آسان روحانی علاج (کتابچہ)

نام کتابچہ: گھریلو بیماریوں اور پریشانیوں کا آسان روحانی علاج

اس دنیا میں کون ہے جو مشکلات اور مصائب سے محفوظ ہے؟ زیرِ نظر کتابچہ میں حضرت شیخ الحدیث مفتی سحبان محمود صاحب قدس سرہ کے عطا فرمودہ اوراد و وظائف جمع کیے گئے ہیں۔اس کتابچہ کو مفتی طاہر محمود صاحب (جامعہ اشرف العلوم، بیت المکرم کورنگی، کراچی) نے مرتب کیا ہے۔ تمام اوراد و وظائف قرآنی آیات اور احادیث کی دعاؤں پر مشتمل ہیں اور کتابچہ کے مطابق اس میں موجود وظائف اور دعائیں (صرف جائز مقاصد کے لیے) پڑھنے کی ہر ضرورت مند کو اجازت ہے۔
کتابچہ کا سرورق
کتابچہ میں موجود گزارش۔۔۔
یہ کتاب حضرت شیخ الحدیث مفتی سحبان محمود صاحب قدس سرہ کے ایصال ثواب کے لئے مفت تقسیم کی جاتی ہے۔ اگر کوئی اہل خیر اس کتاب کو شائع کراکر تقسیم کرنا چاہیں تو اس کی عام اجازت ہے۔

نوٹ
کسی کو ای میل کرنے کے لیے یہ کتابچہ اسکین کیا تھا۔ مفادِ عامہ کے لیےاس بلاگ پر بھی اسے شیئر کیا جارہا ہے۔

انسان کی حقیقت

انسان اپنی مرضی کے خلاف اس دنیا میں آتا ہے اور اپنی مرضی کے خلاف اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔

 بچپن میں فرشتہ، جوانی میں شیطان اور بڑھاپے میں بیوقوف سمجھا جاتا ہے۔

غریب ہے تو فضول ہے، امیر ہے تو مغرور ہے۔

خیرات کرتا ہے تو شہرت کا بھوکا ، نہیں کرتا تو کنجوس ہے۔

مذہب پرست ہے تو مکار ہے، مذہب سے دور ہے تو گنہگار ہے۔

دنیا میں آتا ہےتو ہر کوئی اسے چومتا ہے اور دنیا سے جانے کے بعد ہر کوئی اسے ہاتھ لگانے سے گھبراتا ہے۔

پیدائش کے وقت خود روتا ہے اور مرتے وقت سب کو روتا چھوڑ جاتا ہے۔

آخر اس انسان کی حقیقت کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا سوچیے۔۔۔۔!۔

ماخوذ - 

کُٹ کُٹ کرتی آئی مرغی

اردو زبان میں بچوں کی ایک اور شہرہ آفاق نظم آواز اور متحرک تصاویر کی مکسنگ کے ساتھ۔۔۔۔






 مکمل نظم کا متن۔۔۔
کُٹ کُٹ کرتی آئی مرغی
اپنی فوج کو لائی مرغی

فوج میں اس کے بچے سارے
ننھے منے پیارے پیارے

ماں کو اپنی جانتے ہیں وہ
بولی بھی پہچانتے ہیں وہ

اُڑتی اُڑتی چیل جو آئی
دیکھتے ہی مرغی چلّائی

چیخ کو سن کر بچے بھاگے
کچھ پیچھے کچھ ماں کے آگے

ماں نے اپنے پر پھیلائے
بچے ان کے نیچے آئے

بچوں کو چھاتی سے لگایا
ان کو اپنے پروں میں چھپایا

دانہ دُنکا جو کچھ پایا
آپ نہ کھایا ان کو کھلایا

تم ایسا کرنا

تم ایسا کرنا

کوئی جگنو،کوئی ستارہ

سنبھال رکھنا

میرے اندھیروں کی فکر چھوڑو

بس اپنے گھر کا خیال رکھنا

ہماری آنکھوں نے جو مِل کے دیکھے

وہ سارے سپنے سنبھال رکھنا

یہ دُوری اپنی تو عارضی ہے

نہ دل میں اس کا ملال رکھنا

تمھاری سانسیں، تمھاری دھڑکن

سنو ہماری امانتیں ہیں

ہماری خاطر ہی تم

ہمیشہ اپنا خیال رکھنا




ایک تھا تیتر ایک بٹیر

اردو زبان میں بچوں کی شہرہ آفاق نظم آواز اور متحرک تصاویر کی مکسنگ کے ساتھ۔۔۔۔

نظم کا متن

ایک تھا تیتر ایک بٹیر

لڑنے میں تھے دونوں شیر

لڑتے لڑتے ہو گئی گُم

ایک کی چونچ ایک کی دُم





میرے بچپن کی چودہ اگست

کل ملک میں یوم آزادی منایا جائے گا۔ آج جب سڑکیں اور گلیاں قومی پرچموں سے محروم سونی سونی دکھائیں دیں تو مجھے اپنے بچپن کے چودہ اگست کے ایام شدت سے یاد آئے۔ کیا جذبہ کیا شوق ہوا کرتا تھا! اگست کے شروع ہوتے ہی چودہ اگست منانے کی تیاریاں شروع ہو جایا کرتی تھیں۔ نہایت شوق و ذوق سے جھنڈیاں خرید کر لایا کرتے تھے۔ پھر خود ہی اپنے بڑوں کی رہنمائی میں آٹے کی لئی تیار کرتے تھے اور بڑی محنت سے جھنڈیوں کو ڈوریوں میں چسپاں کر کے جھنڈیوں کی متعدد لڑیاں تیار کیا کرتے تھے۔ اس کام کے لیے آج کے بچوں کی طرح گھر گھر جا کر چندہ جمع نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی جیب خرچ سے یہ کام سر انجام دیتے تھے۔ پھر ان جھنڈیوں کی لڑیوں کو گھر کی دیواروں پر خوبصورتی سے سجاتے تھے۔ سبز، سرخ اور نیلے رنگوں کی بہار آ جاتی تھی۔  اس کے بعد بانس پر قومی پرچم کو باندھ کر چھت پر زیادہ زیادہ اوپر لہرانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ وہ محلے کے باقی جھنڈوں سے نمایاں نظر آئے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے بیجز اور اسٹیکرز وغیرہ ضرورت سے زیادہ خرید لیتے تھے اور پھر ان میں سے کسی ایک کو پسند کر کے چودہ اگست والے دن اپنے کپڑوں پر چسپاں کرنا بھی تو ایک مشکل فیصلہ ہوا کرتا تھا۔



میرے بچپن کا یادگار یوم آزادی گولڈن جوبلی یعنی ٩٧ء کا یوم آزادی تھا۔ چونکہ یہ ٥٠ واں جشن ِ آزادی تھا تو ذرائع ابلاغ جس میں دو ٹی وی چینلز پی ٹی وی اور ایس ٹی این ، دو ایف ایم ریڈیو چینلز ١٠٠ اور ١٠١ اور اخبارات نے اس کی ہائیپ کرییٹ کر رکھی تھی۔ اگست کے مہینے کے شروع ہوتے ہی ان دو ٹی وی چینلز سے چودہ اگست کی مناسبت سے پروگرامز نشر کیے جانے لگے تھے۔ ایف ایم چینلز متواتر قومی و ملی نغمات نشر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں پاکستانی پاپ گلوکاروں میں ملی نغمے بنانے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ یوں بھی وہ زمانہ پاکستانی پاپ موسیقی کا سنہرا دور تھا۔ وائٹل سائنز، جنون، آواز، علی حیدر، شہزاد رائے اور دوسرے چھوٹے بڑے گلوکاروں اور بینڈز نے گولڈن جوبلی کے حوالے سے خصوصی ملی نغمے تیار کیے تھے۔ وائٹل سائنز کا مولا او تیرا کرم مولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آواز کا اے جواں ! اے جواں!۔۔۔۔۔ جیسے لازوال گیت جو آج بھی لوگوں کو یاد ہیں اسی گولڈن جوبلی میں ہی ریلیز ہوئے تھے۔ جب یہ ملی نغمے میں سنا کرتا تھا تو فرطِ جذبات سے میرے رونگٹے کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ ابھی بھی جب میں یہ الفاظ ٹائپ کر رہا ہوں دل میں موہوم سے ہی سہی مگر وہ احساسات دل و دماغ میں ریوائیو ہو رہے ہیں۔

It is like Revival of my Childhood Memories.....!!!

تیرہ اگست کی رات کو اپنے نانا کے گھر میں چراغاں کرنا آج بھی یاد ہے۔ اس عمل پر نانا جی کی حوصلہ افزائی اور پیار آج بھی یاد آتا ہے تو آنکھیں نم سی ہو جاتی ہیں۔

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ِ ایام تو

 آج کل نجانے کیوں بچوں میں وہ جوش و جذبہ بہت کم ہو گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ بالکل ختم ہو گیا ہے مگر وہ جوش و خروش مجھے نظر نہیں آتا جو ہمارے دور کے بچوں میں ہوتا تھا۔ آج کے بچے فیس بک پر اسٹیٹس اپڈیٹ کر کے اور اپنی پروفائلز پر سبز رنگ نمایاں کر کے چودہ اگست منانے کو کافی سمجھنے لگے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کی ایک وجہ آج کے بڑوں کا حوصلہ افزائی نہ کرنا بھی ہے۔ ہمارے بچپن میں ہمارے نانا، چچا ماموں وغیرہ ہماری حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور خود بھی ہماری جشن آزادی کی تیاریوں میں ہمارا ہاتھ بٹا دیا کرتے تھے مگر آج کل کے بڑے شاید "بہت بڑے" ہو گئے ہیں۔

  اللہ ہمارے بڑوں کو نیک ہدایت دے اور ہمیں بڑا ہو کر ایسا بڑا ہونے سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

بہرحال تمام اہل ِ وطن کو جشن ِ آزادی بہت بہت مبارک ہو!۔۔۔۔

عید مبارک

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ!۔میری جانب سے آپ کو اور آپ کے اہل ِ خانہ کو بہت بہت

عید مبارک



<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.