فروری 2014

خوارج اور طالبان

حال ہی میں زیب ملیح آبادی کی تصنیف سیرتِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ میں خوارج کا باب پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ خوارج کی بے حسی، مذہبی جنونیت، ظلم و ستم، افعال و کردار اور ظاہری وضع قطع پڑھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ فتنہ اب طالبان کی صورت میں دوبارہ سر اُٹھا رہا ہے۔ ذرا ان اقتباسات کو پڑھ کر سچے دل سے بتائیں کیا طالبان خارجیوں ہی کی ایک قسم تو نہیں؟ جنھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بخشا اور ان پر نعوذ باللہ کفر کے فتوے لگا دیے، ان سے آخر کس خیر کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ہرچند کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مذاکرات کے ذریعے انھیں سمجھانے کی پوری کوشش کی مگر آخرکار انھیں جنگ (آپریشن) کا آپشن ہی اختیار کرنا پڑا۔ 

 خوارج کے بارے میں ذیل کے اقتباسات پڑھیے اور بتائیے کہ کیا اب بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل کرنے کا وقت نہیں آیا؟








پانچ چوہے (بچوں کی سدا بہار نظم)


صوفی غلام مصطفٰی تبسم کی یہ وہ سدا بہار نظم ہے جو بچپن میں ہم یاد کر کے گایا کرتے تھے۔ آج بھی یہ اتنی ہی مشہورہے جتنی پہلے تھی۔ اس نظم کو کچھ اینی میٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُمید ہے  بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے بڑوں کو بھی پسند آئے گی اور ان کے بچپن کی یاد تازہ کرے گی۔ اپنی رائے سے آگاہ ضرور کیجئے گا۔ شکریا



نظم کے بول متن کی صورت میں پیش خدمت ہیں۔۔

ﭘﺎﻧﭻ ﭼﻮﮨﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ
ﮐﺮﻧﮯ ﭼﻠﮯ ﺷﮑﺎﺭ
ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﺎ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﭘﯿﭽﮭﮯ
ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﭼﺎﺭ

ﭼﺎﺭ ﭼﻮﮨﮯ ﺟﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺮ
ﻟﮕﮯ ﺑﺠﺎﻧﮯ ﺑﯿﻦ
ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﮯ ﮐﻮ ﺁﮔﺌﯽ ﮐﮭﺎﻧﺴﯽ
ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﺗﯿﻦ

ﺗﯿﻦ ﭼﻮﮨﮯ ﮈﺭ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﮯ
ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﺎﮒ ﭼﻠﻮ
ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﮯ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﯽ
ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﺩﻭ

ﺩﻭ ﭼﻮﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﯽ ﺗﮭﮯ ﻧﯿﮏ
ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﮯ ﮐﻮ ﮐﮭﺎ ﮔﺌﯽ ﺑﻠﯽ
ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺍﯾﮏ

ﺍﮎ ﭼﻮﮨﺎ ﺟﻮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺑﺎﻗﯽ
ﮐﺮﻟﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺷﺎﺩﯼ
ﺑﯿﻮﯼ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﻠﯽ ﻟﮍﺍﮐﺎ
ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺋﯽ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ

اللہ کے احکام کو کون قبول کرتا ہے؟

قلب ِ انسانی کی تین قسمیں ہیں:
١۔ قلبِ سلیم: وہ دل کو ہمیشہ نیکی کی طرف مائل رہتا ہے۔
٢۔ قلبِ اَشیم: جو ہمیشہ گناہوں کی راہ اختیار کرتا ہے۔
٣۔ قلبِ منیب: رجوع ہونے والا دل جو اگر کبھی بھٹکتا ہے تو فی الفور نیکی کی طرف رجوع ہو جاتا ہے۔

قلبِ سلیم تو ہر وقت نیکی کے راستے کی تلاش و جستجو میں رہتا ہے اور اس کو وہی راہ پسند آتی ہے جو نیک ہو۔

قلبِ اشیم نیکی کی طرف آتا ہی نہیں۔ اس کو نیکی ناگوار، تلخ اور ہر برائی اچھی اور صحیح معلوم ہوتی ہے اور وہ گناہ کا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔


قلبِ منیب یعنی رجوع ہونے والا دل جو اگر کبھی صحیح راہ پر چلتے چلتے غلطی کا مرتکب ہو جاتا ہے  تو فی الفور ضمیر ملامت کرتا ہے اور پھر وہ نیک راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ قلبِ منیب ہی کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ اس لیے کہ یہ دل انسان کو غلط راستے پر جاتے ہوئے دیکھتا ہے تو پھر صحیح راستے پر لے آتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ  کے حکم پر عمل پیرا رہنے کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔

چنانچہ قلبِ سلیم اور قلبِ منیب ہی اللہ کے احکام کو قبول کرتے اور اطاعت، فرمانبرداری اور اللہ کی خوشنودی پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ قلبِ اشیم سے پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ یہ ایسا دل ہے جو ہمیشہ گناہ کی طرف مائل رہتا ہے اور صحیح راہ اور احکامِ الٰہی کو ماننے، سننے اور قبول کرنے سے انکار کرتا ہےاور گمراہ ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ کبھی راہِ مستقیم پر نہیں آتا کیونکہ وہ شیطان کا مسکن بن جاتا ہے جس پر اس کا مکمل قبضہ ہے۔

"صراطِ حق" مصنفہ: عرشیہ علوی

<<< پچھلا صفحہ اگلا صفحہ >>>

صفحات

Shoaib Saeed Shobi. تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.