شش۔ ۔ ۔ ش۔ ۔ ۔ کوئی ہے!!!

بَلا کی سرداور گھُپ اندھیری رات تھی۔بارش کی بوندیں رہ رہ کر گِر رہی تھیں۔ شہر کے ایک مکان میں احتشام صاحب کتاب پڑھنے میں مصروف تھے۔ ان کی بیگم کڑھائی بھی کرتی جاتی تھیں اور ان سے باتیں بھی کر رہی تھیں۔ وہ صرف ’’ہاں‘‘ ، ’’ہوں‘‘ سے بیگم کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔

عین اُسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی۔ ۔ ۔ رات کا وقت اور دروازے پر دستک؟۔ ۔ ۔ بیگم احتشام کو ایک دَم یاد آیا۔ ۔ ۔ ’’ہاں! بالکل ایسی ہی کالی اور بھیانک رات تھی اور دروازے پر ایسی ہی دستک ہوئی تھی۔ ان کا اکلوتا بیٹا فخر دروازہ کھولنے گیا تھا۔ دروازہ کھولتے ہی اس نے نجانے کیا دیکھا تھا کہ چیخ مار کر وہیں گِر پڑا تھا۔ میاں بیوی دونوں دوڑے دوڑے دروازے کی جانب لپکے تھے۔ لیکن انھوں نے جو منظر دیکھا‘‘۔ ۔ ۔ یہ سوچتے ہی بیگم احتشام کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ’’ہائے!کس قدر خوفناک منظر تھا!۔ ۔ ۔ فخر ،ان کا اکلوتا اور عزیز بیٹا۔ ۔ ۔ غائب تھا۔ ۔ ۔ خون کے جابجا نشانات فرش کو سرخ کر رہے تھے۔‘‘

’’نہیں!!!۔ ۔ ۔ ‘‘بیگم احتشام چلائیں۔

احتشام صاحب چونک کر اُٹھے اور بیگم کو دِلاسا دینے لگے۔عین اُسی لمحے دروازے پر ایک اور دستک ہوئی۔دونوں میاں بیوی سہم کر رہ گئے۔

’’دیکھیں کوئی دروازے پر ہے!‘‘بیگم احتشام بولیں۔

’’ارے نہیں!کوئی چوہا ہے!‘‘احتشام صاحب ڈرتے ہوئے بولے۔

’’فخر ۔ ۔ ۔ مم۔ ۔ ۔ میرا بیٹا!‘‘بیگم احتشام بڑبڑائیں۔پھر اپنے شوہر سے مخاطب ہوکر بولیں:’’یہ فخر ہے!میرا دل کہتا ہے یہ فخر ہے!‘‘

’’خدا کے واسطے اسے اندر نہ آنے دینا۔‘‘احتشام صاحب خوف سے چلائے۔

’’اب آپ اپنے بچّے سے ڈرتے ہیں؟‘‘بیگم بولیں۔

پھر وہ اُٹھیں اور دروازے کی جانب بڑھیں۔دروازے پر ایک اور زوردار دستک ہوئی۔بیگم احتشام پہلے پہل تو گھبرائیں مگر پھرہمّت کرتے ہوئے بولیں۔

’’میں آرہی ہوں فخر بیٹا۔ ۔ ۔ میں آرہی ہوں!‘‘

احتشام صاحب نے روکنے کی کوشش کی اور بولے:’’دیکھو!پچھلی بارجب ایسی دستک ہوئی تھی تو ہمارا فخر ہم سے جُدا ہو گیا تھا۔اس بار بھی کوئی خطرناک بات ہوگی۔‘‘

مگر وہ نہ مانیں اور تیزی سے دروازے کی جانب لپکیں۔دروازے کے پاس چونکہ بلب خراب تھا، اس لیے وہاں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔دروازے کی کنڈی لگی ہوئی تھی۔انھوں نے ٹٹول ٹٹول کر تلاش کی۔کنڈی کچھ سخت تھی،ان سے کھل نہ سکی۔

اتنے میں احتشام صاحب دوڑ کر دروازے کی طرف بھاگے اور بیگم کا ہاتھ کنڈی سے کھینچ کر ہٹا دیا۔بیگم نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی،مگر کامیاب نہ ہوسکیں۔

احتشام صاحب بولے:’’آخر تم دوسری بار کیوں اپنا نقصان کروانا چاہتی ہو؟‘‘

بیگم نے احتشام صاحب کو دھکا دے کر ہاتھ چھڑا لیا اور کنڈی کو بجلی کی سی تیزی سے زور دے کر کھول دیا۔احتشام صاحب دھکا کھا کر دیوار سے ٹکرائے۔ان کا سر چکرانے لگا۔مگر وہ ہمّت کر کے اُٹھے اور دروازے کی جانب چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ بڑھنے لگے۔مگر ان کی بیگم دروازہ کھول چکی تھیں۔

باہر دو آدمی کھڑے تھے۔اندھیرے کی وجہ سے ان کی شکلیں واضح نظر نہ آتی تھیں۔ایک کے ہاتھ میں شاید بریف کیس تھا۔بیگم احتشام بولیں:’’کون؟!!!‘‘

بریف کیس والے نے جواب دیا۔’’جی ہم نیب کی طرف سے آئے ہیں،احتشام صاحب کو بلادیجئے!‘‘

بیگم احتشام کے لیے بس اتنا سننا ہی کافی تھا۔انھوں نے پلٹ کر شوہر کی طرف دیکھا۔احتشام صاحب اپنے سر کی چوٹ تو برداشت کر گئے تھے،مگر اس بات کا صدمہ برداشت نہ کر سکے تھے اور زمین پر بے ہوش گرے ہوئے تھے۔
٭۔ ۔ ۔ ٭

بے جا تنقید کا سامنا کیسے کریں؟

کچھ بے وقوف تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو بھی برا بھلا کہہ دیتے ہیں ،جو خالق و مالک اور پالنہار ہے، جو سب کو روزی دیتا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر ہم اور آپ ، جو خطاکار ہیں،غلطیاں کرتے رہتے ہیں، کی کیا حیثیت؟ ہمیں تو لوگوں کی بے جا برائی اور تنقید کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ ہمیں برباد کرنے کے منصوبے بنیں گے، جان بوجھ کر اہانت کی جائے گی۔ جب تک آپ دے رہے ہیں، بنا رہے ہیں، موثر ہیں، ترقی کر رہے ہیں تب تک لوگ آپ پر تنقید سے نہ چوکیں گے۔ سوائے اس کے کہ آپ زمین میں سما جائیں یا آسمان پر چڑھ جائیں اور ان کی نظروں سے دور ہو جائیں۔ جب تک آپ ان کے بیچ ہیں آپ کو اذیت پہنچتی رہے گی ، آنسو نکلیں گے، نیند اُڑے گی۔ جوزمین پر بیٹھا ہوا ہے، وہ نہیں گرا کرتا:
ع           گرتے ہیں شہہ سوا ر ہی میدانِ جنگ میں
لوگ آپ پر اسی لیے تو ناراض ہوتے ہیں کہ آپ علم ، صلاحیت، اخلاق یا مال میں ان سے بڑھ گئے ہیں۔ وہ آپ کو معاف کر ہی نہیں سکتے جب تک آپ کی صلاحتیں ختم نہ ہو جائیں اور اللہ کی نعمتیں آپ سے چھن نہ جائیں، آپ ساری اچھائیوں اور خوبیوں سے تہی دامن نہ ہو جائیں۔ پلید و کند ذہن، بے کار اور صفر ہو کر نہ رہ جائیں۔ یہی وہ چاہتے ہیں!لہٰذا آپ کوان کی بے جا تنقید، نارواباتوں اور تحقیر کو برداشت کرنا ہوگا۔ احد پہاڑ کی طرح جم جائیے، ایسی چٹان بن جائیے جس پر اولے پڑتے ہیں اور ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں مگر چٹان اپنی جگہ جمی رہتی ہے۔ اگر آپ نے لوگوں کی تنقیدوں کو اہمیت دے دی تو آپ کی زندگی کو مکدر کر دینے کی ان کی منہ مانگی مراد پوری ہو جائے گی ۔ لہٰذا بہتر طور پر درگزر کیجئے ۔ ان سے اعراض کیجئے اور ان کی باتوں میں نہ آئیے۔ ان کی فضول برائی سے آپ کا درجہ بلند ہوگا۔ پھر جتنا بھی آپ کا وزن ہوگا، اتنا ہی ہنگامہ اور شور و شغب آپ کے خلاف ہوگا۔ آپ کس کس کے منہ کو بند کریں گے ؟ لیکن اگر ان سے صرف نظر کریں گے ، ان کے حال پر چھوڑ دینگے تو آپ ان کی تنقیدوں سے بچ سکتے ہیں۔
 اور جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصہ سے انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں کہہ دو تم اپنے غصہ میں مرو الله کو دلوں کی باتیں خوب معلوم ہیں۔اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے توانہیں بری لگتی ہے اور اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اس سے خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو ان کے فریب سے تمہارا کچھ نہ بگڑے گا بے شک الله ان کے اعمال پر احاطہ کرنے والا ہے۔(سورة آل عِمرَان 119-120)

یہی نہیں بلکہ اپنے فضائل و محاسن میں اور اضافہ کرکے ، اپنی خامیوں کو دور کر کے آپ ان کی زبانوں میں تالا ڈال سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ یہ چاہیں گےکہ دنیا کے نزدیک تمام عیوب سے بری ہو جائیں اور سبھی لوگوں میں مقبول ہو جائیں تو یہ ناممکن کی آرزو ہے اور دور کی اُمید!
٭…٭
{لا تحزنDon't Be Sad  غم نہ کریں، صفحہ ۲۷}
(مئولف : ڈاکٹر عائض القرنی، ترجمہ : غطریف شہباز ندوی)

القلم تاج نستعلیق ریلیز (اعلان)

تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول
[IMG]
تحریر: شاکر القادری

بہت عرصہ پہلے مرزا جمیل احمد صاحب نے نوری نستعلیق کے ترسیمے متعارف کروا کر نوری کتاب کے ذریعہ ایک انقلاب بر پا کیا۔ یہ ترسیمے ایک طویل عرصہ تک تجارتی بنیادوں پر استعمال ہوتے رہے اور ہر کس و ناکس کی دسترس سے باہر۔ امجد حسین علوی اور جمیل نستعلیق ٹیم نے ان کو بطور مفت فانٹ متعارف کرواکر ایک اور اہم سنگ میل عبور کیا اس کے باوجود ایک لاہوری طرز کے فانٹ کی ضرورت باقی رہی اسی دوران ہندوستان سے ان پیج نامی سافٹ ویئر کے ساتھ فیض نستعلیق آیا یہ بھی تجارتی بنیادوں پر استعمال ہونے والا فونٹ ہے گو کہ اب یہ بھی یونی کوڈ فانٹ کی صورت میں دستیاب ہے لیکن اس کے باوجود یہ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ لاہوری طرز کے ایسے ترسیمے تیار کیے جائیں جن کے ذاتی اور نجی استعمال پر کوئی اخلاقی اور قانونی قدغن نہ ہو۔ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تین سال قبل استاد تاج الدیں زریں رقم کے مرقع زریں سے استفادہ کرتے ہوئے ترسیموں کی تیاری کا آغاز کیا گیا۔ اور بالآخر تین سال کی شبانہ روز محنت کے بعد تقریبا تیس ہزار ترسیمے تیار کر لیے گئے۔
ہمارے لیے یہ بات اتہائی مسرت اور دلی اطمینان کا باعث ہے کہ اب یہ ترسیمے حکیم الامت شاعر مشرق کے یوم ولادت کے موقع پر ۹ نومبر ۲۰۱۲ کو اردو کمیونٹی کی نذر کیے جا رہے ہیں۔یہ ہماری جانب سے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ کو ایک حقیر سا خراج عقیدت ہے
گرقبول افتد زہے عزو شرف
[IMG]

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے والے فانٹس تجارتی استعمال کے لیے تھے اور ان کے مفت استعمال پر پابندی تھی جبکہ القلم تاج نستعلیق کے ترسیموں کو بلا خوف و خطر بالکل بلا معاوضہ ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے البتہ اسکا تجارتی استعمال ممنوع ہے۔ اس فانٹ کے جملہ حقوق محفوظ کروائے گئے ہیں اور کسی بھی کمرشل سافٹ ویئر کے ساتھ استعمال کے لیے اس کے خالق سے اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا بصورت دیگر قانونی کارروائی کا حق محفوظ ہے۔
[IMG]

ہمارا بنیادی مقصد اردو کمیونٹی کو استعمال کرنے کے لیے ان ترسیمہ جات کی فراہمی تھی ۔ تاہم ان ترسیموں کو ایک فونٹ کی شکل میں ریلیز کیا جا رہا ہے۔ تاکہ یہ فوری طور پر قابل استعمال بھی ہوں۔ القلم تاج نستعلیق کے اس آزمائشی نسخہ میں (جوکہ بلا معاوضہ فراہم کیا جا رہا ہے ) کشیدہ کی سہولت موجود نہیں ہے جبکہ القلم تاج نستعلیق کے لیے تیار کیے گئے کیریکٹر بیس فانٹ میں کشیدہ کی سہولت بہرحال موجود ہے جس کی جھلکیاں آپ نے القلم تاج نستعلیق کے مختلف نمونوں میں دیکھی ہونگی فی الحال کشیدہ کی سہولت کو مزید بہتر بنائے جانے پر کا ہو رہا ہے اس لیے کشیدہ کی سہولت فراہم نہیں کی جا سکی۔


گوکہ یہ ان ترسیموں کا نقش اول ہے اور اس میں بہت ساری خامیاں موجود ہوگی تاہم امید ہے کہ آپ کو یہ ترسیمے پسند آئیں گے۔ ہمیں اس سلسلہ میں آپ کی آرا کا شدت سے انتظار ہوگا۔ اگر آپ کسی ترسیمہ میں بہتری کی گنجائش دیکھیں یا کوئی نیا ترسیمہ شامل کرانا چاہیں تو اس کی نشاندہی ضرور کریں یہ نشاندہی آپ یہاں پر تبصرہ کی صورت میں کر سکتے ہیں ہماری کوشش ہوگی کہ القلم تاج نستعلیق کے ترسیموں کو آپ کی آرأ کی روشنی میں بہتر سے بہتر بنایا جا سکے اس لیے اس سلسلہ میں آپ بلا تکلف اپنی ارأ ہم تک پہنچا سکتے ہیں جس کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہونگے۔
[IMG]


احساس تشکر!
بار امانت سے سبکدوش ہونے کے بعد میرا یہ فرض بنتا ہے کہ میں اپنے ان تمام ساتھیوں کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے قدم بقدم میری حوصلہ افزائی کی اور میرے حوصلوں کے لیے مہمیز کا کام کرتے رہے۔ اردو محفل کے نبیل آپ کا شکریہ! آپ نے میری بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی اس کے جواب میں میں اپنی محبت کا اظہار اس کے سوا اور کیا کر سکتا ہوں کہ میں اس فانٹ کو القلم فورم کی بجائے اردو محفل کے پلیٹ فارم سے ریلیز کر رہا ہوں یہ اردو محفل سے میری محبت کا ایک ادنی سا اظہاریہ ہے اور شاید آپ کو میرا یہ انداز محبت پسند آجائے، اشتیاق علی قادری میں آپ کا شکریہ نہیں ادا کرونگا بلکہ شکرگزاری کے ان احساسات میں آپ میرے ساتھ اسی طرح شامل ہیں جس طرح آپ ترسیمہ جات کی تیاری میں میرے شانہ بشانہ تھے۔علوی لاھوری نستعلیق کے خالق امجد حسین علوی کی تیکنیکی معاونت اور مخلصانہ مشاورت کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ ترسیمہ جات کو فانٹ میں شامل کرنا اور ہر ترسیمے کو فعال اور قابل استعمال بنانے کے لیے پروگرامنگ کے ذریعہ ہدایات لکھنا ایک طویل ، صبر آزما اور پیچیدہ عمل تھا جس کو اگر عمومی انداز میں کیا جاتا تو شاید بہت زیادہ وقت لگتا اور بے تحاشا غلطیاں بھی ہوتیں اور فانٹ کو کئی مرتبہ پروف خوانی کے عمل سے گزارنا پڑتا لیکن اردو محفل کے منتظم سید نبیل حسن نقوی اور اردو محفل و القلم کے رکن ابرارحسین نے شب و روز کام کر کے یہ تمام کام خود کار انداز میں انجام دینے کے لیے ضروری اطلاقیے تیار کر کے دیےاور فانٹ سازی کے عمل میں آسانیاں پیدا کرنے کا موجب بنے۔ ان اطلاقیوں کی تیاری کےسلسلہ میں برادرم عبدالمجید اور عارف کریم کی مشاورت بھی شامل حال رہی وہ بھی ہمارے خصوصی شکریے کے مستحق ہیں۔ القلم تاج نستعلیق کی ریلیز کے لیے ایک مناسب اور موزوں لائسنس کی ضرورت تھی جس کے تحت اس فونٹ کے ذاتی استعمال کے فروغ اور تجارتی استعمال کی حوصلہ شکنی ہو۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے تجسس اردو سائنس فورم کےمنتظم محمد سعد نے شبانہ روز محنت کی اور پہلے سے موجود آزاد سافٹ وئیر لائسنسز کا جائزہ لے کر ان میں سے مناسب ترین کا انتخاب کیا۔ اور چند مخصوص شقوں کو شامل کرنے کے علاوہ کچھ شقوں میں جزوی ترمیم کے ساتھ القلم تاج نستعلیق اوپن سورس فونٹ لائسنس تیار کیا اس لائسنس کی تیاری کے سلسلہ میں انہیں اردو محفل کے سعادت اور الف نظامی کی مشاورت حاصل رہی جب کہ قانونی معاملات کے سلسلہ میں شعیب صفدر نے قیمتی مشاورت فراہم کی میں ان سب کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں اس لائسنس کی اردو تلخیص فیصل آباد کے محمد شاکر عزیز (دوست) نے فراہم کی وہ بھی ہمارے شکریہ کے خصوصی مستحق ہیں۔ القلم تاج نستعلیق کے لیے بینرز اور لوگو باسم نے تیار کیئے میں ان کا بھی شکر گزار ہوں۔سسٹر مہوش علی نے بھی اس فانٹ کی تیاری کے سلسلہ میں اکسانے کی حد تک میری حوصلہ افزائی کی آج کل بہت کم نظر آتی ہیں شاید کہیں کسی فورم پر علمی مباحث میں الجھی ہوئی ہوں لیکن وہ اس ریلیز پر بہت خوش ہونگی، ان کا بھی شکریہ۔ القلم کے تیکنیکی مشیر عبدالرؤف اعوان کی شبانہ روز محنت کی داد نہ دینا بھی بخل ہوگا کیونکہ انہوں نے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ نہ صرف القلم تاج انسٹالر پیکج تیار کیا بلکہ تاج نستعلیق کی آفیشل سائٹ کو بنانے اور سنوارنے کا کام بھی انتہائی حسن و خوبی سے انجام دیا اور تاج نستعلیق کی ریلیز کے تمام مراحل میں وہ ہمارے ہم قدم رہے ہم انکے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ آخر میں ہم ان تمام ساتھیوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے دامے درمے قدمے سخنے کسی بھی طور ہمارے پروجیکٹ کی حوصلہ افزائی کی اور ہمارے عزائم کو بلند کیا ۔ اللہ کریم سب کو اجر خیر عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔


[IMG]

نوٹ: اس مراسلہ کو ایم ایس ورڈ سے اٹھا کر پیسٹ کیا گیا ہے اور اس پر القلم تاج نستعلیق فونٹ اپلائی کیا گیا تھا اگر آپ کو کچھ گڑ بڑ نظر آرہا ہو تو فونٹ انسٹال کرنے کے بعد ٹھیک ہو جائے گا

گھر میں رہا کریں!

یہ مشروع اور مسنون ہے کہ اہل شر، بے کار ،فضول، آوارہ اور ناکارہ لوگوں سے دور رہ کر آپ گھر میں گوشہ نشین رہیں۔ اس صورت میں آپ کو قلبی اطمینان اور روحانی سکون ملے گا۔ آپ کا ذہن تیز کام کرے گا، آپ کی معلومات بڑھیں گی۔

خی
ر و اطاعت کے کاموں سے روکنے والی مشغولیات سے دور رہنا ایک ایسی دوا ہے جس کو اہل دل نے استعمال کیا ہے اور کامیابی حاصل کی ہے۔ یہی میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ برائی ، لغویات اور گنواروں سے الگ رہیں تو عقل بڑھے گی۔ عزت کی حفاظت ہوگی، خدا سے لو لگانے کا موقع ملے گا۔ وہ جگہیں جہاں جمع ہونا اور لوگوں سے بات چیت اچھی سمجھی جاتی ہے باجماعت نمازیں، جمعہ ، علم کی مجلسیں اور خیر پر تعاون کے مواقع ہیں۔ کاہلی اور بے کاری کی جگہوں سے دور رہیں۔ اپنی کھال بچائیے۔ اپنی خطا پر روئیے، اپنی زبان پر قابو رکھیں اور گھر میں بیٹھیں۔ بے کار لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا اپنے خلاف جنگ کرنا ہے، اپنے اندر کے امن و امان کو تباہ کرنا ہے، کیونکہ یہ گنوار افواہ باز ہوتے ہیں، فضولیات پھیلاتے ہیں۔ فتنوں اور حادثات میں نمک مرچ لگا کر پھیلاتے ہیں اور ایسا آپ کو ڈرا دیں گے کہ آپ موت سے پہلے دس مرتبہ مر جائیں۔ اگر یہ تمھارے درمیان نکل آئیں تو تمھیں بہکانے میں کوئی کمی نہ کریں۔
مجھے پوری اُمید ہے کہ آپ کمرہ میں بیٹھیں گے ، اپنے کام سے کام رکھیں گے۔ ہاں اگر بھلی بات یا خیر کا کام ہوتو اس میں شریک ہوں، ایسا کریں گے تو دل پرسکون رہے گا، وقت ضائع ہونے سے بچے گا، عمر برباد نہ ہوگی، زبان غیبت سے بچے گی، کان بری بات نہ سنیں گے، نفس میں سوء ظن پیدا نہ ہوگا۔ جو اس کا تجربہ کرے گا ، جان لے گا۔ جو اوہام کی سواری پر بیٹھے ، گنواروں میں وقت گزارے، اسے دور ہی سے سلام!
٭…٭
{لا تحزنDon't Be Sad غم نہ کریں، صفحہ ۳۵}
(مئولف : ڈاکٹر عائض القرنی، ترجمہ : غطریف شہباز ندوی)

قدر ان کی کب کی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مر گئے وہ جب کی!

خاوند سارے دن کے کام سے تھکا ہارا گھر واپس لوٹا ۔ ۔ ۔
تو کیا دیکھتا ہے کہ اُس کے تینوں بچے گھر کے سامنے ۔ ۔ ۔
کل رات کے پہنے ہوئے کپڑوں میں ہی مٹی میں لت پت کھیل رہے ہیں۔
گھر کے پچھواڑے میں رکھا کوڑا دان بھرا ہوا اور مکھیوں کی آماجگاہ ہوا ہے۔
گھر کے صدر دروازے کے دونوں پٹ تو کھلے ہوئے تھے ہی،

مگر گھر کے اندر مچا ہوا اودھم اور بے ترتیبی کسی میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی تھی۔
کمرے کی کُچھ لائٹیں ٹوٹ کر فرش پر بکھری پڑی تھیں تو قالین دیوار کے ساتھ گیا پڑا تھا۔
ٹیلیویژن اپنی پوری آواز کے ساتھ چل رہا تھا تو بچوں کے کھلونے فرش پر بکھرے ہوئے تھے اور کپڑوں کی مچی ہڑبونگ ایک علیحدہ کہانی سنا رہی تھی۔
کچن کا سنک بغیر دُھلی پلیٹوں سے اٹا ہوا تھا تو دسترخوان سے ابھی تک صبح کے ناشتے کے برتن اور بچی کُچھی اشیاء کو نہیں اُٹھایا گیا تھا۔
فریج کا دروازہ کھلا ہوا اور اُس میں رکھی اشیاء نیچے بکھری پڑی تھیں۔
ایسا منظر دیکھ کر خاوند کا دل ایک ہول سا کھا گیا۔ دل ہی دل میں دُعا مانگتا ہوا کہ اللہ کرے خیر ہو، سیڑھیوں میں بکھرے کپڑوں اور برتنوں کو پھاندتا اور کھلونوں سے بچتا بچاتا بیوی کو تلاش کرنے کیلئے اوپر کی طرف بھاگا۔ اوپر پہنچ کر کمرے کی طرف جاتے ہوئے راستے میں غسلخانے سے پانی باہر آتا دِکھائی دیا تو فوراً دروازہ کھول کر اندر نظر دوڑائی، باقی گھر کی طرح یہاں کی صورتحال بھی کُچھ مختلف نہیں تھی، تولئیے پانی سے بھیگے فرش پر پڑے تھے۔ باتھ ٹب صابن کے جھاگ اور پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا اور اُسی کا پانی ہی باہر جا رہا تھا۔ ٹشو پیپر مکمل طور پر پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، ٹوتھ پیسٹ کو شیشے پر ملا ہوا تھا۔ خاوند نے یہ سب چھوڑ کر ایک بار پھر اندر کمرے کی طرف دوڑ لگائی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ کھولا تو انتہائی حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُسکی بیوی مزے سے بیڈ پر لیٹی ہوئی کسی کہانی کی کتاب کو پڑھ رہی تھی۔ خاوند کو دیکھتے ہی کتاب نیچے رکھ دی اور چہرے پر ایک مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی؛ آپ آ گئے آفس سے، کیسا گُزرا آپکا دِن؟
خاوند نے بیوی کا التفات اور استقبال نظر انداز کرتے پوچھا؛ آج گھر میں کیا اودھم مچا پڑا ہے؟
بیوی نے ایک بار پھر مُسکرا کر خاوند کو دیکھا اور کہا؛ روزانہ کام سے واپس آ کر کیا آپ یہی نہیں کہا کرتے کہ میں گھر میں رہ کر کیا اور کونسا اہم کام کرتی ہوں؟
خاوند نے کہا؛ ہاں ایسا تو ہے، میں اکثر یہ سوال تُم سے کرتا رہتا ہوں۔
بیوی نے کہا؛ تو پھر دیکھ لیجیئے، آج میں نے وہ سب کُچھ ہی تو نہیں کیا جو روزانہ کیا کرتی تھی۔
*****

 پیغام

ضروری ہے کہ انسان دوسروں کی محنت اور اُن کے کیئے کاموں کی قدر اور احساس کرے کیونکہ زندگی کا توازن مشترکہ کوششوں سے قائم ہے۔ زندگی کچھ لینے اور کچھ دینے سے عبارت ہے۔ جس راحت اور آرام کی معراج پر آپ پہنچے ہوئے ہیں اُس میں دوسروں کے حصہ کو نظر انداز نا کیجیئے۔ ہمیشہ دوسروں کی محنت کا اعتراف کیجیئے اور بعض اوقات تو صرف آپکی حوصلہ افزائی اور اور قدر شناسی بھی دوسروں کو مہمیز کا کام
دے جایا کرتی ہے۔ دوسروں کو اتنی تنگ نظری سے نا دیکھیئے۔

معاشرے کا ناسور

کوئی وقت تھا جب بھکاری صرف صدا پر اکتفا کرتے تھے، ہم جیسے مڈ ل کلاس لوگ جن کے گھروں کے باہر دربان کا پہرہ نہیں ہوتا، وہ آجکل کےفنکار بھکاریوں کے لئے نہایت آسان ٹارگٹ ہیں،، اور ان بادشاہ لوگوں کے آنے کا کونسا کوئی وقت متعین ہے جب چاہیں آپ کے دروازے پر دستک دیں گے اور ایسی دکھ بھری کہانی سنائیں گے کہ ذہن کچھ کہے نہ کہے دل کا ہاتھ جیب کی طرف بڑھ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر آدمی جس نے پاکستان میں دس بارہ سال بتائے ہیں اس کی جیب میں بھکاریوں کے عجب دکھ کی غضب کہانیاں ضرور ہوں گی، ایسی ہی ایک غضب کہانی ہمارے انکل کے عہد ایف ایس سی کی یادگار ہے جو انہؤں نے بتائی کہ جب ہم کیمسٹری کے عظیم استاد جناب عزیز الرحمن صاحب کی ٹیوشن پر موجود تھے اور ایک شکل و صورت سے مناسب سا آدمی اندر داخل ہوا، مناسب اس لئے کہ وہ بہت منجھا ہوا بھکاری محسوس نہ ہوتا تھا۔۔۔۔۔اس نے اپنی بپتا جو سنائی کہ اس کا گھر ایک آدھ گلی چھوڑ کر ہے اور اس کی بیوی درد زہ سے بے قرار ہے اور گھر میں کچھ سامان ایسا نہیں جس کو بیچ کر وہ آنے والے مہمان کا استقبال کر سکے۔۔۔ذکر اس پری وش کا اور بیاں اپنا جیسا ماحول بن گیا۔۔۔دکھ بھری کہانی، ضرورت کا اشد ہونا اور ہمارا عہد جوانی جہاں بہک جانے کے لئے دل خود ہی بہانے ڈھونڈتا ہے۔۔۔۔۔سب دوستوں نے دل کھول کر مدد کی اور جو کچھ جیب میں تھا اس کی نذر کر دیا۔۔۔ایسے فراخ دلوں میں عزیز از جان دوست ڈاکٹر جواد بھی موجود تھے۔۔۔۔خیر ابھی خالی جیب اور سخاوت کا یہ گھاوٗ بھرا نہیں تھا کہ ہم ایک دن ملتان کچہری چوک سے گذر رہے تھے کہ وہی سوالی تھا اور وہی سوال۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب اس فنکار کو بس اتنا کہہ پائے کہ اب تو تمہارا بچہ چھ ماہ کا ہو گیا ہو گا۔۔۔۔۔اس بھکاری نے شاید تھوڑی شرمندگی محسوس کی اور وہاں سے غائب ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔۔۔۔لیکن آج بارہ سال بعد بھوک اتنی بڑھ چکی ہے یا یوں کہیے کہ پروفیشنلزم اس قدر بڑھ چکا ہے بھکاری حقیقتا جیب سے پیسے نکالنے کی حد تک چلے جاتے ہیں۔

ہر سچ کی طرح یہ بھی سچ ہے کہ آج انفارمیشن کا دور ہے ہر طرف معلومات کا گویا خزانہ لٹایا جارہاہے۔سائنس روز بروز ترقی کرکے حضرت انسان کے لئے کچھ نہ کچھ ایجاد کرتی رہتی ہے۔ کل تک انسان اپنے پیاروں کی آواز کو ترستا تھا ‘ کوسوں دور بلکہ سات سمندر پار کے لوگوں سے رابطہ بہت مشکل وتھکا دینے والا کام تھا اور اس رابطہ ہو جانے پر بھی تسلی نہیں ہوتی تھی پھر فون آیا پھر موبائل فون آگیا اور گویا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب آگیا۔ سائنس کی ہر ایجاد سے ہم متاثر تھے مگر اب یہ جو تبدیلی آئی ہے اس سے توبری طرح سے متاثر ہیں،جتنی جلدی یہ موبائل فون عام ہوا ہے اتنی ہی جلدی اس نے عوام کا ناک میں دم کردیا ہے۔موبائل فون پاکستان کے تقریباًہر شخص نے خریدا ہوا ہے، چاہے اُس کے پاس شام کے کھانے کے پیسے نہیں مگر اس کے پاس موبائل موجود ہے۔
اب تو بھکاری بھی اس ایجاد کو استعمال کررہے ہیں موبائل چونکہ ہر پاکستانی کی طرح ان کے پاس بھی ہیں لہٰذہ وہ بھی اپنی سی کرہے ہیں۔جب سائنس کے اس دور میں سب کچھ ڈیجیٹل ہورہا ہے تو اب یہ بھکاری بھی ڈیجیٹل ہوگئے ہیں اور موبائل کے زریعے بھیک مانگتے ہیں وہ اس طرح کہ یہ بھکاری موبائل کا میسیج بھیج دیتے ہیں کہ میں ایک غریب لڑکا ہوں ماں باپ کا اکلوتا سہارا ہوں لیکن آج کل بے روزگار ہوں برائے مہربانی چند روپے میرے موبائل میں بھیج دیں تاکہ میرا گزارہ ہوسکے۔ اسی طرح کا ایک میسیج ایک صاحب کو آیا کہ میں ایف اے کی طالبہ ہوں میرے والد دمے کے مریض ہیں اور میری تعلیم کے اخراجات نہیں اٹھاسکتے میں ایک لائق طالبہ ہوں کسی سے بھیک نہیں مانگ سکتی مگر آپ بھلے آدمی سے درخواست ہے کہ مجھے کچھ رقم بھیج دیں اتفاق سے وہ صاحب ڈاکٹر تھے انہوں نے اسے جواباًکہا آپ اپنے والد کو میرے کلینک لے آئیں ، میں ان کا علاج بھی مفت کردوں گا اور آپ کی مدد بھی کردوں گا، لیکن نہ وہ لڑکی اور اس کا والد ڈاکٹر کے کلینک آئے اور نہ ہی اس کے بعد کوئی میسیج آیا۔

بسوں اور گاڑیوں میں جو جوان لڑکیاں بھیک مانگتی ہیں یہ دراصل بے حیائی اور بے غیرتی کی اشاعت کرتی ہیں ، ان کے صحت مند بھائی یا باپ یا خاوند گھر میں ہوتے ہیں اور وہ ان جوان لڑکیوں کو مانگنے کے لئے بھیج دیتے ہیں یہ ان کا پیشہ ہے بلکہ اس کی آڑ میں ناگفتہ بہ واقعات کا ارتکاب کیا جاتا ہے ، ان کے ساتھ تعاون کرنا برائی اور فحش کاری کی اشاعت کرنا ہے ،

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” جس نے سوال کیا حالانکہ اسے سوال کرنے کی ضرورت نہ تھی ، اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے چہرے پر خراشیں ہوں گی ۔ ( صحیح الترغیب نمبر : 800 )

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص میری ایک بات قبول کرے میں اس کے لئے جنت کا ذمہ لیتا ہوں میں نے عرض کیا میں قبول کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا ۔

اس ارشاد نبوی کے بعد حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنی سواری پر سوار ہوتے اور ان کا کوڑا گر جاتا تو وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ میرا کوڑا مجھے پکڑا دو بلکہ خود سواری سے اتر کر اسے اٹھاتے ۔ ( مستدرک حاکم ص412 ج 1 ) بہرحال بسوں اور گاڑیوں میں پیشہ ور قسم کے بھکاری آتے ہیں خاص طور پر نوجوان لڑکیاں اس سوال کی آڑ میں بے حیائی پھیلاتی ہیں ، ان سے تعاون نہیں کرنا چاہئیے ۔ ان سے تعاون کرنا بے حیائی کو فروغ دینا ہے لہٰذا ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا چاہئیے ۔ ( واللہ اعلم )

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.