کیا آپ صحافی بننا چاہتے ہیں؟
کسی بھی اخبار کے لیے ’’ صحافت ‘‘ کے فرائض انجام دینا ایک دلچسپ مگر بہت زیادہ محنت طلب کا م ہے ۔ اگر آپ صحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ کو چند باتیں معلوم ہونا ضروری ہیں۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔
صحیح فیصلہ کریں
سب سے پہلے فیصلہ کریںکہ آپ کس زبان کے اخبار میں صحافت کے فرائض انجام دینا چاہتے ہیں۔ یعنی اخبار انگریزی ہے یا اُردو ، سندھی وغیرہ … ؟
تعلیمی قابلیت
بہت سے نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ صحافت کے لیے کوئی خاص تعلیمی قابلیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ غلط سوچ ہے ۔ اس شعبے میں تعلیم کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ تعلیم یافتہ اور باشعور آدمی ہی صحیح طرح صحافت کے فرائض انجام دے سکتا ہے۔ ویسے تو متعدد مضامین کے ساتھ گریجویشن یا ماسٹر ڈگری یافتہ نوجوان اس پیشے کے لیے موزوں تصور کیے جاتے ہیں مگر عصر حاضر میں مقابلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ ’’ ابلاغ ِ عامہ ‘‘ (Mass Communication) میں ڈگری یافتہ نوجوانوں کو فوقیت دی جاتی ہے۔
زبان پر عبور
زبان پر عبور نہایت ضروری ہے۔ اگر آپ اُردو اخبار میں کام کر رہے ہیں تو اُردو زبان پر عبور ضروری ہے۔ اگر آپ انگریزی اخبار میں کام کر رہے ہیں تو انگریزی زبان میں مہارت بے حد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا انگریزی سے اُردو میں اور اُردو سے انگریزی زبان میں یا دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے کے فن سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔
سماجی تعلقات
اس شعبے میں وہ نوجوان بہت کامیاب رہتے ہیں جن کے سماجی تعلقات ہوں، جن کا حلقہ احباب بہت وسیع ہو ، کیونکہ صحافیوں کو بہت سے لوگوں سے میل جول رکھنا ہوتا ہے، اس طرح بہت سے واقعات یا باتوں کا علم ہو جاتا ہے جس کی خبر بن سکتی ہے۔ تعلقات کی بدولت بہت سے لوگ خبریں فراہم کر دیتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ آپ میل جول رکھنے والے ہوں۔
بہترین یاداشت، مضبوط قوت ِ حافظہ
اس شعبے میں وہ نوجوان بہت کامیاب رہتے ہیںجو بہترین یاداشت اور مضبوط قوت ِحافظہ کے مالک ہوں کیونکہ اخبار میں ہر وقت خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ روزانہ ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جنھیں خبر کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر حافظہ بہترین ہوگا تو ہی آپ اسے ذہن میں محفوظ رکھ سکیں گے اور وقت ِ ضرورت اس کو بازیافت (Recall) کر سکیں گے۔
قوت ِ مشاہدہ
تیز قوت ِ مشاہدہ کے مالک نوجوان اس شعبے کے لیے موزوں ہیں۔ اس لیے اگر آپ بہترین قوت ِ مشاہدہ رکھتے ہیں تو اس شعبے میں طبع آزمائی ضرور کریں۔
کام کرنے کا جنون
ایسے نوجوان جو جنونی انداز سے کام کرنے کے عادی ہوں ، جو اپنے کام کو فوری پایہ تکمیل تک پہنچا دیں، جو ’’موڈ کے غلام ‘‘ نہ ہوں وہ اس شعبے کے لیے بہترین ہیں۔ دیکھنے میںآیا ہے کہ ہمارے بہت سے نوجوان ’’موڈ کے غلام‘‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر موڈ ہوگا تو کام کریں گے ، موڈ نہیں ہوگا تو پھر کام کا اللہ ہی حافظ ہے۔اس شعبے میں بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔اس لیے موڈ کو نظر انداز کرنا بے حد ضروری ہے۔
احساس ِ ذمہ داری
اس شعبے کے لیے احساس ِ ذمہ داری بہت ضروری ہے ۔ ویسے تو یہ ہر شعبے کے لیے ہی بہت ضروری ہے مگر صحافت میںتو بہت زیادہ ضروری ہے، کیونکہ اس شعبے میں آپ کو بہت کا م کرنا پڑتا ہے۔جب آپ کو کام سونپا جا رہا ہے تو ذمہ داری کے ساتھ اس کی ادائیگی کریں۔ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ اور غفلت اخبار میں ہر گز برداشت نہیں کی جا سکتی ۔
ہر قسم کے ماحول میں ڈھلنے والے نوجوان
جو نوجوان ہر قسم کے ماحول میں ڈھل جاتے ہوں ، ہر قسم کے ماحول میں آرام سے کام کر لیتے ہوں ، ایسے نوجوان اس شعبے میں با آسانی کام کر سکتے ہیں۔
اس مضمون میں ہم نے ان چند باتوں کا احاطہ کیا ہے ، جو صحافی بننے کے لیے جاننا ضروری ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ یہ کام کر سکتے ہیں تو اس پیشے کو ضرور اختیار کیجئے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ اس شعبے میں شہرت تو بہت زیادہ ہے مگر محنت اور جدوجہد کی بھی ضرورت ہے ۔ اگر آپ محنت اور جدو جہد سے نہ گھبراتے ہوں اور کام ، کام اور صرف کام کے عادی ہوں تو پھر آپ اچھے صحافی بن سکتے ہیں۔
اگلے مضمون میں ہم جرنلزم پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالیں گے۔۔۔۔۔
معافی کی درخواست کے ساتھ عرض ہے ۔ عملی دنیا میں بہت سے صحافیوں سے ملاقات ہوئی جن کی تحاریر اور عمل میں واضح تفاوت دیکھی اور کئی ایسے واقعات کی رپورٹنگز اخبارات میں دیکھیں جن کا اصل واقعہ سے تعلق نہ تھا ۔ کیا جنرلزم میں یہ بھی پڑھایا جاتا ہے
جواب دیںحذف کریںآپ کے بلاگ میں تبصرہ والا حصہ شو نہیں ہو رہا۔
حذف کریںمیں ایک تحریر پر اپنی وائے دینا چاہتا تھا۔
افتخار صاحب یہ چند مضامین کا سلسلہ ہے جومختلف رسائل و کتب کے ذریعے جمع کر رکھے تھے۔ اب انھیں آہستہ آہستہ ٹائپ کر کے بلاگ پر شائع کر رہا ہوں۔ کیریئر گائیڈینس کے حوالے سے انٹرنیٹ پر اردو میں مواد نہ ہونے کے برابرہے۔ اسی سوچ کے تحت ان مضامین کو مفادِ عامہ کے لیے شائع کر رہا ہوں شاید کسی کا بھلا ہو جائے۔
جواب دیںحذف کریںجہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو اس کا جواب تو کوئی جرنلسٹ ہی دے سکتا ہے۔ ویسے آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔ ایسی کالی بھیڑیں تو ہر شعبہ میں موجود ہوتی ہیں۔ مگر میڈیا میں ایسے لوگوں کا ہونا ایل المیہ سے کم نہیں ہے۔
خوب لكها
جواب دیںحذف کریںشکریہ۔۔۔۔۔ بلاگ پر تشریف آوری کا بے حد شکریہ۔۔۔۔
حذف کریںمیں نے اس عنوان پر مطالعہ کیا لیکن اپ کا طرز بیان عمدہ پایا
جواب دیںحذف کریں