میرے بچپن کی چودہ اگست
کل ملک میں یوم آزادی منایا جائے گا۔ آج جب سڑکیں اور گلیاں قومی پرچموں سے محروم سونی سونی دکھائیں دیں تو مجھے اپنے بچپن کے چودہ اگست کے ایام شدت سے یاد آئے۔ کیا جذبہ کیا شوق ہوا کرتا تھا! اگست کے شروع ہوتے ہی چودہ اگست منانے کی تیاریاں شروع ہو جایا کرتی تھیں۔ نہایت شوق و ذوق سے جھنڈیاں خرید کر لایا کرتے تھے۔ پھر خود ہی اپنے بڑوں کی رہنمائی میں آٹے کی لئی تیار کرتے تھے اور بڑی محنت سے جھنڈیوں کو ڈوریوں میں چسپاں کر کے جھنڈیوں کی متعدد لڑیاں تیار کیا کرتے تھے۔ اس کام کے لیے آج کے بچوں کی طرح گھر گھر جا کر چندہ جمع نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی جیب خرچ سے یہ کام سر انجام دیتے تھے۔ پھر ان جھنڈیوں کی لڑیوں کو گھر کی دیواروں پر خوبصورتی سے سجاتے تھے۔ سبز، سرخ اور نیلے رنگوں کی بہار آ جاتی تھی۔ اس کے بعد بانس پر قومی پرچم کو باندھ کر چھت پر زیادہ زیادہ اوپر لہرانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ وہ محلے کے باقی جھنڈوں سے نمایاں نظر آئے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے بیجز اور اسٹیکرز وغیرہ ضرورت سے زیادہ خرید لیتے تھے اور پھر ان میں سے کسی ایک کو پسند کر کے چودہ اگست والے دن اپنے کپڑوں پر چسپاں کرنا بھی تو ایک مشکل فیصلہ ہوا کرتا تھا۔
میرے بچپن کا یادگار یوم آزادی گولڈن جوبلی یعنی ٩٧ء کا یوم آزادی تھا۔ چونکہ یہ ٥٠ واں جشن ِ آزادی تھا تو ذرائع ابلاغ جس میں دو ٹی وی چینلز پی ٹی وی اور ایس ٹی این ، دو ایف ایم ریڈیو چینلز ١٠٠ اور ١٠١ اور اخبارات نے اس کی ہائیپ کرییٹ کر رکھی تھی۔ اگست کے مہینے کے شروع ہوتے ہی ان دو ٹی وی چینلز سے چودہ اگست کی مناسبت سے پروگرامز نشر کیے جانے لگے تھے۔ ایف ایم چینلز متواتر قومی و ملی نغمات نشر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں پاکستانی پاپ گلوکاروں میں ملی نغمے بنانے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ یوں بھی وہ زمانہ پاکستانی پاپ موسیقی کا سنہرا دور تھا۔ وائٹل سائنز، جنون، آواز، علی حیدر، شہزاد رائے اور دوسرے چھوٹے بڑے گلوکاروں اور بینڈز نے گولڈن جوبلی کے حوالے سے خصوصی ملی نغمے تیار کیے تھے۔ وائٹل سائنز کا مولا او تیرا کرم مولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آواز کا اے جواں ! اے جواں!۔۔۔۔۔ جیسے لازوال گیت جو آج بھی لوگوں کو یاد ہیں اسی گولڈن جوبلی میں ہی ریلیز ہوئے تھے۔ جب یہ ملی نغمے میں سنا کرتا تھا تو فرطِ جذبات سے میرے رونگٹے کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ ابھی بھی جب میں یہ الفاظ ٹائپ کر رہا ہوں دل میں موہوم سے ہی سہی مگر وہ احساسات دل و دماغ میں ریوائیو ہو رہے ہیں۔
It is like Revival of my Childhood Memories.....!!!
تیرہ اگست کی رات کو اپنے نانا کے گھر میں چراغاں کرنا آج بھی یاد ہے۔ اس عمل پر نانا جی کی حوصلہ افزائی اور پیار آج بھی یاد آتا ہے تو آنکھیں نم سی ہو جاتی ہیں۔
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ِ ایام تو
آج کل نجانے کیوں بچوں میں وہ جوش و جذبہ بہت کم ہو گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ بالکل ختم ہو گیا ہے مگر وہ جوش و خروش مجھے نظر نہیں آتا جو ہمارے دور کے بچوں میں ہوتا تھا۔ آج کے بچے فیس بک پر اسٹیٹس اپڈیٹ کر کے اور اپنی پروفائلز پر سبز رنگ نمایاں کر کے چودہ اگست منانے کو کافی سمجھنے لگے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کی ایک وجہ آج کے بڑوں کا حوصلہ افزائی نہ کرنا بھی ہے۔ ہمارے بچپن میں ہمارے نانا، چچا ماموں وغیرہ ہماری حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور خود بھی ہماری جشن آزادی کی تیاریوں میں ہمارا ہاتھ بٹا دیا کرتے تھے مگر آج کل کے بڑے شاید "بہت بڑے" ہو گئے ہیں۔
اللہ ہمارے بڑوں کو نیک ہدایت دے اور ہمیں بڑا ہو کر ایسا بڑا ہونے سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
بہرحال تمام اہل ِ وطن کو جشن ِ آزادی بہت بہت مبارک ہو!۔۔۔۔
Aap ki baat bilkul theek hai ke 1997 mai Yaum-e-Azadi nihayat josh-o-kharosh se manaya jata tha mgr rata rafta is mai kami aagyee aur Hamara Qaumi Tehwaar bhi Zawal pazeer hai ab na aisay Milli Naghmaat atay hain aur na koi programs
جواب دیںحذف کریںابصار صاحب ہر چیز پاکستان میں زوال پزیر ہے۔ سوائے مہنگائی کے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم بطور ایک قوم بھی رفتہ رفتہ کمزور پڑتے جا رہے ہیں!
جواب دیںحذف کریں