سفر آخرت (حصہ سوم)


میں نے پوچھا: کون ہیں؟ وہ بولے جبرائیل علیہ السلام  اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور یہ کبھی اللہ کے حکم کی سرتابی نہیں کیا کرتے۔

لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یؤمرون۔(وہ اللہ کے دیے ہوئے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں)۔

 اس کے بعد ہم مزید اوپر چڑھتے گئے، یہاں تک کہ ہم آسمانِ دنیا پہنچ گئے۔ میں اس وقت ایک خوف اور کرب کے عالم میں تھا کہ اللہ جانے آ گے کیا ہوگا؟

میں نے آسمان کو بہت بڑا پایا ۔ اس کے اندر دروازے تھے جو بند تھے اور ان دروازوں پر رحمت کے فرشتے تعینات تھے، جن کے جسم بہت بڑے تھے۔ میرے ساتھی فرشتوں نے کہا: السلام علیکم و رحمتہ اللہ اور ان کے ساتھ میں نے بھی یہی الفاظ دہرائے۔ دوسرے فرشتوں نے جواب دیا: وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ! اھلا و سھلا ضرور یہ مسلمان ہی ہوگا۔ میرے ساتھی فرشتوں نے کہا: ہاں یہ مسلمان ہے۔ دروازے پر معین رحمت کے فرشتوں نے کہا: تم اندر آسکتے ہو کیونکہ آسمان کے دروازے صرف مسلمانوں کے لیے کھلتے ہیں۔ کافروں کے بارے میں اللہ کا حکم ہے: لا تفتح لھم ابواب السمائ۔ ان (کافروں) کے لیے آسمان کے دروازے نہیںکھولے جائیں گے)۔

ہم اندر گئے تو بہت ساری عجیب چیزیں دیکھیں۔ پھر ہم آگے بڑھے اور اوپر چڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا اور آخرکار ساتویں آسمان پر جا پہنچے۔ یہ آسمان باقی تمام آسمانوں سے بڑا نظر آیا جیسے ایک بہت بڑا سمندر۔ فرشتے کہہ رہے تھے: اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام۔

مجھ پراس وقت شدید ہیبت طاری ہوگئی۔میں نے سر نیچے کیا اورمیری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں حکم صادر فرمایا: میرے اس بندے کا اعمال نامہ علیین میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ کیونکہ میں نے انھیں زمین سے پیدا کیا۔ اسی میں ان کی واپسی ہوگی اور ایک بار پھر اسی زمین سے انھیں اٹھاؤں گا۔شدید مرعوبیت، ہیبت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے سرشارہوکرمیں نے کہا: پروردگار! تو پاک ہے لیکن ہم نے تیری وہ بندگی نہیں کی جو ہونی چاہیئے تھی: سبحانك ما عبدناك حق عبادتك۔

فرشتے مجھے لے کر واپس زمین کی طرف روانہ ہوئے۔وہ جہاں جہاں سے گزرتے گئے، دوسرے فرشتوں کو سلام کرتے گئے۔ میں نے راستے میں ان سے پوچھا: کیا میں اپنے جسم اور گھر والوں کے متعلق جان سکتا ہوں؟

انھوں نے کہا: اپنے جسم کو عنقریب تم دیکھ لوگے لیکن جہاں تک تمھارے گھر والوں کا تعلق ہے۔ ان کی نیکیاںتمھیں پہنچتی رہیں گی لیکن تم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔

اس کے بعد وہ مجھے زمین پر لے آئے اور کہا: اب تم اپنے جسم کے ساتھ رہو۔ ہمارا کام ختم ہوگیا۔ اب قبر میں تمھارے پاس دوسرے فرشتے آئیں گے۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ کیا میں پھر کبھی آپ کو دیکھ سکوں گا؟ انھوں نے کہا: قیامت کے دن! یہ کہتے ہوئے ان پر ایک ہیبت طاری تھی۔ پھر انھوں نے کہا: اگر تم اہل جنت میں سے نکلے تو ہم ساتھ ساتھ ہوں گے، انشاء اللہ۔ میں نے پوچھا جو کچھ میں نے دیکھا اور   سنا ،کیا اس کے بعد بھی میرے جنت میں جانے میں کوئی شک رہ گیا ہے؟  انھوں نے کہا: تمھارے جنت میں جانے کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ تمھیں جو عزت و اکرام ملا وہ اس لیے ملا کہ تم مسلمان مرے ہو لیکن تمھیں اعمال کی پیشی اور میزان سے ضرور سابقہ پیش آنا ہے۔

مجھے اپنے گناہ یاد آئے اور میں نے چاہا کہ میں زور زور سے روؤں۔ انھوں نے کہا: اپنے رب سے نیک گمان رکھو کیونکہ وہ کسی پر ظلم ہرگز نہیں کرتا۔ اس کے بعد انھوں نے سلام کیا اور بڑی تیزی سے اوپر کی طرف اٹھ گئے۔

میں نے اپنے جسم پر نظر دوڑائی۔ میری آنکھیں بند تھیں اور میرے ارد گرد میرے بھائی اور والد صاحب رو رہے تھے۔ اس کے بعد میرے جسم پر پانی ڈالا گیا تو مجھے پتہ چلا کہ مجھے غسل دیا جارہا ہے۔ ان کے رونے سے مجھے تکلیف ملتی تھی اور جب میرے والد دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے تو ان کی یہ بات مجھے راحت پہنچاتی تھی۔ اس کے بعد میرے جسم کو سفید کفن پہنایا گیا۔

میں نے اپنے دل میں کہا: افسوس میں اپنے جسم کو اللہ کی راہ میں قربان کرتا۔ کاش میں شہید مرتا۔کاش میں ایک گھڑی بھی اللہ کے ذکر، نماز یا عبادت کے بغیر نہ گزارتا۔ کاش میں شب و روز اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا۔ افسوس صد افسوس!
اتنے میں لوگوں نے میرا جسم اٹھایا۔ میں اپنے جسم کو دیکھ رہا تھا لیکن نہ تو اس کے اندر جا سکتا تھا اور نہ دور ہو سکتا تھا۔ ایک عجیب سی صورتحال سے دوچار تھا۔مجھے جب اٹھایا گیا تو جو چیز میرے لیے اس وقت نہایت تکلیف دہ تھی، وہ میرے گھر والوں کا رونا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اپنے ابا سے کہہ دوں: ابا جان پلیز رونا بند کر دیں بلکہ میرے لیے دعا کریں کیونکہ آپ کا رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے۔ میرے رشتہ داروں میں اس وقت جو کوئی میرے لیے دعا کرتا تھاتو اس سے مجھے راحت ملتی تھی۔

مجھے مسجد پہنچایا گیا اور وہاں میرا جنازہ اتارا گیا۔ میں نے سنا کہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں۔ مجھے شدید خواہش ہوئی کہ میں بھی ان کے ساتھ نماز میں شریک ہوجاؤں۔ میں نے سوچا کہ کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ کہ نیکیاں کما رہے ہیں جبکہ میرا اعمال نامہ بند ہوگیا ہے۔

حصہ چہارم پڑھیے۔۔۔۔

سفر آخرت (حصہ دوم)

نوٹ: اس کہانی کے متعلق آخر میں بتاؤں گا کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟یہاں ہم میں سے ہر بھائی یہ تصور کرے کہ جو کچھ اس کہانی میں ہو رہا ہے، خود اس کے ساتھ ہو رہا ہے، کیونکہ عنقریب ہم سب کو اس سے ملتے جلتے حالات سے سابقہ پیش آنا ہے۔
 


اس کے بعد لوگوں کی آوازیں آنی بند ہوگئیں۔ میری آنکھوں کے سامنے مکمل تاریکی چھا گئی اور میں ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے میرے جسم کو چھریوں سے کاٹا جا رہا ہو۔ اتنے میں مجھے ایک سفید ریش آدمی نظر آیا۔ اس نے مجھے کہا:بیٹے یہ تمھاری زندگی کی آخری گھڑی ہے، میں تمھیں نصیحت کرنا چاہتا ہوں ،کیونکہ اللہ نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے۔ میں پوچھا:کیا ہے نصیحت؟ اس نے جواب دیا:عیسائیت قبول کر لو! خدا کی قسم اسی میں تمھاری نجات ہے۔ اگر تم عیسائیت پر ایمان لائے تو تمھیں واپس تمھارے گھر والوںتک پہنچا دوں گا اور تمھاری روح واپس دنیا میں لے آؤں گا۔ جلدی سے بولو، وقت ختم ہوا جا رہا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شیطان ہے۔ ہرچند کہ میں اس وقت سخت تکلیف عالم میں تھا اور شدید اذیت سے دوچار تھا لیکن اس کے باوجود میرااللہ اور اس کے رسولﷺ پر پکا ایمان تھا۔ میں نے اسے کہا: دفع ہو جا اللہ کے دشمن ! میں نے اسلام کی حالت میں زندگی گزاری ہے اور میں مسلمان رہ کر ہی مرونگا۔ یہ سن کر اس کا رنگ زرد پڑ گیا اور کہنے لگا: تمھاری نجات اسی میں ہے کہ تم یہودی یا نصرانی مر جاؤ ورنہ میں تمھاری تکلیف بڑھا دونگا اور تمھاری روح قبض کر لوں گا۔ میں نے کہا: موت تمھارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ کچھ بھی ہوجائے، میں اسلام کی حالت ہی میں مروں گا۔ اتنے میں اس نے اوپر دیکھا اور دیکھتے ہی بھاگ نکلا۔ مجھے لگا کہ جیسے کسی نے اسے ڈرایا ہو۔

 اچانک میں نے عجیب و غریب قسم کے چہروں والے اور بڑے بڑے جسموں والے لوگ دیکھے۔ وہ آسمان کی طرف سے آئے اور کہا:   السلام علیکم! میں نے کہا: وعلیکم السلام۔ اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے اور ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ ان کے پاس کفن تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری زندگی ختم ہوگئی ہے۔ ان میں سے ایک بہت بڑا فرشتہ میری طرف آیا اور کہنے لگا: ایتہا النفس المطمئنہ اخرجی الی مغفرتہ من اللہ و رضوان (اے نیک روح اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی کی طرف نکل آ)۔ یہ سن کر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ میں نے کہا: اللہ کے فرشتے! میں حاضر ہوں۔

اس نے میری روح کھینچ لی۔ مجھے اب ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں نیند اور حقیقت کے مابین ہوں۔ ایسا لگا کہ مجھے میرے جسم سے اوپر آسمان کی طرف اٹھایا جا رہا ہے۔ میں نے نیچے دیکھا تو پتہ چلا کہ لوگ میرے جسم کے ارد گرد کھڑے ہیں اور انھوں نے میرے جسم کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ ان میں سے کسی نے کہا: انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میں نے دو فرشتوں کو دیکھا کہ وہ مجھے وصول کر رہے ہیں اور مجھے کفن میں لپیٹ کر اوپر کی طرف لے جا رہے ہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے افق کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ مجھے بلندی سے بلندی کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ ہم بادلوں کو چیرتے چلے گئے جیسے کہ میں ایک جہاز میں بیٹھا ہوں۔ یہاں تک کہ پوری زمین مجھے ایک گیند کی طرح نظر آ رہی تھی۔ میں نے ان دو فرشتوں سے پوچھا: کیا اللہ مجھے جنت میں داخل کرے گا؟ انھوں نے کہا: اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ ہمیں صرف تمھاری روح لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور ہم صرف مسلمانوں پر مامور ہیں۔ ہمارے قریب سے کچھ اور فرشتے گزر گئے، جن کے پاس ایک روح تھی اور اس سے ایسی خوشبو آرہی تھی کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی زبردست خوشبو کبھی نہیں سونگھی تھی۔ میں نے حیرانی کے عالم میں فرشتوں سے پوچھا: یہ کون ہے؟ اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ اللہ  کے رسولﷺ بہت پہلے دنیا سے رحلت فرما چکے ہیں تو میں کہتا کہ یہ ان کی روح ہوگی۔ فرشتوں نے بتایا کہ یہ ایک فلسطینی کی روح ہے جسے یہودیوں نے تھوڑی دیر پہلے قتل کیا جبکہ وہ اپنے دین اور وطن کی مدافعت کر رہا تھا۔ اس کا نام ابو العبد ہے۔میں نے سوچا کہ کاش میں شہید ہو کر مرتا۔

اس کے بعد کچھ اور فرشتے  ہمارے قریب سے گزرے ۔ ان کے پاس بھی ایک روح تھی جس سے سخت بدبو آرہی تھی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ فرشتوں نے بتایا: یہ بتوں اور گائے کو پوجنے والا ایک ہندو ہے ،جسے تھوڑی دیر پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے ہلاک کر دیا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں کم از کم مسلمان مرا ہوں۔ میں نے ان سے  کہا : میں نے آخرت کے سفر کے حوالے سے بہت پڑھا ہے لیکن جو کچھ میرے ساتھ پیش آ رہا ہے، میں نے کبھی اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ فرشتوں نے کہا : شکر ادا کرو کہ مسلمان مرے ہو لیکن ابھی تمھارے سامنےسفر بہت لمبا ہے اور آگےبے شمار مراحل پیش آئیں گے۔

اس کے بعد ہم فرشتوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے پاس سے گزر گئے اور ہم نے انھیں سلام کیا۔انھوں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میرے ساتھ والے دو فرشتوں نے جواب دیا کہ یہ ایک مسلمان ہے، جو تھوڑی دیر پہلے حادثے کا شکار ہوگیا اور اللہ نے ہمیں اس کی روح قبض کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے کہا: مسلمانوں کے لیے بشارت ہے کیونکہ یہ اچھے لوگ ہیں۔ میں نے فرشتوں سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے بتایا: یہ وہ فرشتے ہیں جو آسمان کی حفاظت کرتے ہیں اور یہاں سے شیطانوں پر شہاب پھینکتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو اللہ کی بہت عظیم مخلوق ہیں۔ انھوں نے کہا: ان سے بھی زیادہ عظیم فرشتے ہیں۔

سفر آخرت (حصہ اول)

(ایک آدمی کی کہانی جو جدہ سے ریاض جا رہا تھا)

نحمده و نصلی علی رسوله الکریم فاعوذ بالله من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم

﴿ رب اشرح لی صدري ويسرلی أمرِي واحلل عقدة  من لسانی يفقهوا قولي﴾
ّّْْ اے میرے پروردگار میرے سینے کو کشادہ کر دے اور میرے کام کو آسان فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھیں۔

﴿کل نفس ذائقة الموت﴾
ہرجاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے
٭۔ ۔ ۔ ٭
ایک بار ریاض جانے کے لیے میں ایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا، لیکن راستے میں ٹریفک کے رش اور پولیس چیکنگ کی وجہ سے میں ایئرپورٹ تاخیر سے پہنچا۔جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور دوڑتے ہوئے کاؤنٹر جا پہنچا۔ کاؤنٹر پر موجود ملازم سے میں نے کہا: مجھے ریاض جانا ہے۔ اس نے کہا:ریاض والی فلائٹ تو بند ہو چکی ہے۔ میں نے کہا: پلیز!۔۔۔مجھے آج شام تک لازمی ریاض پہنچنا ہے۔ اس نے کہا: جناب! زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت آپ کو کوئی بھی نہیں جانے دے گا۔ میں نے کہا: اللہ تمھارا حساب کر دے۔ اس نے کہا: اس میں میرا کیا قصور ہے؟

بہرحال میں ایئرپورٹ سے باہر نکلا، حیران تھاکیا کروں؟ریاض جانے کا پروگرام منسوخ کر دوں یا اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے روانہ ہو جاؤں یا کسی ٹیکسی میں چلا جاؤں؟ آخرکار ٹیکسی میں جانے والی بات موزوں معلوم ہوئی۔

ایئرپورٹ کے باہر ایک پرائیویٹ گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے پوچھا: ریاض کے لیے کتنے پیسےلوگے؟ اس نے کہا:500ریال۔ بڑی مشکل سے اسے 450ریال پر راضی کیا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ریاض کیلئے روانہ ہوا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے اسے کہا: گاڑی تیز چلانی ہے۔ اس نے کہا: فکر مت کرواور واقعی اس نے خطرناک حد تک گاڑی دوڑانی شروع کر دی۔ راستے میں اس سے کچھ باتیں ہوئیں۔ اس نے میرے ذریعہء روزگار اور خاندان سے متعلق سوالات کیے ۔ اسی طرح کچھ سوال میں نے بھی پوچھ لیے۔

اچانک مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا کہ ان سے بات کر لوں۔ میں نے موبائل نکالا اور والدہ کو فون کیا۔ انھوں نے پوچھا: بیٹے کہاں ہو؟ میں نے جہاز کے نکل جانے اور ٹیکسی میں سفر کرنے والی بات بتا دی۔ ماں نے دعا دی: بیٹے اللہ تمھیں ہر قسم کے شر سے بچا ئے۔ میں نے کہا: انشاءاللہ! جب میں ریاض پہنچ جاؤں گا تو آپ کو اطلاع دے دونگا۔

اس وقت نہ جانے کیوں میرے دل میں قدرتی طور پرایک عجیب سی گھبراہٹ طاری ہونے لگی اور مجھے ایسا لگنے لگا جیسے کوئی مصیبت میرا انتظار کر رہی ہو۔

اس کے بعد میں نے اپنی بیوی کوفون کیا۔ میں نے اسے بھی ساری بات بتا دی اور اسے ہدایت کی کہ بچوں کا خیال رکھے۔ بالخصوص چھوٹی بچی سلمیٰ کا۔ اس نے کہا: جب سے آپ گئے ہیںسلمیٰ مسلسل آپ کے بارے میں پوچھ رہی ہے۔ میں نے کہا کہ سلمیٰ سے میری بات کرواؤ۔ بچی نے کہا: بابا!آپ کب آئیں گے۔ میں نے کہا: بیٹی! تھوڑی دیر میں آجاؤں گا، کوئی چیز چاہیئے؟ وہ بولی: ہاں بابا میرے لیے چاکلیٹ لے آؤ۔ میں ہنسا اور کہا: ٹھیک ہے۔

اس کے بعد میں اپنی سوچوں میں گم ہو گیا۔ اچانک ڈرائیور کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔ اس نے پوچھا: کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں؟ میں نے کہا: بھائی! تم مجھے ایک نیک اور سمجھدار انسان لگ رہے ہو۔ تم کیوں خود کو اور اپنے مال کو نقصان پہنچا رہے ہو؟ اس نے کہا: میں نے پچھلے رمضان میں بہت کوشش کی کہ سگریٹ نوشی چھوڑ دوں لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمھیں بڑی قوت عطا کی ہے، تم سگریٹ نوشی چھوڑنے جیسا معمولی سا کام نہیں کر سکتے؟ بہرحال اس نے کہا کہ آج کے بعد میں سگریٹ نہیں پیوں گا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ تمھیں ثابت قدمی عطا فرمائے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس کے بعد میں نے گاڑی کے دروازے کے ساتھ سر لگایا کہ اچانک گاڑی سے ایک زوردار آواز آئی اور پتا لگا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ میں گھبرایا اور ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی کی رفتار کم کر دو اور گاڑی کو قابو کرو۔ اس نے گھبراہٹ میں کوئی جواب نہیں دیا۔ گاڑی ڈرائیور سے بے قابو ہو کر ایک طرف نکل گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ایک جگہ جا کر رک گئی۔ مجھے اس وقت اللہ نے توفیق دی اور میں نے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا۔

مجھے سر میں چوٹ لگی تھی اور درد کی شدت سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سر پھٹا جارہا ہے۔ میں جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ میں بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ حتیٰ کہ میری آنکھیں کھلی تھیں، لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اتنے میں میں نےلوگوں کے قدموں کی آوازیں سنیں جو ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اسے ہلاؤنہیں، سر سے خون نکل رہا ہے اور دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاتھا اورمیں سانس لینے میں شدید دشواری محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ شاید میری موت واقع ہوگئی ہے۔ اس وقت مجھے گزری ہوئی زندگی پر جو ندامت ہوئی، میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

حصہ دوم پڑھیے۔۔۔

امتحانات

امتحانات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بیک وقت کئی طالبعلموں کے درمیان اُس شخص کو تلاش کیا جائے جو معلومات اور علمیت کے لحاظ سے باقیوں پر فوقیت رکھتا ہو۔ بعض لوگوں کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امتحانات کے ذریعے طالبعلموں کو ڈپریشن کا مریض بنایا جاتا ہے تاکہ ملک کے ماہرین ِ نفسیات کے گھروں کے چولہے جل سکیں۔

٭ امتحانات کے نزدیک مساجد کی رونق دوبارہ لوٹ آتی ہے۔ بعض نمازیوں کے مطابق اِس سے زیادہ رونق ماہِ رمضان میں ہوتی ہے۔


٭ امتحانات کا ایک عمومی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جو کتابیں سال بھر فالتو پڑی مٹّی کھاتی ہیں، اُن کی صفائی ہو جاتی ہے۔ طالب علم اُنھیں نا صرف صاف کرتے ہیں بلکہ اُن سے مستفید بھی ہوتے ہیں۔


٭ امتحانات کے دنوں میں بُک شاپس میں بڑی رونق دیکھنے میں آتی ہے۔ گیس پیپرز کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پانچ سالہ پرچہ جات اور دیگر امدادی کُتب کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے۔


٭ امتحانات کے نزدیک لوگوں کے گھروں کے بجلی کے بِلز زیادہ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔اس کی وجہ بچوں کا رات دیر تک ’’پڑھنا‘‘ بتائی جاتی ہے۔


٭ ماہرین کے مطابق امتحانات کے نزدیک ہر طالب علم کو ایک عدد طوطا پال لینا چاہئے۔ پھر جس طرح وہ رَٹے ، طالب علم بھی رَٹنا شروع کر دے۔ اللہ نے چاہا تو وہ ضرور کامیاب ہو گا!
٭۔ ۔ ۔ ٭

مسکرانا زندگی ہے!

مسکراہٹ زندگی کا اور زندہ رہنے کے احساس کا دوسرا نام ہے۔ ۔ ۔ لہٰذا ہنسیں اور خوب مسکرائیے!۔ ۔ ۔ زندگی کے مسائل سے نظریں چرانے کی بجائے انھیں ہنستے ہوئے خوشدلی کے ساتھ حل کریں۔


مسکرانا زندگی ہے اور مسکراتے چہرے زندگی کی علامت ہیں۔ ۔ ۔ اس لیے زندگی کو خوشدلی اور زندہ دلی کے ساتھ گزاریں ۔ ۔ ۔ ہر حال میں خوش رہیں۔ ۔ ۔ آپ خود محسوس کریں گے کہ زندگی کی رنگینیوں میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ ۔ ۔ مسائل کو اپنے اوپر طاری کرنے کی بجائے مسکراتے ہوئے سامنا کریں۔ ۔ ۔ زندگی خود بخود سہل محسوس ہونے لگے گی۔

اور جب آپ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اپنی مسکراہٹ سے جینے کا حوصلہ بخشیں گے تو پھر اس سے بڑھ کر عبادت اور کیا ہوگی؟۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے بندوں کو راحت اور سکون پہنچاتے ہیں۔

زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں؟

حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے متعلق کیسا عقیدہ رکھنا چاہیے؟

سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
تم میں کچھ مشابہت عیسیٰ  ؑ کی ہے، ان سے یہودیوں نے بغض رکھا یہاں تک کہ ان کی ماں پر بہتان لگایا اور نصاریٰ نے ان سے محبت کی یہاں تک کہ ان کو اس مرتبہ پر پہنچا دیا جس پر وہ نہ تھے۔
پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نےفرمایا :
میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت میں غلو کرنے والا،  جو میری ایسی تعریف کرے گا کہ مجھ میں نہیں ہے، دوسرا بغض رکھنے والا کہ میری عداوت اس کو میرے اوپر بہتان لگانے پر آمادہ کرے گی۔ (مسند امام احمد)۔
نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلد اول صفحہ 261 میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
"عنقریب میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاک ہوں گے، ایک محبت کرنے والااور حد سے بڑھ جانے والا، جس کو محبت خلاف حق کی طرف لے جائے۔ دوسرا بغض رکھنے والا حد سے کم کرنے والا جس کو بغض خلاف حق کی طرف لے جائےاور سب سے بہتر حال میرے متعلق درمیانی گروہ کا ہے جو نہ زیادہ محبت کرے ، نہ بغض رکھے، پس اس درمیانی حالت کو اپنے لیے ضروری سمجھو اور سواد اعظم یعنی بڑی جماعت کے ساتھ رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور خبردار جماعت سے علیحدگی نہ اختیار کرنا کیونکہ جو انسان جماعت سے الگ ہو جاتا ہےوہ شیطان کے حصہ میں جاتا ہے، جیسے کہ گلہ سے الگ ہونے والی بکری بھیڑیے کا حصہ بنتی ہے۔آگاہ ہو جاؤ جو شخص تم کو جماعت سے الگ ہونے کی تعلیم دے اس کو قتل کر دینا اگرچہ وہ میرے اس عمامہ کے نیچے ہو۔"
نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)جلددوم صفحہ354 میں بھی ہے:
میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہوں گے۔ ایک محبت کرنے والا حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا بہتان لگانے والا مفتری۔
اسی طرح َ نہج البلاغۃ (شیعہ کتاب)میں یہ بھی ہے:
میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہو گئے، ایک محبت کرنے والا جو محبت میں زیادتی کرے، دوسرا بغض رکھنے والا ، نفرت کرنے والا۔
اے اللہ!۔۔۔ہم مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ اور سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرمان کے مطابق ان دونوں گروہوں کے علاوہ جو ہلاک ہونے والے ہیں صرف اس گروہ میں سے ہونے کی توفیق عطا فرما۔۔۔جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہے۔ نیز اتباع و پیروی رسول ﷺ کی توفیق اور نور ایمان عطا فرما۔ آمین!

اصلاح ِ معاشرہ کا درست طریقہ

جب کوئی فرد اصلاح ِ معاشرہ کی بات کرتا ہے تو اس کی عقل و شعور اُسے یہ احساس دلاتے ہیں کہ اصلاح کا عمل پہلے اپنی ذات سے شروع کیا جائے۔ افرادِ معاشرہ کی اصلاح کے لیے زبانی دعوے اور نصیحتیں کارگر نہیں ہوتیں بلکہ اس کے لیے انسان کو سراپا اخلاق اور مہرومروّت بن کر رہنا پڑتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’لوگوں کے معلّم اور ہدایت کنندہ بنو! زبان سے نہیں ، بلکہ اپنے اعمال، رفتار اور کردار سے۔‘‘

اسلام دین و دنیا کی وحدت اور ہمہ گیر توازن کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو علم اور عقل کے معیار پر پوری نہ اُترتی ہو۔ اسلام کے نزدیک ہر نفس اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو۔ اسلام نے باہمی تعلّقات اور معاشرے کی اصلاح و سدھار کے لیے حقوق و فرائض کے جو دائرے متعین کیے ہیں ان کی بنیاد احسان اور حسن ِ سلوک پر رکھی گئی ہے تاکہ معاشرے میں زبانی نصیحت و وعظ کے بجائے عملی طور پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے احوال کی اصلاح کریں۔

اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ پیار و محبت، ایثار و قربانی اور عزت و احترام کا دائرہ ہم محض مسلمانوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ تمام انسانوں کے علاوہ حیوانات اور ہر ذی حیات کو اس سے راحت و آرام پہنچائیں۔ یہی اسلام کا مقصدِ عظیم ہے۔

نوٹ: میرا مندرجہ بالا مضمون روحانی ڈائجسٹ کے جنوری 2008 عیسوی کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.