قاری عبد الباسط

تاریخ میں اتنی شہرت شاید ہی کسی قاری کو ملی ہو، جتنی کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے قاری عبد الباسط کے نصیب میں لکھی۔ مصر سے تعلق رکھنے والے یہ عظیم قاری 1988ء میں آج ہی کے دن، یعنی 30 نومبر کو، ہم سے بچھڑ گئے۔ آپ کی آواز میں اللہ کی آخری کتاب "قرآن مجید" کی خوبصورت تلاوت آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔دلنشیں آواز اور منفرد اندازکے حامل قاری عبد الباسط کا پورا نام عبد الباسط بن محمد بن عبد الصمد بن سلیم تھا اور دنیائے عرب میں آپ عبد الباسط عبد الصمد کے نام سے جانے جاتے تھے۔ آپ 1951ء میں ریڈیو قاہرہ پر تلاوت پیش ہوتے ہی ملک بھر میں مشہور ہو گئے اور پھر آہستہ آہستہ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں آپ کی تلاوت نے لوگوں کے دل موہ لیے اور حکومت مصر نے آپ کو "کتاب اللہ کا سفیر" کا خطاب دیا۔

قاری عبد الباسط ہی کی وجہ سے عرب و عجم کے نوجوانوں میں قرآن مجید کی قرات کا شوق پیدا ہوا اور مقابلہ حسن قرات کی روایت زور پکڑتی چلی گئی۔ آپ واحد قاری تھے جنہوں نے 1970ء کی دہائی میں تین مرتبہ عالمی مقابلہ حسن قرات جیتا اور آپ اُن اولین حفاظ کرام میں سے تھے جنہوں نے اپنی قرات کی کمرشل ریکارڈنگ کروائی۔

آپ کو حرمین شریفین یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی کے علاوہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ، دمشق میں اموی مسجد اور پاکستان میں بادشاہی مسجد سمیت دنیا بھر کے ممالک میں تلاوت قرآن مجید کا شف ملا اور جہاں بھی گئے فرزندانِ توحید کے دلوں کو اپنی آواز سے گداز کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے امریکہ، یورپ، افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک کے دورے بھی کیے۔

آپ کو حکومت مصر کے علاوہ شام، ملائیشیا، پاکستان اور سینی گال کی جانب سے اعلیٰ قومی اعزازات سے نوازا گیا۔

قاری عبد الباسط کی زندگی کے آخری ایام ذیابیطس اور جگر کے عارضے میں گزرے، یہاں تک کہ آپ 30 نومبر 1988ء کو مصر میں انتقال کر گئے۔

آپ کی نماز جنازہ سرکاری سطح پر ادا کی گئی اور کئی مسلم ممالک کے سفیروں حتیٰ کے سربراہان مملکت نے بھی آپ کی آخری رسومات میں شرکت کی۔

دین اسلام کے مطالعہ کی اہمیت



یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے۔ دین ہمیں ورثے میں ملا۔ لیکن یہی امر اس وقت ہماری بد قسمتی بن جاتا ہے جب ہم صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں۔ جنت میں جانا ہمارا حق ہے۔ حالانکہ اپنی زندگی ایک نظم و ضبط سے گزارنے کے لیے، اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے ہمیں اس دین ِ بر حق کوخود سمجھنا چاہئے،قر آن پاک کا خود مطالعہ کرنا چاہئے، اس کے مفاہیم تک ہماری اپنی رسائی ہونی چاہئے۔ احادیث نبوی  ﷺ  ہمیں خود پڑھنا چاہئیں، ان کے معانی اور تشریح تک ہمیں خود پہنچنا چاہئے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے، پاپائیت نہیں ہے۔ مذہبی امور جیسے دوسرے مذاہب میں پادریوں اور پنڈتوں پر چھوڑ دیے جاتے ہیں، ہمارے دین میں ایسا نہیں ہے۔ ہر مسلمان کو اپنے اعمال کا
جواب خود دینا ہے۔ اپنا حساب خود چکانا ہے۔           

٭تاثرات از محمود شام٭
مطالعہ قرآن (حصہ اول)مفتی حافظ قاری محمد حسام اللہ شریفی صفحہ ۷

ایک مسافر شاعر


کراچی شہر میں بس کا سفر یقینا ایک الگ ہی تجربہ ہوتا ہے۔جس میں انسان کے کئی رُوپ سامنے آتے ہیں ۔بس کے سفر میں بعض اوقات ایسے انوکھے اور دلچسپ واقعات پیش آتے ہیں جو مسافروں کے لئے خوشگوار یاد اور ناقابل فراموش بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ڈان اخبار میں شائع ہوا جیسے ’’اے۔ قاضی شکور‘‘ نے انگریزی میں تحریر کیاہے۔ اس واقعے کا خلاصہ ترجمہ کی صورت میں یہاں پیش کرہا ہوں۔


بس میں سفر کے دوران کسی اسٹاپ سے ایک شخص سوار ہوا۔ بس چونکہ بھری ہوئی تھی۔ لہٰذا وہ بڑی مشکل سے آگے بڑھتا ہوا بالآخر جالی یا (گِرل) تک پہنچ گیا، جو لیڈیز پورشن کے پارٹیشن کے لئے لگی ہوتی ہے۔ وہ شخص کچھ دیر اپنی چڑھی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا۔پہلی نظر میں وہ کوئی بھکاری ہی محسوس ہوا۔ مگر جب اس نے نہایت خوش الحانی سے اپنی ’’مدّعا ‘‘ سنائی تو مسافروں پر اس کا کیا ’’اثر ‘‘ ہوا؟۔ ۔ ۔ یہ آپ کو بعد میں پتا چلے گا!۔ ۔ ۔ پہلے آپ اس اجنبی شخص کی ’’منظوم مدّعا ‘‘ ملاحظہ فرمائیں!۔ ۔ ۔

اچھا تو بھائی جان، قدردان، مہربان!
اب دل پر ہاتھ رکھ کے سنیں میری داستان!
کرتے ہیں آپ بس میں سفر روز، صبح و شام
بس یونہی چل رہا ہے اس شہر کا نظام
ملتے ہیں بس میں آپ کو ہاکر نئے نئے
سنتے ہیں آپ روز ہی لیکچر نئے نئے
کپڑوں پر کوئی آپ کے خوشبو لگائے گا
بسکٹ دکھائے گا، کوئی ٹافی کھلائے گا
یا کچھ ملیں گے آپ کو محتاج اور فقیر
جو خود بھی تھے کبھی بڑے خوش حال اور امیر
ایک حادثہ ہوا تو وہ معذور ہوگئے
خیرات مانگنے پہ وہ مجبور ہوگئے
لیکن نہیں ہوں میں کوئی محتاج یا فقیر
ہوں خود کفیل خیر سے، ایک مردِ باضمیر
جیبوں سے پیسے کھینچنے آیا نہیں ہوں میں
کچھ مانگنے یا بیچنے آیا نہیں ہوں میں
دراَصل بات یہ ہے کہ شاعر ہے خاکسار
لیکن ہوں بدنصیب، نہیں کوئی میرا یار
ٹی وی سے، ریڈیو سے، محافل سے دُور دُور
راہی کی طرح جوکہ ہو منزل سے دُور دُور
دیوار ودَر کو گھر میں سناتا ہوں میں کلام
بس آپ سے ہے عرض میری کیجئے یہ کام
سو کے قریب آدمی موجود ہیں یہاں
بس میں مشاعرے کا بندھے اگر سماں
سن لیجئے غزل میری، احسان کیجئے!
اور بھیک میں غریب کو کچھ داد دیجئے!

’’ مسافر شاعر‘‘ کی مدّعا سن کرسوائے ان مسافروں کے جو بیچارے بس کی چھت میں سوار تھے ، بس کے تمام مسافراس کے ’’فن‘‘ کے قائل ہوگئے اورانھوں نے ’’مسافر شاعر‘‘ کو بھرپور داد دیتے ہوئے اس کی ’’تازہ غزل ‘‘ سننے پر آمادگی ظاہر کردی۔ ۔ ۔ !

سفر آخرت (آخری حصہ)

نیک اعمال کا آنا کم ہوتا چلا گیا۔ نہ معلوم کیا وجہ تھی کہ سورۃ الملک کا آنا بھی موقوف ہو گیا۔ میری قبر میں پھر اندھیرا چھا گیا۔ مجھے بعض گناہ یاد آئے جو میں نے کیے تھے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک گھڑی یاد آرہی تھی ۔ مجھے اپنے گناہ پہاڑ کے برابر لگ رہے تھے۔ میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا۔ کتنے گناہ تھے جو میں نے دیدہ دلیری سے کیے تھے۔ کتنی نمازیں تھیں جو میں نے ادا نہیں کی تھیں۔ کتنی فجر کی نمازیں تھیں جو میں نے غفلت کی وجہ سے نہیں پڑھیں۔

یہ سارے گناہ یاد کر کے میں نجانے کتنا روتا رہا؟ اگر میں کہہ دوں کہ مہینوں رویا ہوں گا تو مبالغہ نہیں ہوگا۔

ایک دن اچانک ایسی روشنی آئی جیسے سورج نکل چکا ہو اور میں نے فرشتوں کی آوازیں سنیں کہ وہ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے کہ اچانک میرے پاس سورۃ الملک آئی اور خوشخبری سنانے لگی: رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا ہے اور اس میں بہت سارے مرحومین مسلمانوں کی دعاؤں کی برکت سے نجات پا لیتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر کتنا مہربان ہے لیکن انسان ہے کہ گمراہی پر تُلا ہوا ہے۔

سورۃ الملک نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو آگ میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن یہ انسانوں کی اپنی حماقت ہوتی ہے کہ وہ ایسے گناہ کر جاتے ہیں جو ان کی سزا کا موجب بن جاتے ہیں۔
پھر اس نے کہا: اب تھوڑی دیر بعد مسلمان نماز پڑھیں گے اور تم ان کی آواز بھی سنو گے۔سورۃ الملک چلی گئی۔ میری قبر کی روشنی بدستور موجود تھی۔میں نے قبر میں پہلی بار مسجد سے آنے والی آواز سنی۔ اپنی زندگی کو یاد کیا ۔ مجھے نماز تراویح کی یاد آگئی۔میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں نے سنا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور پھر میں نے امام کی دعا سنی۔ وہ دعا مانگ رہے تھے:


اللهم لا تدع لنا في مقامنا هذا ذنبا الا غفرته ولاهما الا فرجته ولا كربا الا نفستهولا مريضا الا شفيته ولا مبتليً الا عافيته ولا ميتا الا رحمته برحمتك يا ارحم الراحمين۔


اس دعا سے مجھے بہت سکون ملا اور میں نے تمنا کی کہ کاش امام دعا کو طویل کر دے۔ میں نے محسوس کیا کہ امام صاحب کی دعا فوری قبول ہورہی ہے کیونکہ مجھے اس سے کافی خوشی اور راحت مل رہی تھی۔ میں روتا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ آمین پڑھتا جا رہا تھا۔ اس طرح رمضان کا سارا مینہ بہت سکون اور آرام سے گزرا۔

ایک دن میری قبر میں انسان کی شکل میں ایک آدمی آیا جس سے بہت تیز خوشبو آ رہی تھی۔ میں حیران ہوا کیونکہ مرنے کے بعد یہ پہلا انسان تھا جو میں دیکھ رہا تھا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور میں نے اسے سلام کا جواب دیا۔ اس نے کہا: میں تمھیں بشارت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے گناہ معاف کر دیے ہیں۔

میں نے کہا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ کون ہیں؟ میں پہلی دفعہ قبر میں انسان کی شکل دیکھ رہا ہوں۔ اس نے کہا: میں انسان نہیںہوں۔ میں نے پوچھا: کیا آپ فرشتے ہیں۔ اس نے کہا: نہیں بلکہ میں تمھارا نیک عمل ہوں۔ تمھاری نمازیں، تمھارے روزے، حج، انفاق فی سبیل اللہ، صلہ رحمی وغیرہ وغیرہ کو اللہ تعالیٰ نے اس شکل میں تمھارے پاس بھیجا ہے۔

میں بہت خوش ہوا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر اس سے پوچھا: تم اتنی تاخیر سے کیوں آئے؟

اس نے کہا: تمھارے گناہ اور تمھارے قرضے میری راہ میں رکاوٹ تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے معافی کا اعلان کر دیا تو میرے لیے راستہ کھل گیا۔

میں نے پوچھا: تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کر ے گا؟

اس نے کہا: یہ بات اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔قیامت کے روز اس بات کا تعین ہوگا کہ تم جنت میں جاؤ گے یا دوزخ میں۔

اس کے بعد عمل صالح نے کہا: تمھارے کچھ نیک اعمال بالکل زندگی کی آخری گھڑیوں میں آگئے۔ میں نے پوچھا: وہ کیسے؟

اس نے کہا: اگر تمھیں یاد ہو کہ مرتے وقت اللہ تعالیٰ نے تمھیں توفیق دی تھی اور تم نے کلمہ شہادت پڑھاتھا۔تمھیں اندازہ نہیں ہے کہ فرشتوں کو اس بات کی کتنی خوشی ہوئی کہ تمھاری زندگی کا خاتمہ توحید پر ہوا جبکہ شیطان لعین تمھیں نصرانیت اور یہودیت کی تلقین کر رہا تھا۔ اس وقت تمھارے ارد گرد دو قسم کے فرشتے موجود تھے۔ ایک وہ جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔جب تم نے کلمہ پڑھا تو وہ فرشتے چلے گئے جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور وہ ٹھہر گئے جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور انھوں نے ہی تمھاری روح قبض کی۔

میں نے پوچھا: اس کے علاوہ بھی کوئی نیکی ہے؟

اس نے کہا: ہاں جب تم نے ڈرائیور کو سگریٹ چھوڑنے کی نصیحت کی تو آج جو خوشبو تم محسوس کر رہے ہو، یہ اس نصیحت کی بدولت ہے۔
اس کے علاوہ اپنی والدہ کو جو تم نے فون کیا اور ان کے ساتھ تم نے جو بھی باتیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات کے بدلے تمھارے لیے نیکیاں لکھ دیں۔

مجھے وہ باتیں یاد آئیں جو میں نے والدہ سے کی تھیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اگر مجھے پتا ہوتا تو میں ان باتوں میں گھنٹے لگا دیتا۔

پھر عمل صالح نے مجھے بتایا: زندگی کے آخری وقت میں ایک گناہ بھی تمھارے کھاتے میں لکھا گیا۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا: وہ کون سا؟ اس نے جواب دیا: تم نے اپنی بچی سے کہاتھا کہ میں تھوڑی دیر میں آجاؤنگا۔ اس طرح تم نے اسے جھوٹ بولا۔ کاش مرنے سے پہلے تم توبہ کر لیتے۔

میں رویا اور پھر اسے بتایا: اللہ کی قسم میرا ارادہ جھوٹ کا نہیں تھا بلکہ میں میرا ارادہ اسے مطمئن کرنے کا تھا تاکہ وہ میری واپسی تک صبرکر لے مگر ایسا نہ ہو سکا۔

اس نے کہا: جو بھی ہو۔ آدمی کو ہمیشہ سچ بولنا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالیٰ سچے لوگوں کو پسند کرتا ہے اور جھوٹ بولنے والوں کو ناپسند کرتا ہے، مگر افسوس لوگ اس معاملے میں بہت تساہل اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

پھر اس نے بتایا: تمھاری وہ بات بھی گناہ کے کھاتے میں لکھ دی گئی تھی، جو تم نے ایئر پورٹ میں کاؤنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہی تھی کہ اللہ تمھارا حساب کر دے۔ اس طرح تم نے ایک مسلمان کا دل دکھایاتھا۔ میں حیران ہوگیا کہ اتنی معمولی باتیں بھی ثواب اور گناہ کا باعث بنتی ہیں!

عمل صالح نے مزید بتایا: یہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ جب وہ ایک نیکی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے 10 گناہ بلکہ 700 گنا بڑھا دیتا ہے مگر ایک گناہ کو ایک ہی شمار کرتا ہے اور بہترین اعمال وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

میں نے پوچھا: پنج وقتہ نماز کے بارے میں کیا خیال ہے؟

عمل صالح نے بتایا: نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ تو فرائض ہیں۔میں ان کے علاوہ بھی تمھیں ایسے اعمال بتاؤنگا جو اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ محبوب ہیں۔

میں نے پوچھا: وہ کیا ہیں؟

اس نے بتایا: تمھاری عمر جب بیس برس تھی تو تم عمرے کے لیے رمضان کے مہینے میں گئے تھے اور تم نے وہاں سو ریال کی افطاری خرید کر لوگوں میں تقسیم کی تھی، اس کا بہت زیادہ اجر تم نے کمایا ہے۔

اسی طرح ایک بار ایک بوڑھی عورت کو تم نے کھانا کھلایا تھا۔ وہ بوڑھی ایک نیک عورت تھی۔ اس نے تمھیں جو دعا دی اس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے تمھیں بہت اجر و ثواب عطا کیا ہے۔

اسی طرح ایک بار تم مدینہ جا رہے تھے کہ راستے میں تمھیں ایک آدمی کھڑا ہوا ملا، جس کی گاڑی خراب تھی۔ تم نے اس کی مدد کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کو تمھاری وہ نیکی بہت پسند آئی اور تمھیں اس کا بہت زیادہ اجر ملا ہے۔

اس کے بعد میری قبر کھل گئی اور اس میں بہت زیادہ روشنی آگئی ۔ مجھے فرشتوں کے گروہ درگروہ آسمان سےاُترتے ہوئے دکھائی دیے۔ عمل صالح نے بشارت دی: آج لیلۃ القدر ہے!

٭۔۔۔ ۔٭

 ذرا سوچئے!

یہ کہانی عبرت کے لیے لکھی گئی ہے ،لیکن احادیث مبارکہ کے بیان کے عین مطابق ہے۔

1۔ کیا یہ کہانی پڑھنے کے بعد بھی ہم آخرت کے لیے فکرمند نہیں ہوں گے؟

2۔ کیا اب بھی ہم گناہ کریں گے؟

3۔ کیا اب بھی ہم فجر کی نماز میں اللہ کے حضور غیر حاضر رہیں گے؟

4۔ کیا مسجد کی باجماعت نماز ہمارے لیے باعث رحمت نہیں ہے، جہاں وقتا فوقتا اسی طرح کے ایمان افروز اور عبرت انگیز تذکرے سننے کو ملتے ہیں؟

أقول قولي هذا ـ ایها الاخوة ـ و أستغفر الله تعالی لي ولكم فاستغفروه إنه هو الغفور الرحيم، وادعوه یستجب لکم۔۔

ختم شد

سفر آخرت (حصہ ششم)

اس کے بعدسورۃ الملک چلی گئی ۔ میری قبر میں بدستور وہ روشنی باقی تھی جو میرے والد کی دعا کی برکت سے آئی تھی اور میں انتظار کرتا رہا جیسے کہ میں جیل کے اندرکوئی قیدی ہوں۔ مجھے وقت کا کوئی اندازہ نہیں تھا کیونکہ نہ یہاں گھڑی تھی، نہ نماز، نہ کھانا پینا اور نہ کوئی اورمصروفیت۔ دعائیں مانگنا اور ذکرواذکار کرنا بھی لاحاصل۔ بعض اوقات لوگوں کے قدموں کی آوازیں سن لیتا تو اندازہ ہوتا کہ شاید کسی کا جنازہ ہے۔ بعض اوقات لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں آ جاتی تھیں تو مجھے تعجب ہوا کرتا تھا کہ ان کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم کس صورتحال سے دوچار ہیں اور یہ دنیا میں مگن ہیں۔


ایک روز اچانک میرے جسم کی گرمی بڑھنی شروع ہوئی اور میں چیخنے لگا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ایک تندور کے اندر ہوں۔ میرے خوف میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ لیکن پھر اچانک گرمی کم ہونی شروع ہوگئی یہاں تک کہ بالکل غائب ہوگئی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

اس کے بعد ایک بار پھر سورۃ الملک کی روشنی آگئی اور مجھے سے بولی: تمھیں مبارک ہو! میں نے کہا: کیا ہوا؟

اس نے کہا: خوابوں کا فرشتہ تمھاری بیوی کو خواب میں آیا اور تمھاری بیوی نے خواب میں تمھیں ایک سیڑھی پر چڑھتے ہوئے دیکھا کہ سات سیڑھیاں باقی ہیں ، تم پریشان کھڑ ےہو اور آگے نہیں بڑھ پا رہے۔ پھر وہ فجر کی نماز سے پہلے اٹھی۔ تمھاری یاد میں روئی اور صبح ہوتے ہی ایک عورت سے رابطہ کیا جو خوابوں کی تفسیر بیان کرتی ہے اور اسے اپنا خواب سنایا۔ اس عورت نے کہا: اے بیٹی! تمھارا شوہر قبر میں تکلیف میں مبتلا ہے کیونکہ اس پر کسی کے 1700ریال قرض ہیں۔

تمھاری بیوی نے پوچھا: کس کا قرض ہے اور ہم کیسے ادا کریں؟

اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم۔ اس بارے میں علماء سے معلوم کرو۔

پھر تیری بیونی نے ایک شیخ کی اہلیہ سے رابطہ کیا اور اسے ساری بات بتا دی تاکہ وہ شیخ سے جواب پوچھ لے۔شیخ نے اسے بتایا: مرحوم کی طرف سے صدقہ کر دے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کر کےمرحوم کا عذاب دور کر دے۔

تمھاری بیوی کے پاس سونا تھا جس کی مالیت چار ہزار ریال تھی۔ اس نے وہ سونا تمھارے والد کے حوالے کر دیا اور تمھارےوالد نے اس میں کچھ مزید رقم شامل کر کے صدقہ کر دیا اور یوں تمھارامسئلہ حل ہوگیا۔

میں نے کہا: الحمداللہ مجھے اس وقت کوئی تکلیف نہیں ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تمھارے تعاون سے ہوا۔

سورۃ الملک نے کہا: الحمداللہ! اب اعمال والے فرشتے تمھارے پاس آئیں گے۔

میں نے پوچھا: کیا اس کے بعد بھی میرے لیے کوئی خطرہ ہے؟

اس نے کہا: سفر بہت طویل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں کئی سال لگ جائیں لہٰذا اس کے لیے تیار رہو۔

کئی سال والی بات نے میری پریشانی میں اضافہ کر دیا۔

سورۃ الملک نے بتایا: بہت سارے لوگ صرف اس وجہ سے اپنی قبروں میں عذاب جھیل رہے ہیں کہ وہ بعض باتوں کو معمولی سمجھتے تھے، جبکہ اللہ کے نزدیک وہ معمولی نہیں تھیں۔

میں نے پوچھا: کون سی باتیں؟

اس نے کہا: بہت سارے لوگوں پر قبروں میں اس لیے عذاب جاری ہے کہ وہ پیشاب سے نہیں بچتے تھے اور گندگی کی حالت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے۔ اسی طرح چغلی، چوری، سود اور یتیم کا مال غصب کرنے کی وجہ سے ان پر عذاب ہو رہا ہے۔کچھ لوگوں پر عذابِ قبر اس لیے ہے تاکہ قیامت آنے سے پہلے ان کا کھاتہ صاف ہو جائے اور کچھ لوگوں پر قیامت تک عذاب رہے گا اور پھر جہنم میں انھیں داخل کردیا جائے گا۔

میں نے پوچھا: اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کی کوئی سبیل ہے؟

سورۃ الملک نے کہا: عمل تو تمھارا منقطع ہو چکا ہے البتہ تین کام ایسے ہیں جو تمھیں اب بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔

میں نے پوچھا: وہ کیا ہیں؟

اس نے کہا: اہل و عیال کی تمھارے حق میں دعا اور صدقات۔ اس کے علاوہ کوئی ایساکام تم نے دنیا میں کیا ہو جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو مثلاََ مسجد کی تعمیر تو اس سے تم مرنے کے بعد بھی مستفید ہو سکتے ہو۔اسی طرح اگر علم کی نشر و اشاعت میں تم نے حصہ لیا ہو تو وہ اب بھی تمھارے لیے نفع بخش ہے۔

میں نے سوچاکہ میں کتنا بدبخت ہوں ! دنیا میں نیک اعمال کرنے کے کتنےمواقع تھے جن سے میں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور آج بے یارومددگار قبر میں پڑا ہوں۔
میرا دل چاہا کہ میں چیخ چیخ کر لوگوں کو پکاروں : اے لوگو! قبر کے لیے تیاری کر لو۔ خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے وہ کچھ دیکھ لیا جو میں نے دیکھا ہے تو مسجد سے باہر نہیں نکلو گے اور اللہ کی راہ میں سارا مال لگا دو گے۔

سورۃ الملک نے کہا: مرجانے والوں کی نیکیاں عام طور پر شروع کے دنوں میں بہت ہوتی ہیں لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔

میں نے پوچھا: کیا یہ ممکن ہے کہ میرے گھر والے اور میرے رشتہ دار مجھے بھول جائیں گے؟ مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ وہ اتنی جلدی مجھے فراموش کر دیں گے؟

اس نے کہا: نہیں ایسا ضرور ہوگا! بلکہ تم دیکھو گے کہ شروع میں تمھاری قبر پر تمھارے اہل و عیال زیادہ آئیں گے لیکن جب دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہونگے تو تمھاری قبر پر آنے والاایک بندہ بھی نہیں ہوگا!

مجھے یاد آیا کہ جب ہمارے دادا کا انتقال ہوا تھا تو ہم ہر ہفتے ان کی قبر پر جایا کرتے تھے۔ پھر مہینے میں ایک بار جانے لگے اور پھر سال میں ایک دفعہ۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہم انھیں بھول گئے۔جب میں زندہ تھا تو مرحومین کو بھول جاتا تھا لیکن آج میں خود اس حالت کو پہنچ چکا تھا۔ دن، ہفتے اور مہینے گزرتے گئے اور میری مدد کے لیے کوئی نہ تھا۔ سوائے چند نیک اعمال (صدقہ جاریہ)کے جو مجھے پہنچتے تھے۔ یا میرے والد، بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کا میری قبر پر ایصالِ ثواب کے لیےآنا جو رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ زیادہ تر مجھے اپنی والدہ کی دعا پہنچتی تھی جو وہ تہجد میں میرے لیے کرتی تھیں۔ بخدا وہ دعا میرے لیے طمانیت کا باعث ہوتی تھی۔

ساتواں اور آخری حصہ پڑھیے ۔۔۔۔۔


سفر آخرت (حصہ پنجم)

میرا سوال ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ میری قبر میں اچانک روشنی آگئی اور ایک ایسی خوشبو پھیل گئی کہ ایسی خوشبو میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں سونگھی تھی۔

اسی روشنی سے آواز آئی: السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ! میں نے کہا: وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ! تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں سورۃ الملک ہوں۔ میں اس لیے آئی ہوں کہ اللہ سے تمھارے لیے مدد طلب کروں کیونکہ تم نے میری حفاظت کی تھی اور تمھارے رسولﷺ نے تمھیں بتا دیا تھا کہ جو کوئی سورۃ الملک پڑھے گا، قبر میں وہ اس کے لیے نجات کا ذریعہ ہوگی۔

میں بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا: میں نے بچپن میں تمھیں حفظ کر لیا تھا اور میں ہمیشہ نماز میں اور گھر میں تمھاری تلاوت کیا کرتا تھا، مجھے اس وقت تمھاری اشد ضرورت ہے۔

اس نے کہا: ہاں اسی لیے تو میں آئی ہوں کہ اللہ سے دعا کروں کہ وہ تمھاری مشکل کو آسانی میں بدل دے لیکن تم سے ایک غلطی ہوئی ہے کہ تم نے لوگوں کے قرضے ادا نہیں کیے ہیں۔

میں نے پوچھا: نجات کا کوئی طریقہ ہے؟

اس نے کہا: تین باتوں میں سے کوئی ایک بات تمھارا مسئلہ حل کر سکتی ہے۔

میں نے جلدی سے کہا: وہ کیا ہیں؟

اس نے کہا: پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے کوئی کاغذ لکھ کر چھوڑا ہے، جسے دیکھ کر تمھارے ورثاء وہ قرضے ادا کر دیں؟

ورثاء کا نام سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ مجھے تمام گھر والے والد،والدہ، بیوی، بچے، بھائی اور بہن یاد آگئے۔ پتا نہیں میرے بعد ان کا کیا حال ہوگا؟ میری چھوٹی بچی جس سے میں نے چاکلیٹ کا وعدہ کیا تھا۔ اب کون اس کو چاکلیٹ لے کر دے گا؟ میری بیوی کو لوگ بیوہ کہیں گے۔ کون ان کا خیال رکھے گا؟

سورۃ الملک نے پوچھا: لگ رہا ہے، تم کوئی چیز یاد کر رہے ہو؟

میں نے کہا: مجھے اپنے اہل و عیال اور بچے یاد آئے کہ نجانے میرے بعد ان کیا کیا حال ہوگا؟

سورۃ الملک نے کہا: جس نے انھیں پیدا کیا ہے، وہی روزی بھی دے گا اور وہی نگہبان بھی ہے۔

سورۃ الملک کی اس بات سے مجھے کافی تسلی ہوئی۔ اس کے بعد میں نے پوچھا: کیا میں جان سکتا ہوں کہ میرے اوپرکل کتنا قرضہ ہے؟

سورۃ الملک نے بتایا: میں نے فرشتے سے پوچھا تھاتو اس نے بتایا کہ تم ایک ہزار سات سو ریال کے مقروض تھے۔ ایک ہزارتمھارے اس دوست کے ہیں، جس کا نام ابو حسن ہے اور باقی مختلف لوگوں کے ہیں۔

میں نے پوچھا: مختلف لوگ کون ہیں؟

اس نے کہا: دراصل بلوغت سے لے کرموت تک تم سے کئی بار اس حوالے سے کوتاہی ہوئی ہےاور اس طرح قرضہ بڑھتا گیا۔مثلاََپانچ ریال اس دکاندار کے ہیں جس سےتم نے کوئی چیز خریدی تھی، اس وقت تمھاری عمر 15 سال تھی۔تم نے اسے کہا: پیسے کل دے دونگا اور پھر تم نے نہیں دیے۔

اسی طرح لانڈری والے سے تم نے کپڑے دھلوائےلیکن اس کو ادائیگی کرنا بھول گئے۔ اسی طرح اس نے ایسے کئی لوگوں کے نام بتا دیے جن کے پیسے مجھ پر قرض تھے اور مجھے بھی وہ اب یاد آ تے جا رہے تھے۔

سورۃ الملک نے کہا: لوگوں کے حقوق کو معمولی سمجھنے اور ان سے تساہل برتنے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ کیا تمھیںتمھارے رسول ﷺنے خبر نہیں دی تھی کہ شہید کے اعمال بھی روک لیے جائیں گے، جب تک کہ اس کا قرضہ ادا نہیں ہوگا!

میں نے کہا: نجات کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟

اس نے کہا: پہلا حل تو یہ ہے کہ جس کا قرضہ ہے، وہ اپنا قرضہ معاف کر دے۔

میں نے کہا: ان میں سے اکثر تو ان قرضوں کو بھول گئے ہیں، جس طرح میں بھول گیا تھا اور ان کو میرے مرنے کی خبر بھی نہیں ہو گی۔

اس نے کہا: پھر دوسرا حل یہ ہے کہ تمھارے ورثاء تمھاری طرف سے ادائیگی کر دیں۔

میں نے کہا: ان کو میرے قرضوں کی اور میری تکلیف کی کہاں خبر ہے؟ جب کہ میں نے کوئی وصیت نامہ بھی نہیں چھوڑا کیونکہ موت نے اچانک مجھےآلیا تھااور مجھے ان ساری مشکلات کا علم بھی نہیں تھاجو مجھے اب درپیش ہیں۔

سورۃ الملک نے کہا: ایک اور حل ہو سکتا ہے، لیکن وہ میں تھوڑی دیر بعد تمھیں بتا ؤں گی اور اب میں جاتی ہوں۔

میں نے کہا: خدارا مت جاؤ کیونکہ تمھارے چلے جانے سے قبر دوبارہ تاریک ہو جائے گی، جو میری موجودہ تکلیف میں اضافے کا باعث بنے گی۔

سورۃ الملک نے کہا : میں زیادہ دیر کے لیے نہیں جا رہی ،بلکہ تمھارے لیے کوئی حل نکالنے کے لیے جا رہی ہوں۔ اس کے بعد سورۃ الملک چلی گئی اور میں گھپ اندھیرے میں اکیلا رہ گیا۔ ہیبت اور تکلیف کے باوجود میں نے کہا: یا ارحم الراحمین! اے اجنبیوں کے مولیٰ اور تنہائی کےساتھی۔ اس قبر کی تاریکی میں میری مدد کر لیکن مجھے خیال آیا کہ میں تو دارالحساب میں ہوں۔ اب دعاؤں کا کیا فائدہ؟

زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ایک مانوس آواز سنی۔ یہ میرے والد بزرگوار کی آواز تھی جو کہہ رہے تھے : السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ لیکن میرا جواب انھیں کون پہنچاتا؟ پھر انھوں نےاللہ سے میرے لیے مغفرت اور عذاب ِ قبر سے نجات کی دعا کی۔ پھر انھوں نے روتے ہوئے کہا: اے اللہ! میں اپنےاس بیٹے سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔

میرے والد صاحب جب دعا مانگ رہے تھے تو دعا کے دوران ایک نہایت تیزروشنی میری قبر میں آئی۔ یہ دراصل رحمت کا فرشتہ تھا جو میرے والد کی دعا کو نوٹ کر رہا تھا اور جب تک میرے والد میری قبر سے نہیں گئے، وہ میرے ساتھ رہا۔

جب میرے والد صاحب چلے گئے تو فرشتے نے کہا: تیرے والد کی دعا آسمانوں تک جائے گی اور انشاءاللہ ،اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا کیونکہ والد کی دعا اپنے بیٹے کے لیےمقبول ہوتی ہے۔

میں نے تمنا کی کہ کاش میرے والد میری قبر پر زیادہ دیر کے لیے ٹھہرتے اور دعا کومزید طول دیتے کیونکہ ان کی دعا کی وجہ سے مجھے کافی آرام ملا۔

میں نے فرشتے سے پوچھا: کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟

فرشتے نے کہا: پوچھو!

میں نے پوچھا: مجھے مرے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے؟

اس نے کہا:: تمھاری وفات کو آج تین دن گزر گئے ہیں اور اس وقت ظہر کا وقت ہے۔

میں نے حیرانگی سے کہا: تین دن اور اتنے سارے معاملات اور واقعات؟ یہاں میری قبر میں تاریکی ہے جبکہ باہر کی دنیا روشن ہے؟

فرشتے نے کہا: تمھارے سامنے بہت لمبا سفر ہے، اللہ اسے تمھارے لیے آسان کر دے۔

میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور زاروقطار رونے لگا اور ایسا رویا کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی زندگی میں اتنا رویا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اتنا خطرناک سفر اور دنیا میں میری اس سفر کے لیے اتنی غفلت!

فرشتے نے جاتے وقت بتا یا کہ قبر میں موجود روشنی تیرے والد کی دعا کی وجہ سے ہے اور یہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ مجھے پتا چلا کہ والد کا میری قبر تک آنا میرے لیے باعث رحمت ہے۔

میں نے تمنا کی کہ کاش میرے والد صاحب میری آواز سن لیں اور میں انھیں بتادوں کہ والد صاحب! میرے قرضوں کی ادائیگی کر دیں اور میری طرف سے صدقہ کر دیں۔ اللہ کے واسطے! میرے لیے دعا کریں۔ لیکن کون تھا جو انھیں میری یہ بات بتا تا؟

میں نے محسوس کیا کہ بعض اوقات میرے جسم کی گرمی کم ہوجاتی تھی اور پھر اچانک سے بڑھ جاتی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس کا تعلق میرے حق میں لوگوں کی دعائیں ہیں۔

اچانک میری قبر میں پھر وہی روشنی آئی جو اس سے پہلے میں دیکھ چکا تھا یعنی سورۃ الملک کی۔سورۃ الملک نے بتایا: تمھارے لیے دو خوشخبریاں ہیں۔

میں نے اشتیاق سے پوچھا: کیا ہیں؟

سورۃ الملک نے بتایا: تمھارے دوست نے اللہ کی خاطر تمھارا قرضہ معاف کر دیا ہے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ میری قبر کی گرمی کم ہوجانے کی وجہ شاید یہی تھی۔

میں نے پوچھا: دوسری بشارت کیا ہے؟

اس نے کہا: میں نے اللہ سے بہت درخواست کی لیکن انسانوں کے حقوق وہ معاف نہیں کرتا۔ البتہ اللہ نے ایک فرشتہ بھیج دیا ہے جو تیرے رشتہ داروں میں سے کسی کو خواب میں آئے گا تاکہ وہ تمھارے قرضوں کے متعلق سمجھ جائیں۔

پھر اس نے پوچھا: تمھارے خیال میں کون بہتر ہے جس کو خواب میں وہ فرشتہ کسی شکل میں آئے اور وہ اس خواب کو سمجھ کر قرضے کی ادائیگی کرے۔
میں نے اپنی والدہ کے بارے میں سوچا لیکن پھر سوچا کہ اگر انھوں نے مجھے خواب میں دیکھا تو رونا شروع کر دے گی اور خواب کی تفسیر نہیں سمجھ سکے گی، پھر میں نے تمام رشتہ داروں کے متعلق سوچا۔ ان سب میں مجھے میری بیوی موزوں ترین لگی کیونکہ وہ خوابوں کو ہمیشہ اہمیت دیا کرتی تھی۔ میں نے کہا: میری بیوی اگر مجھے خواب میں دیکھ لے تو ہوسکتا ہے، وہ اس کی تفسیر سمجھ جائے۔

سورۃ الملک نے کہا: میں متعلقہ فرشتے کو اطلاع دیتی ہوں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ تمھاری مشکل کو آسان کر دے۔

حصہ ششم پڑھیے ۔۔۔۔۔

سفر آخرت (حصہ چہارم)

نماز ختم ہوئی تو موذن نے نماز جنازہ کے لیے لوگوں کو پکارا۔ امام صاحب میرے قریب آگئے اور نماز جنازہ شروع کی۔ میں حیران ہوا کہ وہاں بہت سارے فرشتے آگئے جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ نماز پڑھنے والے کتنے لوگ ہیں اور ان میں سے کتنے موحد ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے؟

چوتھی تکبیر میں میں نے دیکھا کہ فرشتے کچھ لکھ رہے ہیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ لوگوں کی دعائیں لکھ رہے ہوں گے۔اس وقت میرے دل میں شدید خواہش ہوئی کہ امام اس رکعت کو مزیدلمبی کر دے کیونکہ لوگوں کی دعاؤں سے مجھے عجیب سی راحت اور سرور مل رہا تھا۔


نماز ختم ہوئی اور مجھے اٹھا کر قبرستان کی طرف لے جایا گیا۔ راستے میں کچھ لوگ دعائیں مانگ رہے تھے اور کچھ رو رہے تھے اور میں حیران و پریشان تھا کہ نہ معلوم میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟مجھے اپنے تمام گناہ ، خطائیں اور غفلت کی گھڑیاں جو میں نے دنیا میں گزاری تھیں، ایک ایک کر کے یاد آرہی تھیں۔ ایک شدید ہیبت کا عالم تھا جس سے میں گزر رہا تھا۔ الغرض قبرستان پہنچ کر مجھے اتارا گیا۔ اس وقت مختلف قسم کی آوازیں سننے میں آئیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ جنازے کو راستہ دو۔ کوئی کہہ رہا تھاکہ فلاں طرف لے جاؤ۔ کوئی کہتاکہ قبر کے قریب رکھ دو۔ یا اللہ! میں نے تو کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ معاملات کبھی میرے ساتھ بھی پیش آ سکتے ہیں؟

مجھے قبر میں روح اور جسم کے ساتھ اتارا گیا لیکن لوگوں کو صرف میرا جسم نظر آرہا تھا، روح نظر نہیں آرہی تھی۔اس کے بعد میری لحد کو بند کرنا شروع کر دیا گیا۔ میرا دل چاہا کہ چیخ چیخ کر کہوں کہ مجھے یہاں نہ  چھوڑو، معلوم نہیں میرے ساتھ کیا ہوگا لیکن میں شدید خواہش کے باوجود بول نہیں سکتا تھا۔

الغرض میری قبر میںمٹی ڈالی جاتی رہی حتیٰ کہ قبر میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔ لوگوں کی آوازیں بند ہوتی چلی گئیں لیکن میں ان کے قدموں کی آوازیں سن رہا تھا۔ ان میں سے جو کوئی میرے لیے دعا کرتا تو اس سے مجھے سکون ملتا تھا۔
اچانک قبر مجھ پرتنگ ہوگئی اور ایسا لگا کہ میرے پورے جسم کو کچل دے گی۔ اور قریب تھا کہ میں ایک زوردار چیخ نکالتا۔ لیکن قبرپھر دوبارہ اپنی اصل حالت میں آگئی۔

اس کے بعد میں نےدونوں جانب دیکھنے کی کوشش کی کہ اچانک دو ہیبت ناک قسم کے فرشتے نمودار ہوئے۔ جن کے بڑے بڑے جسم،کالی رنگت اور نیلی آنکھیں تھیں۔ ان کی آنکھوں میں بجلی جیسی چمک تھی اور ان میں سے ایک کے ہاتھ میں گرز تھا۔ اگر اسے پہاڑ پر مارے تو اسے ریزہ ریزہ کر دے۔

ان میں سے ایک نے مجھے کہا: بیٹھ جاؤ تو میں فوراََ بیٹھ گیا۔ پھر اس نے کہا:    من ربک (تمھارا رب کون ہے؟)۔ جس کے ہاتھ میں گرز تھا، وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا۔ میں نے جلدی سے کہا: ربی اللہ (میرا رب اللہ ہے)۔ جواب دیتے وقت مجھ پرکپکپی طاری تھی۔ اس لیے نہیں کہ مجھے جواب میں کوئی شک تھا بلکہ ان کے رعب کی وجہ سے ایسا ہو رہا تھا۔ پھر اس نے مزید دو سوال کیے کہ تمھارا نبی کون ہے اور تمھارا دین کون سا ہے؟ اور الحمداللہ میں نے ٹھیک جوابات دے دیے۔
انھوں نے کہا: اب تم قبر کے عذاب سے بچ گئے۔ میں نے پوچھا: کیا تم  منکر و نکیر ہو؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں اور اگر تم صحیح جوابات نہیں دیتے تو ہم تمھیں اس گرز سے مارتے اور تم اتنی شدیدچیخیں نکالتے کہ اسے زمین کی تمام مخلوقات سن لیتیں، سوائے انسانوں اور جنوں کے اور اگر جن و انس اسے سن لیں تو وہ بے ہوش ہو جائیں۔

میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے اس مصیبت سے بچا لیا۔ اس کے بعد وہ چلے گئے اور ان کے جانے سے مجھے قدرے اطمینان حاصل ہوا،مگر ساتھ ہی مجھے سخت گرمی محسوس ہوئی اور مجھے لگا کہ میرا جسم جلنے والا ہے گویا جہنم کی کوئی کھڑکی کھولی گئی ہو۔

اتنے میں دو اور فرشتے آگئے اور سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔انھوں نے کہا: ہم فرشتے ہیں اور قبر میں تمھارے اعمال تمھیں پیش کرنے آئے ہیں تاکہ قبر میں قیامت تک تمھیں اپنی نیکیوں کا جو بدلہ ملنا چاہیئے، وہ مل جائے۔ میں کہا: اللہ کی قسم جس سختی اور اذیت سے میں اس وقت دوچار ہوں، میں نے کبھی اس کے متعلق سوچا بھی نہیں تھا۔

پھر میں نے پوچھا: کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا: کر لو۔ میں نے پوچھا: کیا میں اہل جنت میں سے ہوں اور کیا اتنی ساری تکلیفیں  جھیلنے کے بعد بھی میرے لیے جہنم میں جانے کا خطرہ ہے؟

انھوں نےکہا: تم ایک مسلمان ہو۔ اللہ اور اس کے رسولﷺپر ایمان لائے ہو۔ لیکن جنت میں جانے کا علم اللہ کے سواکسی کو نہیں ہے۔ بہرحال اگر تم جہنم چلے بھی گئے تو وہاں ہمیشہ نہیں رہو گے کیونکہ تم موحد ہو۔

یہ سن کرمیری آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور میں نے کہا: اگر اللہ نے مجھے دوزخ میں ڈال دیاتو پتا نہیں میں وہاں کتنا عرصہ رہوں گا؟

انھوں نے کہا: اللہ سے اچھی اُمید رکھو کیونکہ وہ بہت کریم ہے اور اب ہم تمھارے اعمال پیش کر رہے ہیں۔ تمھارے وقتِ بلوغت سے تمھارے روڈ ایکسیڈنٹ کے وقت تک۔

انھوں نے کہا: سب سے پہلے ہم نماز سے شروع کرتے ہیں کیونکہ کافر اور مسلمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے لیکن فی الحال تمھارے سارے اعمال معلق ہیں۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا: میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے نیک اعمال کیے ہیں، آخر میرے اعمال معلق کیوں ہیں؟ اوراس وقت جو میں اپنے جسم میں دنیا جہان کی گرمی محسوس کر رہا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

انھوں نے کہا: اس کی وجہ یہ ہے کہ تمھارے اوپر قرضہ ہے جو تم نے مرنے سے پہلے ادا نہیں کیا ہے۔

میں رو پڑا اور ان سے پوچھا: کیسے؟ اور یہ جو میرے اعمال معلق ہیں، کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟


حصہ پنجم پڑھیے ۔۔۔۔۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.