہے گا۔ مگر یہی اس کی بھول ہوتی ہے۔
متوسط طبقے کے گھرانوں میں یہ سلسلہ ایک مخصوص وقت تک جاری رہتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے، جب آرام و سکون اور بے فکری کا یہ دور ختم ہو جاتا ہے اور اسے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی عملی زندگی میں قدم رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں طالب علم چاہے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہو، عملی زندگی میں اسے اپنی تعلیم عبث دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناقص تعلیمی نظام کی تھیوری بیسڈ تعلیم عملی زندگی میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اس کی نام نہاد اعلیٰ ڈگری محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوتی ہے، جس میں پکوڑے رکھ کر تو کھائے جا سکتے ہیں مگر اس کے دم پر نوکری کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
اول تو اچھی نوکری ملتی نہیں اور اگر خوش قسمتی سے مل بھی جائے تو تنخواہ اس قدر قلیل ہوتی ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں اس سے گزر بسر کرنا نہایت دشوار ہوتا ہے اور ایک باعزت اور خوشحال زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کوبا امر مجبوری بیرون ِ ملک کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔
30 مئی 2013ء کو میری ڈائری میں لکھے گئے میرے چند بےترتیب خیالات ۔۔۔۔