برداشت مزاج سے ، صبر و تحمل ہاتھ سے گیا
جب زندگی مصیبتوں اور پریشانیوں کی مستقل آماجگاہ بن جائے ، اپنا آپ غیر محفوظ محسوس ہو، مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو اور انسان ہر لمحہ عدم تحفظ کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو مزاج میں برداشت اور اعمال میں صبر و تحمل کہاں سے پیدا ہوگا؟ ہمارے ملک میں بد امنی ، ابتر معاشی صورتحال اور صحت مند تفریح کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے عمومی رویوں میں عدم برداشت ، چڑچڑاپن اور کرختگی آجانا کوئی انہونی بات نہیں۔

ایک دوسرے کے مسالک اور اختلافِ رائے کو برداشت کرنا اور آپس میں بھائی چارے اور اُخوت کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارے علماء، بزرگوں ، اساتذہ اور والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کی اس نہج پر رہنمائی کریں کہ اُن کے اندر ایک دوسرے کی آراء کو برداشت کرنے اور باہمی ہمدردی اور بھائی چارے کے جذبات فروغ پائیں۔ حکومتِ وقت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دہشت گردی اور بدامنی پر قابو پائے اور ملک کو غیر یقینی صورتحال سے نکالے تاکہ لوگوں کے اندر تحفظ کا احساس پیدا ہو اور وہ ذہنی طور پر یکسو اور مضبوط ہو کر معاشرے میں مثبت جذبات کے ساتھ اپنی زندگیاں گزار سکیں۔
نوٹ: یہ مضمون روزنامہ جنگ کے صفحہ "نوجوان" میں 7 فروری 2015ء کو شائع ہوا۔ اخبار کا اسکین شدہ صفحہ نیچے دیا گیا ہے۔
![]() |
تصویر پر کلک کر کے اصل سائز میں دیکھیں |